فوجی افسر کیسے بنتا ہے؟ـ

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان افواج نے وطنِ عزیز کے دفاع میں دشمن کو ہر جنگ اور محاذ پر منہ توڑ جواب دے کر دشمن کے دانت کھٹے کئے۔ پاک افواج نے نہ صرف براہِ راست جنگ کے میدان میں اپنا لوہا منوایا بلکہ پاکستانی عوام کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے ناسور کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اپنی تمام تر سازشوں میں ناکامی کے بعددشمن کو اس بات کا ادراک اچھی طرح ہوگیا کہ جب تک پاکستانی عوام اور پاک افواج کے درمیان اعتماد اور محبت کا تعلق قائم ہے تب تک اس عظیم قوم کو براہ راست شکست دینا ناممکن ہے۔ پھر مکار دشمن نے اپنا پینترا بدلا اور پاکستانی عوام اور فوج کے مابین خلا پیدا کرنے کی غرض سے نفرت بھرے بیانیے اور جان بوجھ کر غلط خبروں کو پھیلانا شروع کردیا اور اپنے اس گھنائونے مقصد کی تکمیل کی خاطر چند کچے ذہنوں اور خودکار تجزیہ نگاروں کو استعمال کرکے فوج مخالف بیانیے کو پھیلانا شروع کردیا۔ جس کے زیرِ اثر کچھ کم فہم لوگ ان افواہوں اور غلط خبروں کو درست مان کر دشمن کے آلہ کار بن بیٹھے اور آج کل ٹی وی پر اکثر افراد کو فوجی افسران کی سول انتظامیہ میں تعیناتیوں کے بارے بحث و تکرار کرتے سنا جاسکتا ہے کہ تمام اہم تقرریوں میں ریٹائرڈ آرمی آفیسر کیوں تعینات کردیئے جاتے ہیں؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ خود کار اور نا م نہاد تجزیہ کاروں نے بنا تحقیق کے دشمن کے اس بیانیے کو تقویت دینے میں مصروفِ عمل ہیں اور اکثر ایسے افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ فوج کے افسر وں کو صرف جنگ و جدل کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے اور میں ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپنے محدود علم، بغیر کسی منظق او ر بنا تحقیق کے فوج مخالف بیانیے کی اندھی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ ایسے خود کار تجزیہ نگاروں کو اس کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ اپنی کم علمی کے باعث وہ کس کے بیانیے کو مضبوط کر نے میں مصروفِ عمل ہیں؟سورہ الحجرات آیت نمبر 6: ارشادِ باری تعالی ہے کہ: اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کروکہیں(ایسا نہ ہو) کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔ 17 سال کی عمر کا لڑکا آرمی میں شامل ہوتا ہے اور تقریباً 25 سے 35 سال تک دور دراز سرحدی علاقوں، ریگستانوں، دشوار گزارپہاڑی علاقوں اور سخت ترین موسمی حالات کا سامنا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کے دفاع کو یقینی بنانے کیلئے ہمہ تن مصروف رہتا ہے۔ اکثر ملکی دفاع اور اپنی پیشہ ورانہ تربیتی کورسز کی خاطر کبھی بیرونِ ملک تو کبھی ملک کے دوسرے علاقوں میں تبادلوں کے باعث اپنے پیاروں سے دوری کا کرب بھی بخوشی برداشت کرلیتے ہیں ۔ یہاں ایک بات قابلِ غور ہے ! ذرا سوچئے اگر لاہور جیسے شہر میں آپ رہائش پذیر ہوں اور آپ کے بچے یہاں سکول ، کالج یا یونیورسٹی میں زیرِتعلیم ہوں اور آپ کو کسی دوسرے شہر بچوں سمیت منتقل ہونا پڑے تو کتنی مشکلات درپیش ہوں گی؟ جبکہ ہر فوجی افسر بلکہ اس کے خاندان کو 2 یا 3 سال کے دورانیے کے بعد ہونے والے تبادلوں کے باعث وطنِ عزیز سے کئے گئے عہد کی خاطر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اور ہاں یہ بات بھی ذہن نشیں کرلیں کہ! یہ وہ افسران ہیں جن کی تعلیم تقریباً 18-20 سال تک ہوتی ہے اور اِنہوں نے پی ایم اے، آرمی پروفیشنل سکول، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور غیر ملکی کورسز میں تربیت اور تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی تعلیم 18-20 سال سے زائد ہوجاتی ہے اور یہ وہ افسران ہیں جو انتہائی سخت عسکری مہمات میں بچ جانے والے غازی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جان و مال اور ملک سے پیار کا مطلب سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ یہ وہ افسر ہیں جو سینکڑوں سپاہیوں کی کمانڈ کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں مصروفِ عمل رہتے ہیں ۔اتنی کثیر تعداد میں سپاہیوں کے انتظامی امور چلانا ، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنا اور ملازمت کے معاملات کو دیکھنا بھی زندگی بھر کیلئے ایک وسیع تجربے کو جنم دیتا ہے۔ یہ افسران اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کورسز، مشقوں اور ڈیپوٹیشن کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں اور جنہیں سول حکومت ہر سماوی اور زمینی آفت کے دوران لوگوں کی امداد اور داخلی امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے طلب کرتی ہے ۔
ایک آرمی آفیسر کتنا قیمتی ہیــ؟ اس کے بارے میں مذکورہ تجربات اور خدمات کے صرف چند اہم پہلوؤں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں سابق فوجی افسران بطور سیاستدان، بیوروکریٹس، سفارتکار اور منتظمین کے عہدوں پر تعینات ہوکر ملک و قوم کی ترقی کیلئے سول حکومت کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ آئین و قانون کی رو سے اور متعلقہ تجربہ کے حامل وہ اس عہدے کیلئے موزوں ہیں۔