معاشرہ اپنے آپ کو منظم کرے

بکھرے بکھرے لوگ، مایوس چہرے، نااُمیدی، نہ منزل کا نشان، نہ دنیا میں رہنے کا طریقہ۔ البتہ تعصب بھری باتوں کے پیروکار، یہ ہے ہمارے معاشرے کی موجودہ شکل۔ پالیسیوں میں ٹھہرائو نہ ہونے کی وجہ سے آئے دن روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کی کمیابی نے زندگی دوبھر اور جینا حرام کر دیا ہے۔ اب تو لوگ سرعام سوال کرتے ہیں کہ کیا پاکستان چند خاندانوں کی معاشی اور سماجی برتری کیلئے بنا ہے۔ جن کیلئے ملکی قوانین، عزت اور احترام کا علیحدہ معیار، تعلیم اور انصاف کے اپنے طریقے اور محروم طبقوں کیلئے رسوائی، ذلت اور دربدر کی ٹھوکریں ہی لکھی ہیں۔ آخرکار پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان نیا ہو یا پرانا مایوسیوں کے بادل چھٹ ہی نہیں رہے۔ یہ نظام انگریزوں کا دیا ہوا نہیں ہے بلکہ ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے۔ اسکے متعلق کہتے ہیں کہ دادا کیس کرتا ہے اور پوتا اُس کا نتیجہ لیتا ہے۔ پہلے تعلیم کی حالت ناگفتہ بہ تھی کہ وڈیرے سکولوں میں مویشی باندھ دیتے ہیں، سکولوں کوبند کروا دیتے ہیں اور گھوسٹ ماسٹر گھروں میں بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن پھر بھی غریبوں کے بچے ٹاٹوں والے سکولوں تک جیسے تیسے رسائی کر لیتے تھے۔ لیکن اب تو تعلیم بھی پرائیویٹ ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ اب حقیقی طور پر پہلے سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ کیا کبھی کسی کو خیال آیا ہے کہ کتابیں چھاپنے والے اور سرکاری محکمے نصاب کی کتابوں میں اپنی سوچ اور اپنے عقیدے کے مطابق مضامین ڈال کر اپنا مشن پوراکرتے ہیں۔
صفائی نصف ایمان ہے اور ہم نے یہ آدھا ایمان یورپ کو دے دیا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر، غلاظت سے اَٹے ہوئے بدبودار اور تعفن زدہ کوڑے دان اپنی قسمت پر رو رہے ہیں۔ حکومت کا جو حال ہے سوہے ہم بھی اخلاقی، سماجی اور طبی طور پر سرعام جگہ جگہ گندگی پھینکے سے نہیں رُکتے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ کہتی ہے کہ رشوت ختم کر دی جائیگی، سرکاری عملہ عوام کی عزت نفس سے نہیں کھیلے گا۔ اب ایک لسٹ بنائیں حکومتی محکموں کی جن سے عوام کا پالا پڑتا ہے اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ان لوگو ں کا رویہ بدلا ہے۔ کیا رشوت ختم ہو گئی ہے۔ کیا لوگوں کی تضحیک ہونی بند ہو گئی ہے۔ کیا ظلم ختم ہو گیا ہے۔ہمارے دائیں بائیں کے چھوٹے چھوٹے ہمسائے تعلیم، کاروبار، صحت، صفائی، عدل و انصاف اور معاشی ترقی میں ہمیں پچھاڑ کر کہاں سے کہاں نکل گئے ہیں لیکن مجال ہے کہ ہمارے کانوںپر جوں تک بھی رینگی ہو۔اب آتے ہیں اپنے معاشرے کی طرف، سیدھی بات تو یہ ہے کہ ہم گھروں،گلیوں، محلوں، قصبوں اور شہروں میں اپنا فارغ وقت اوٹ پٹانگ باتوں میں ضائع کرتے ہیں۔ اگر معاشرے کے جوان، بوڑھے، طالب علم، سرکاری نوکر، کاروباری لوگ اور پنشنرز اپنے گلی محلے کے لیول پر اپنے آپ کو آرگنائز کریں اور مختلف کمیٹیاں بنائیں جو تعلیم بالغاں کا بندوبست کریں، بے روزگار لوگوں کو چھابڑی اور ریڑھی پر کاروبار کرنے پر مائل کریں اور اگر یہ لوگ جھوٹی آن بان شان اور سرکاری نوکریوں پر لگنے کی توقعات ختم کر کے اللہ کا نام لے کر کاروبار میں کودیں اور پھر دیکھیں خدا کیا کرتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے لوگ جن میں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کرنے کا جذبہ تھا انہوں نے معاشرے کے طعن و تشنیع کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنا آغازِ سفر صفر سے کیا اور صفر کے ساتھ خود کو لگا کر اپنی صلاحیتوں کو دس بنا لیا۔میں عوام سے ایک سوال کرتا ہوں کہ آپ کو کس بات کا حجاب اور شرم ہے۔ کون آپ کو طعنے دے گا۔ کیا یہ طعنے دینے والے لوگ آپکے گھر میں اشیاء خوردونوش دینے آئیں گے۔ ہرگز نہیں۔اگر جواب نفی میں ہے تو پھر لعنت بھیجو ایسے خوف پر، میدان میں کودو اور صفر سے دس اور دس سے سو ہو کر دکھائو۔اگر اپنی ہمت، عزم اور منصوبہ بندی سے ایک چائے بیچنے والا، ایک حجام اور کئی اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے جہدِمسلسل سے دنیا کے اعلیٰ و ارفع مقامات پر پہنچنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو آپکو کون روک سکتا ہے۔ زندہ، کامیاب اور باہمت لوگوں کی مثالیں اپنے سامنے رکھو اور ان تمام لعنتوں کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے میدانِ عمل میں کودو۔ہٹلر بھی انگریزوں کو طعنے دیتا رہا کہ یہ دکانداروں کی قوم ہیں پھر کیا کیا دکانداروں نے۔ جنگی میدان میں تو اُسے مات دی ہی تھی لیکن اسی دوران اُن کی جعلی کرنسی چھاپ کر پورے جرمنی میں پھیلا دی۔ لوگ بالٹیاں بھر کر نوٹ لے کر جاتے تھے اور ایک کپ چائے کا ملتا تھا۔ یوں محسوس ہو تا ہے کہ ہمارے دشمن بھی ہمارے ساتھ باقی حربوں کے علاوہ اس حربے کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ 1900ء میں آسٹریلیا کے پنشنرز نے اکٹھے ہو کر چرچوں میں جانے کی بجائے گرے آرمی کی تشکیل کی اور معاشرے میں پھیل کر تمام خرابیوں اور جرائم کی بیخ کنی کی اور لوگوں کی رہنمائی کی اور آسٹریلیا کو آسٹریلیا بنا کر دم لیا۔