درخت زندگی ہیں، کیونکہ درخت نہ صرف ہمارے ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ ہمیں جینے کے لئے آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ درخت ہی ہیں کہ جو قدرتی طور پر ہمارے ماحول کو صاف بناتے ہیں۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور ان کے ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہم انسانوں نے ان درختوں کو بہت بے رحمی سے کاٹا ہے اور زمین کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے ۔اب چاہے آپ کسی کچی آبادی میں چلے جائیں یا پھر آپ کسی بہت ہی پوش علاقے میں سے آپ کا گزر ہو ہم لوگوں کو صرف ایک خالی پلاٹ درکار ہے گند ڈالنے کیلئے ۔مگر جہاں بات آتی ہے ماحول کو خوبصورت اور بہتر بنانے کی وہیں ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ کسی کا کوئی بھی تنازعہ ہو پرانے ٹائر اُٹھا کر بیچ سڑک میں رکھ کر پورے ماحول کو ’’دھو‘‘ دیں گے اور اس کام پر اترائیں گے بھی مگر کسی کو بھی یہ خبر نہیں کہ ہم اپنے ماحول کو کس بیدردی سے تباہ کرتے جا رہے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں کر کے ہمیں تو صرف بیماریاں چاہیں اور ان بیماریوں سے بچنے کے لئے ہم مزید ہسپتال بھی بنا لیں گے مگر ہم ان بیماریوں کے تدارک کے لئے کبھی خود آگے نہیں بڑھ کر آ ئیں گے۔ ہم اپنے علاقے اور ارد گرد کے ماحول کی بہتری کے لئے خود سے کوئی اقدام نہیں اُٹھائیں گے اور اسی تاک میں رہیں گے یہ سب کچھ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے اور مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں آنے والے وقتوں میں اتنے کاہل نہ ہو جائیں کہ ہمارے منہ میں نوالہ ڈالنے کے لئے بھی حکومت کو ہی کسی کو متعین کرنا پڑے۔
چند سال میں پاکستا ن میں درختوں اور نئے جنگلات کے حوالے سے کچھ سنجیدگی دکھائی گئی ہے اور اس سلسلے کا پہلا قدم 2013کے الیکشن میں خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے اٹھایا اور ’’بلین ٹری سونامی‘‘ موومنٹ کا آغاز کیا اور پورے صوبے میں ایک ارب نئے درخت لگائے گے اس کام کو پوری دنیا میں بہت سراہا گیا سوائے اپنے ملک کے جہاں بعض عناصر نے صرف کیڑے نکالنے کا جو ٹھیکہ اُٹھایا ہوا ہے تو انہیں کہیں کم درخت نظر آئے اور کہیں درخت چھوٹے اور کہیں یہ درخت وہ درخت نظر آیا۔مگر ہمت ہے عمران خان کی اور داد دینی چاہیے ان کے اس وژن کو جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی نیک نامی ہوئی اور اس اقدام کو سراہا گیا ۔ملک کی باگ ڈوڑ سنبھالتے ہی انہوں نے پورے ملک میں مزید اربوں درخت لگانے کی نوید سنا دی تھی۔ وہ درختوں سے پیار کرتے ہیں اور اس بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پاکستان کے مستقبل اور ہمارے آنے والی نسلوں کے لئے سنجیدہ ہیں اور اپنے آج کا نہیں بلکہ ہمارے کل کا سوچ رہیں ہیں اور یہی چیز انہیں باقی سب سے منفرد بناتی ہے۔
اس سال شجر کاری مہم کا آغاز ہو چکا ہے حکومت اور متعلقہ محکمے اہداف کا تعین کرچکے ہیں اور اب وہ ان کے حصول کے لئے یقینی کوشش بھی کریں گے مگر یہ فرض صرف حکومتی افراد او ر سرکاری سکول کے اساتذہ اور بچوں کا ہی نہیں کیونکہ ان سے ملنے والی آکسیجن کی ضرورت ہم سب کو ہے اور ہم سب کو حسین نظاروں او ر سبزے سے پیار ہے اور ہم سب کا مستقبل ان سے جڑا ہواہے تو ایسے میں یہ ہم سب کی ضرورت ہے اور ہم سب کو اس معاملے میں ایک ہو کر اس دفعہ اپنے حصہ کے درخت لگانے ہو گے اور پھر ان کا خیال بھی رکھنا ہو گا ۔ انہیں پانی فراہم کرنا ہو گا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھانا ہو گا تبھی ہم جو محنت اب کریں گے اس کا ثمر ہماری اولادیں حاصل کر سکیں گی۔اس کے لئے بہتر یہ کہ آپ اپنے علاقے میں ہی موجود کسی نرسری پر جائیںاو ر وہاں سے اپنے من پسند اور ماحول دوست درخت خریدیں اور انہیں اپنے گھر میں لگائیں نہیں تو جہاں ممکن ہے وہاں انہیں لگائیں اور پھر ان کا خیال رکھیں ۔ انہیں پانی دیں اور کچھ عرصے کے لئے انہیںبھیڑ بکریوں سے بچائیں پھر آپ اپنی قیمتی گاڑی اس کے نیچے پارک کریں یا اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کے نیچے بیٹھ کر اپنا وقت گزاریں، یہ آپ کو زندگی بھر خوشی اور راحت دے گا۔ درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے اور آج جو درخت آپ لگائیں گے اس کے سائے میں آپ کی کئی نسلیں بیٹھیں گیں۔اللہ ہم سب کو مثبت سوچنے اور مثبت عمل کرنے کی توفیق دے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024