افغان امن کے امکانات و خدشات

امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد افغان امن کے امکانات پیدا ہوئے ہیں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ 2010 میں شروع ہوا تھا جو مختلف وجوہات کی بنا پر تعطل کا شکار ہوتا رہا- افغانستان اور دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین نے افغان جنگ کے دوران روس کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا- جب امریکہ نے اپنے قومی مفادات حاصل کرلئے اور روس کی افواج افغانستان سے نکل گئیں تو امریکہ نے حیران کن طور پر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا- امریکی لیڈروں نے اپنی اس غلطی کا اعتراف کئی بار کیا اور اس غلطی کا کا خمیازہ خود امریکہ کو بھی بھگتنا پڑا -جب افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے طالبان نے نے اقتدار پر قبضہ کرلیا - امریکہ میں نائن الیون کا افسوسناک واقعہ ہوا جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا اور طالبان کی حکومت ختم کر دی- طالبان اور القاعدہ نے امریکہ اور پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی طویل جنگ لڑی - جس میں دونوں ملکوں کو جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا - جنوبی ایشیا کے علاقوں میں چونکہ امریکہ اپنا اعتماد کھو چکا ہے اس لیے اس کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے تمام ممالک بڑے محتاط رہتے ہیں - امریکہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی اور قومی مفاد حاصل کرنے کے بعد ضرورت کے مطابق دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات ختم کر لئے- امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے چین روس اور ایران نے اپنا کردار ادا کیا ہے جبکہ پاکستان کا کردار کلیدی نوعیت کا رہا جسے امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بھی تسلیم کیا- پاکستان نے درست پالیسی اختیار کرتے ہوئے امریکہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کی۔
امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو اور طالبان کے ڈپٹی لیڈر نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے- جس سے پہلے ایک ہفتہ کے دوران زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے گا کہ تشدد اور دہشتگردی میں کس حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور افغانستان کے مختلف جہادی گروہوں پر طالبان کی قیادت کا کتنا اثرورسوخ ہے- اسی طرح افغان حکومت کے رد عمل کو جاننا بھی ضروری ہے -
حالیہ انتخابات کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ہیں عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور یہ بیان دیا ہے کہ وہ اپنی الگ حکومت قائم کریں گے - افغانستان میں امریکہ کی 12000 افواج موجود ہیں جن کو امریکہ صدارتی انتخابات سے پہلے واپس بلانا چاہتا ہے تاکہ انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے صدر ٹرمپ کو اس کا سیاسی فائدہ ہوسکے- البتہ امریکہ افغانستان میں اس قدر افواج ضرور رکھنا چاہتا ہے جو افغان حکومت اور طالبان کی معاونت کرسکیں اور القاعدہ یا داعش جیسی تنظیمیں امریکی اخراج سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہ ہو سکیں- تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار بااثر حقانی نیٹ ورک کے لیڈر سراج الدین حقانی کے آرٹیکل کو بہت اہمیت دے رہے ہیں جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا ہے - توقع کی جا رہی ہے کے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں - پاکستان کی زبردست خواہش ہے کہ افغانستان میں مستقل اور پائیدار امن قائم ہو جائے تاکہ پاکستان معاشی استحکام کی منزل حاصل کر سکے امن کی امید کے ساتھ ساتھ خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے - امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاملات طے پانے ہیں۔ جبکہ افغان حکومت خود بہت کمزور ہے اور حکومت میں شامل جو بڑے گروپس ہیں وہ ایک پیج پر نہیں ہیں - کیا افغانستان میں قومی حکومت تشکیل دی جائے گی اگر قومی حکومت بنے گی تو اس میں افغان طالبان اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا کتنا حصہ ہوگا یہ وہ فیصلے ہیں جو ابھی طے ہونے باقی ہیں - بدقسمتی سے افغانستان عالمی طاقتوں کا مرکز بن چکا ہے لہذا لازم ہے کہ افغانستان کا جو بھی سیاسی حل تلاش کیا جائے اس میں تمام سٹیک ہولڈر شامل ہوں تاکہ یہ امن معاہدہ عارضی ثابت نہ ہو اور نہ ہی کوئی دہشت گرد گروہ اس امن معاہدے کو نقصان پہنچا سکے- اگر افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز ز اور افغانستان کے ہمسائے خلوصِ نیت اور صدق دل کے ساتھ ایک پیج پر آجائیں تو افغانستان امن اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکتا ہے - عالمی طاقتوں نے منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے سر پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا رکھی ہے- پاکستان کو موثر اقدامات اٹھانے کے باوجود ابھی تک گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا -
ایف اے ٹی ایف نے ایک بار پھر پاکستان کو جون تک وقت دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان باقی شرائط پر بھی عمل کرے- دفاعی تجزیہ نگاروں اور سفارت کاروں کی صائب رائے ہے کہ پاکستان امریکا پر دباؤ ڈالے کہ اسے گرے لسٹ سے نکالا جائے- کیونکہ اس سلسلے میں تاخیر بھی جان بوجھ کر کی جا رہی ہے-امریکہ کی خواہش یہ ہے کہ اس کی افواج خوش اسلوبی کے ساتھ افغانستان سے باہر نکل آئیں اور امریکہ اور طالبان کے درمیان آبرومندانہ معاہدہ طے پا جائے- امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بھارت میں پاکستان کی تعریف کی ہے کیونکہ اسے افغانستان میں پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ سابق سفارتکار جنرل باجوہ ڈاکٹرائین کی بھی تحسین کر رہے ہیں جو پاکستان کے قومی مفاد میں بڑا کامیاب ثابت ہو رہا ہے اور اس کے نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں- پاکستان کا یہ فیصلہ بصیرت اور دوراندیشی پر مبنی ہے کہ افغانستان کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کو اپنا فیصلہ آزادانہ کرنے دیا جائے ان کو کسی قسم کی ڈکٹیشن نہ دی جائے تاکہ وہ اپنے معروضی حالات اور زمینی حقائق کے مطابق امن کا معاہدہ کرسکیں اور اس میں کوئی ایسا سقم باقی نہ رہے جس سے یہ معاہدہ خدانخواستہ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوجائے کوئی بھی معاہدہ اسی وقت پائیدار ہوگا جب اس میں افغان عوام کی آرزوؤں اور تمناؤں کو مدنظر رکھا جائے گا۔