بدھ‘ یکم رجب المرجب ‘ 1441ھ ‘ 26 ؍ فروری 2020 ء
گوشت خور ٹرمپ کو بھارت میں کھانے کے لالے پڑ گئے
دورہ بھارت میں امریکی صدر بھارتی حکومت کے خوشامدانہ استقبال پر جہاں پھولے نہ سما رہے ہوں گے وہاں ان کے سٹاف کے ارکان اپنے چٹخورے صدر کے کھانوں کی وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ ٹھہرے پکے گوشت خور۔ بیف کے بنا ان کا کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ اب بھارت میں بیف کھانا ماتا کا ماس کھانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو ماتا کے قریب جانے پر ہی مار دیا جاتا ہے۔ خواہ وہ بے چارے منڈی میں فروخت کے لیے لے جا رہے ہوں۔ نجانے کیوں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کے لیے گائے رکھنا ’’سیتا ہرن‘‘ جیسا پاپ بنا لیا ہے۔ بہرحال بات ہو رہی ہے ٹرمپ کے کھانے کی۔ بھارت میں ان کا پسندیدہ ہم نام میک ڈونلڈ برگر بھی خاص و عام میں پسندیدہ ہے مگر ہندوستان میں بیف کی بجائے چکن، سبزی یا پنیر والا برگر فروخت ہوتا ہے۔ بیف برگر بھی نہیں ملتا۔ اب بے چارے ٹرمپ اور ان کی اہلیہ پریشان ہیں کہ
کھائیں تو کھائیں کیا
ملتا نہیں ہے بیف کابرگر یہاں
اب دو روز ٹرمپ جی کو آلو کی بھجیا ، گوبھی والے سموسے ، بینگن کا بھرتا، دال اورساگ جیسے بے مزہ کھانوں پر گزارہ کرنا ہو گا ہاں اگر انہیں مسلم علاقوں میں جہاں فسادات اور کرفیو نافذ نہ ہو لے جایا گیا تو وہ بھارتی مسلمانوں کے حیدر آبادی، مغلیٔ ، دکنی، لکھنوی کھانوں سے ضرور لطف اٹھا سکتے ہیں جن میں گوشت ہی گوشت شامل ہوتا ہے۔ بکرے کے علاوہ گائو ماتا کا نہ سہی پتا بیل کا ہی سہی۔
٭٭٭٭
ڈسکہ میں بارات پر ڈالروں کی برسات
واہ کیا بات ہے اس خوش قسمت دولہا کی جس کو ایسے دیالو دوست ملے جو ’’لکھ لٹ‘‘ ہیں۔ لوگ بارات میں دولہا پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ دولہا کی گاڑی پر بھی نوٹ نچھاور ہوتے ہیں۔ دکھاوے کے لئے اس سے اچھا موقع بھلا کب ملتا ہے۔ مگر اس طرح چھت سے نوٹ نہیں ڈالر نچھاور کرنے کی مثال جو ڈسکہ میں سامنے آئی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ڈالروں کو دیکھ کر تو باراتی بارات چھوڑ کر ’’مینوں نوٹ دکھا میرا موڈ بنے‘‘ کہتے ہوئے دیوانہ واررقصاں و شاداں ہزاروں ڈالر لوٹنے لگے ہوں گے۔اب اس پر کیا ایف بی آر والے یا کوئی اور توجہ دے گا کہ اتنی دولت آئی کہاں سے۔ یا صرف تنخواہ دار طبقہ اور سیاستدان ہی ان کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ شاباش ہے اس کراچی کے پولیس افسر پر جو اپنے سے جونیئر افسر کے بیٹے کے ولیمہ پر مدعو تھے۔ ولیمہ کے بعد انہوں نے دولہا کے باپ کو نوٹس بھجوایا کہ آپ کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ ہے جبکہ ولیمہ پر کم از کم 40 یا 50 لاکھ کا خرچہ آیا۔ اسکی رقم کہاں سے آئی ہے اسکا محکمانہ جواب دیں ورنہ معاملہ نیب کو بھیجا جا سکتا ہے۔ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ موصوف نے کوئی جواب دیا یا نہیں۔ کیا معلوم یہاں بھی کوئی دباؤ آڑے آ گیا ہو اور دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ہوں۔
٭٭٭٭
عالمی منڈی میں تیل کے نرخ گر گئے پاکستان میں 13 روپے لٹر سستا ہونے کا امکان
جب تک مکان نہ بنے وہ امکان ہی رہتا ہے۔ پاکستانی قوم پٹرول سستا ہونے کے نام پر 60 پیسے، 35 پیسے اور 15 پیسے فی لٹر کم ہونے کی خوشخبری کے اتنے دھوکے کھا چکی ہے کہ اب کوئی 13 روپے کہے تو وہ اس کا مطلب ایک روپے یا تین روپے لیتی ہے۔ انہیں حکومت پر تو بہت اعتبار ہے مگر 13 روپے کمی والے امکان پر کوئی اعتماد نہیں۔ کئی شہری تو…؎
مر گئے ہم کھلی رہیں آنکھیں
یہ میرے اعتبار کی حد تھی
کہہ کر حکومت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
اگر حکومت چاہے تو اس وقت اپنے الیکشن والے دعوے اور وعدے پورے کر سکتی ہے۔ اس وقت اچھا موقع ہے کہ پٹرول پر نافذ تمام ٹیکس ختم کر کے پٹرول کی قیمت 45 روپے کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرے۔ سارے ملک میں حکومت کی بلے بلے ہو گی۔ مگر ایسے کاموں کے لئے شیر کا دل چاہیے۔ اگر وزیراعظم اس وقت دل بڑا کرتے ہوئے اس قسم کا اعلان کر دیں تو ان کا نام کم از کم تاریخ پاکستان میں امر ہو سکتا ہے۔ اس میں خرچہ بھی کچھ نہیں ہو گا کیونکہ پٹرول کی قیمت عالمی منڈی میں ویسے ہی بہت کم ہو چکی ہے۔
٭٭٭٭
محکمہ ڈاک کے ملازمین کی ملک بھر میں قلم چھوڑ ہڑتال جاری
ابھی وفاقی وزیر مواصلات سعید مراد کی طرف سے مارچ میں محکمہ ڈاک میں لاکھوں نوکریوں کی نوید کی خوشی ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ محکمہ ڈاک کے اندر مچلتے ہوئے شعلوں نے غریبوں کی امیدوں کو بھسم کر ڈالا۔ خبر کے مطابق ملک بھر میں محکمہ ڈاک کے ملازمین جو ظاہر ہے ہزاروں میں تو ہوں گے ہی قلم چھوڑ ہڑتال پر ہیں کہ ان کے سکیلوں کی اپ گریڈیشن کی جائے۔ یہ قلم چھوڑ ہڑتال 29 فروری تک جاری رہے گی۔ پھر اس کے بعد یا تو ستاروں میں روشنی نہ رہے گی یا پھر ان کے مطالبات پورے ہوں گے۔ ویسے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ محکمہ ڈاک کے ملازمین نے ہڑتال اور احتجاج کا غلط وقت چنا ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ان کے محکمے کے وزیر کی طرف سے اگلے ماہ لاکھوں نوکریوں کے اعلان پر بے روزگار…؎
جھومیں کبھی ناچیں کبھی گائیں خوشی سے
جی چاہتا ہے آج کہ مر جائیں خوشی سے
والی شادیٔ مرگ کی کیفیت میں مبتلا ہو کر مست ہو رہے تھے کہ ہڑتال کی خبر نے ان میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ جس محکمے کے اندر ہڑتال کی نوبت آئے وہاں نوکریاں کہاں سے آئیں گے۔
٭٭٭٭٭