امریکہ پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھنا چاہتا ہے، نیٹو افغان جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلنے کی جستجو کررہا ہیٗ ایران اپنی بندرگاہ چاہ بہار بھارت کے سپرد کرکے پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔ شایدہی کوئی دن جاتا ہوگا جب کنٹرول لائن پر بھارتی فوج گولہ باری نہ کرتی ہو۔ لوگ شہید اورزخمی نہ ہورہے ہوں۔بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اپنا نٹ ورک نہایت کامیابی سے قائم کررکھاہے اور سی پیک پراجیکٹ کے خلاف آئے دن کوئی نہ کوئی سازش آشکار ہوتی رہتی ہے۔ امریکہ بھارت جاپان اور آسٹریلیا پاک چین اقتصادی راہداری کا توڑ کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں روزانہ شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شہید ہونے والے سبز ہلالی پرچم کا کفن پہن کر قبروں میں اتر رہے ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جو پاکستانی حکومت ٗ فوج ٗ عدلیہ اور عوام کو یک جان و یک قالب ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔ لیکن ان تمام تر خطرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی بجائے حکمران جماعت اور عدلیہ کے مابین نہ ختم ہونے والی ایک کشمکش جاری ہے۔ اس جنگ کا آغاز سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلیت سے شروع ہوا۔ نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر وزارت عظمی تو چھوڑ دی لیکن عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران عدلیہ کے خلاف کھلی تنقید کرتے ہیں۔ آخر کب تک۔ حالانکہ نیب عدالتوں میں نواز شریف کے جو مقدمات چل رہے ہیں ان کا فیصلہ بھی کسی وقت متوقع ہے۔اب تک کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہی گمان کیاجاسکتا ہے کہ نواز شریف کو ان مقدمات کی پاداش میں جیل جانا ہی پڑے گا۔ لیکن نواز شریف جلسوں میں عوام کو اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ عدلیہ نے ان کے خلاف فیصلہ دیا ہے اس لیے عوام عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے اور الیکشن میں اتنے ووٹ دے کہ دو تہائی اکثریت مل جائے۔ ان باتوں کی کسی بھی سطح پر تعریف نہیں کی جاسکتی۔ اب تحمل مزاج وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی عدلیہ کے خلاف پارلیمنٹ میں بحث کی اجازت دے کر خود کونواز شریف کے موقف کے نزدیک کرنے کی کوشش کی ہیٗ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالتوں کا کام ہی حکومت اور انتظامی اداروں کے خلاف عوام کی شکایات سننا اور ان پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔ اگرعدالتیں بھی حکومت کی غلام ہوگئیں تو پھر عوام کی دادرسی کون کرے گا۔ ریاست کے استحکام میں حکومت اور عدلیہ کا برابر کردار ہے۔ قانون سازی کے اعتبار سے پارلیمنٹ سپریم ضرور ہے لیکن اسے قانون سازی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیئے کہ جوقانون وہ بنا رہی ہے وہ آئین کی حقیقی روح کے برعکس نہ ہو۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کوپارٹی کی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار دے کر سینٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن کو باہر کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے اس لیے کوئی شخص خوش فہمی میں مبتلا تھا تو یہ اس کی اپنی غلط فہمی تھی۔ ضروری ہے کہ عدلیہ بھی اپنے فیصلوں میں کسی فریق کی بے جا حمایت کا عنصر غالب نہ آنے دے اورنہ ہی یہ محسوس ہونے دے کہ عدلیہ صرف مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی جانی دشمن بن گئی ہے۔ اس کے لئے نااہلیت کے زیر سماعت میں مقدمے میں نواز شریف کی نااہلیت صرف ایک سال تک محدود کرکے مخالفانہ تاثر کو ختم کرنے کا بہترین موقع ہے اگر فیصلہ اس کے برعکس آیا تو پھر مسلم لیگ اور عدلیہ کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہوجائے گی جس سے قومی سالمیت کو سخت نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہے۔ ویسے پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل ججوں کی یہ ورڈنگ اخبارات کے صفحات پر موجود ہے کہ نواز شریف کے خلاف کریشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ جہاں تک اقامے کی شکل میں جھوٹ بولنے کا تعلق ہے تو پاکستان کا ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی بہانے جھوٹ بولتا ہے۔ نہ نواز شریف اس اعتبار سے سب سے بڑا گناہگار ہے اورنہ ہی عمران خان فرشتہ ہے۔ آج کل نیب میں خیبرپختواہ حکومت کے سرکاری ہیلی کاپٹر کا مقدمہ زیر سماعت ہے لیکن ٹی وی پر عمران خان یہ کہتے سنے جارہے ہیں کہ میں نے ایک منٹ بھی سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیا جبکہ ٹی وی چینلز پر ہی عمران کو ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اڑتے اور زمین پر اترتے دکھایا جا رہا ہے۔ یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران خان کو کلین چٹ دینے اور نواز شریف کے گلے میں پھندا ڈالنے سے پہلے ان باتوں پر ضرورغور کرنا چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ کا نواز شریف کے بارے میں بنایا گیا غلط قانون مستقبل میں سیاہ دھبہ قرار پائے گا تو عدلیہ کے عمران خان کے حق میں فیصلے بھی یقیناً تنقید کا باعث بنیں گے۔ حکومت اور عوام کو ملک کے خلاف ہونے والی بین الاقوامی سازشوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔ اگر خدا نخواستہ یہ کشمکش جاری رہی تو نواز شریف کے خلاف کیے جانے تمام فیصلے عوامی سطح پر غیر مقبول ہوتے جائیں گے۔ آزاد عدلیہ کے لیے یہ بہت بڑا امتحان ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024