ویسے لوگ اب کہاں
یہ گئے دنوں کی بات ہے جب لوگوں میں نہ تو گریڈ فوبیا تھا اور نہ ہی دولت کمانے کی ایسی عام حرص تھی کہ اپنی زندگی ہی اجیرن کر ڈالیں۔ پرانے وقتوں میں تو ہر کالج اور اسکول میں ایسے معدودے چند لوگ ضرور پائے جاتے تھے جو میٹرک میں بھی کئی کئی سال تک فیل ہوتے رہتے اور انہیں اس سے کوئی زیادہ فرق نہ پڑتا تھا بلکہ تعلیمی اداروں کے ہوسٹل میں رہنے اور طویل عرصے تک طالبعلم بنے رہنے کی خواہش کا رواج اتنا عام تھا کہ پرانے دور کی فلموں اور افسانوں میں بھی ایسے کردار نظر آجاتے تھے۔پاکستان بننے سے پہلے یہ رواج خاصا عام تھا۔ بڑے زمینداروں اور تاجروں کے بچوں میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور نکل آتا جو ہوسٹل کی زندگی اتنی آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا بلکہ معروف مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنا ایک افسانہ ایسے ہی ایک لڑکے کی ہوسٹل میں رہنے کی خواہش اور بار بار فیل ہوتے رہنے کے بارے میں لکھا ہے۔ اسکول، کالج یا یونیورسٹی کی زندگی کی دلچسپیاں، بے لوث دوستیاں اور معاشی بے فکری انہیں مزید کچھ عرصہ تک فیل ہونے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔ پاکستان بننے سے پہلے دہلی کے اینگلو عریبک کالج یا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیروانی میں ملبوس طلبا کی زندگی، شرارتوں، جد و جہد پاکستان یا قائد اعظم سے ملاقات کے قصے سنانے والے لوگ تو اب باقی نہیں رہے ہیں البتہ کچھ تصاویر اور سنی سنائی باتیں یادوں میں باقی رہ گئی ہیں۔ ان دنوں بار بار فیل ہونے طلبا امتحان میں پاس ہونے کے لیے پیروں فقیروں کے بتائے ہوئے وظیفوں اورمجرب و مقوی دماغ کشتوں اور حکیموں کے آزمودہ نسخوںپر تیار کردہ سر کی خشکی دور کرنے والے تیل اور نظر تیز کرنے والے سلیمانی سرموں کا سہارا لیا کرتے تھے تاکہ امتحانی پرچہ حل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یادش بخیر ہماری اماں مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ پاکستان بننے سے پہلے جب وہ کرنال کے واحد گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان دے رہی تھیں تو انہی دنوں ان کے بڑے بھائی کے ایک دوست جو گزشتہ چند برس سے میٹرک کر رہے تھے، امتحان کی تیاری کی غرض سے گھر کی بیٹھک میں آ ٹھہرے تھے۔ تیاری تو خیر کیا ہوتی دن کو وہ صاحب سوتے اور رات کو امتحان میں کامیابی کے وظیفے بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ اس کڑی محنت کے درمیان جو وقت ملتا اس میں کورس کی کتابیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی سخت محنت اور راتوں کو جاگ جاگ کر امتحان کی تیاری کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلا …… اور بورڈ نے انہیں ایک بار پھر میٹرک میں پڑھتے رہنے کا اعزاز بخش دیا۔ یہ اعزاز ملنے کے بعد انہوں نے ماموں میاں سے ہماری اماں کے نتیجے کی بابت دریافت کیا اور ان کے پاس ہونے کی خبر سن کر حسرت بھرے لہجے میں یوں گویا ہوئے '' ہم سے تو اچھی لڑکیاں رہیں جو پہلی بار میں ہی امتحان میں پاس ہوگئیں۔''کچھ ایسے ہی حالات کا تذکرہ کراچی یونیورسٹی کے ایک لائق فائق پروفیسر صاحب نے بھی کیا، جنہیں چند برس قبل پی ایچ ڈی کی سند عطا کی گئی ہے۔ ہندوستان کے شہر خورجہ میں سادگی کے اس دور اور میٹرک کے امتحان میں اپنی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں بھی میٹرک پاس کرنے میں پانچ سال لگے تھے، ان دنوں ہمارے محلے والوں اور خاندان کے بڑے بزرگوں کا خیال تھا کہ ہم ضرور اپنے خاندان کا نام ڈبوئیں گے۔ جب کوئی شخص ہمارے بارے میں کسی بزرگ سے پوچھتا کہ صاحبزادے کیا کرتے ہیں؟ تو وہ انہیں یہ بتاتے کہ ’’میاں صاحبزادے ان دنوں میٹرک کیا کرتے ہیں۔‘‘ پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ میٹرک میں عمر عزیز کے پانچ سال گزارنے کی ایک وجہ تو اس اسکول کی سماجی دلچسپیاں تو تھیں ہی لیکن دوسری سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ فزکس، کیمسٹری کے پرچوں میں پاس ہونا لازمی تھا جو ہماری سمجھ سے بالاتر تھے…… جبکہ تقریر، ادب، فلسفہ اور ڈرامہ میں ہماری دلچسپی تھی جو ہمارے ابا میاں کی نظر میں فضول لوگوں کا کام تھا۔ بہرحال یہ ان دنوں کی بات ہے کہ بزرگوں کو اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کی آج کے والدین جیسی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ خاص طور پر والد بزرگوار کے لیے اتنا ہی جان لینا کافی ہوتا تھا کہ برخوردار پاس ہوکر اگلی کلاس میں پہنچ گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ فیل ہونے پر بھی وہ کچھ نہ کہیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اماں جان ہمارے فیل ہونے خبر ڈرتے ڈرتے ابا میاں کو سناتیں۔ پھر ہماری طلبی ہوتی اور ابا میاں ہم پر جی بھر کے برہم ہوتے، جہاں اور باتیں کہی جاتیں وہیں ہمارے لیے یہ فیصلہ سنایا جاتا ’’ اسے پڑھنا وڑھنا نہیں ہے…… سسرے کو ٹاٹ کا کرتا اور لوہے کے جوتے پہنا کر کھیتوں میں کام کرواؤ……… تب دماغ ٹھکانے آئے گا۔‘‘ اس دن ابا میاں کی سالانہ ڈانٹ پھٹکار ختم ہوتی اور وہ اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے اور ہم نئے عذإ عزم کے ساتھ ایک بار پھر اسکول کی غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے اورجب اگلے سال ہمارے میٹرک میں فیل ہونے کی اطلاع ابا میاں کو دی جاتی تو وہ ایک بار پھر ہماری خوب خبر لیتے۔بہرحال یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں اب ایسے لوگ کہاں رہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے، بار بار فیل ہونے یا بڑی عمر میں فارغ التحصیل ہونے کا رواج کم از کم 70ء کی دہائی تک تو جاری رہا ہے۔ سنا ہے کہ سیاسی، لسانی اور مذہبی شدت پسندی آنے سے پہلے کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل کی زندگی بھی بہت دلچسپ ہوا کرتی تھی۔ سادگی کے اس دور میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا آج جیسا مہنگا کام نہ تھا، ہر چیز سستی تھی لیکن پھر بھی لوگوں کو غلط راستے اختیار کرنے کا خیال تک نہیں آتا تھا بلکہ وہ ایسے کاموں سے گھبراتے تھے۔ انگشت نمائی کے تصورسے بھی ان کی جان نکل جاتی تھی کہ کہیں انہیں شرفاء کی کسی محفل میں خفت نہ اٹھانا پڑے۔ تب با وسیلہ لوگوں کے ذہن میں جعلی ڈگریاں بنوانے، نقل کرنے، کسی دوسرے سے اپنی جگہ امتحان دلوانے اور بورڈ آفس میں پیسے کھلا کر نمبر بڑھوا لینے کا خیال نہیں آتا تھا۔ حکمراں طبقات قانون ساز اسمبلی کے ممبران کی نیم خواندگی کی حمایت میں قانون سازی کر چکے ہیں اور آج بھی اس کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اب تو ممبران اسمبلی اور سینیٹ امیدوار کے لیے ایسا معیار مقرر کیا گیا ہے کہ کوئی معیار ہی نہیں رہا ہے۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ سے فیصلے بھی آ جائیں تب بھی انتخابات میں حصہ لینے خواہش اور حکمرانی کی آرزو ختم نہیں ہوتی۔ وزیر، مشیر، تاجر اور بیوروکریٹس مجرموں کی طرح دھر لیے جائیں، نیوز چینلز اور اخبارات میں چاہے جتنا بھی شور مچ جائے لیکن نو دولتیے شرفا کو اس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید ہمارے معاشرے میں عزت اور شرافت کے معیار بدل گئے ہیں۔ کسی دل جلے نے خوب کہا ہے ’’عزت تو آنی جانی شے ہے … بس پیسہ ہونا چاہیے۔‘‘