سندھ اسمبلی نے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل مجریہ 2015ءکی کثرت رائے سے منظوری دیدی اور حکمراں جماعت نے ترمیمی بل پر ایم کیو ایم کے تحفظات دور کر دیئے لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات میں ایک بار پھر ڈیڈلاک پیدا ہو گیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مخلوط حکومت میں شمولیت کےلئے گزشتہ ماہ اتفاق رائے ہوگیا تھا اور سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اس فیصلے کی منظوری دیدی تھی جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان وسیع تر اور متنوع معاہدے کےلئے بات چیت شروع ہوگئی تھی اور دونوں جماعتوں کے درمیان گفت شنید کے کئی کامیاب دور ہوئے تھے جن میں پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو پانچ وزارتوںکے قلمدانوں کی ایک فہرست پیش کر دی تھی اور درخواست کی تھی وہ چار قلمدانوں کا انتخاب کر لے تاہم اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول نے کہا ہے کہ ان کی جماعت حکومت میں شامل نہیں ہو رہی بلکہ وہ اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے پر غور کر رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن اپوزیشن لیڈر فنکشنل مسلم لیگ کے رکن اسمبلی شہر یار مہر ہیں اگر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیل منڈھے نہیں چڑھی تو پھر ایم کیو ایم اپنا اپوزیشن لیڈر لائے گی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کو جلد حکومت میں شامل کرنے اور مذاکراتی عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے بعد توقع تھی کہ دونوں جماعتوں کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا طے ہوجائے گا۔ اس بار ایم کیو ایم ایک جانب شراکت اقتدار کا وسیع اور متنوع فارمولا طے کرنا چاہتی تھی اور اس نے بلدیات اور منصوبہ بندی سمیت اہم وزارتیں مانگ لی تھیں جبکہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کو غیر اہم وزارتوں کی پیشکش کی تھی۔ اس پیشکش کو ایم کیو ایم نے مسترد کردیا تھا۔ ایم کیو ایم کراچی کے چنگی کے فنڈز اور مالیاتی ایوارڈ کا معاملہ بھی طے کرنا چاہتی ہے کیونکہ کراچی کا چنگی کا حصہ 22 سے 30 ارب بنتا ہے جبکہ حکومت سندھ تین ارب 62 کروڑ دے رہی ہے۔ مالیاتی ایوارڈ کا اعلان 10سال سے نہیں ہوا ہے اور ان 10سالوں کے دوران شہری علاقوں کو کم سے کم 900ارب کم ملے ہیں یہ فنڈز دیہی علاقوں پر بھی خرچ نہیں ہوئے بلکہ سندھ کے حکمرانی کی شاہ خرچیوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم فوری طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور انداز حکمرانی تبدیل نہ کیا تو پیپلز پارٹی کا جہاز ڈوب جائے گا۔ ادھر پیپلز پارٹی کے جیالے ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرنے کے فیصلہ پر برہم ہیں اور مخالفت کر رہے ہیں وہ ایم کیو ایم کو کوئی اہم وزارت دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن نازک ہو گئی ہے لیکن آصف زرداری بہت پراعتماد ہیں اور کسی کو خاطر میں لانے کےلئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ تھر میں ہلاکتوںکے بحران کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک اعتماد بھی ناکام ہو چکی ہے ۔اس وقت سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان افہام تفہیم موجود ہے جبکہ دونوں جماعتوں کے درمیان سینٹ کے الیکشن ساتھ مل کر لڑنے کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ جس کے تحت ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی کی 11 میں سے چار نشستیں ملیں گی اور سات نشستیں پیپلز پارٹی کے حصے میں آئیں گی۔ خیرسگالی کے جذبہ کے تحت پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو سینٹ کی ایک اضافی نشست دینے پر رضامند ہو گئی ہے اس نشست پر فنکشنل مسلم لیگ کی نظریں لگی تھیں لیکن وسیع تر پلان کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ نشست فنکشنل مسلم لیگ کے حوالے کرنے کے بجائے ایم کیو ایم کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے پیپلز پارٹی سینیٹ میں اپنا چیئرمین لانا چاہتی ہے۔ فنکشنل مسلم لیگ چونکہ مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے اس لئے وہ مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی پابند ہے اس لئے پیپلز پارٹی کا ایک ووٹ ضائع ہوسکتا ہے۔ اب فنکشنل مسلم لیگ بیک وقت ایم کیو ایم سے اور پیپلز پارٹی سے ناراض ہے ایم کیو ایم سے اس لئے ناراض ہے کہ اس نے پہلے وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ساتھ نبھانے کے وعدے کئے اور پھر ساتھ چھوڑ دیا۔ فنکشنل مسلم لیگ ایم کیو ایم پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو بچانے کا الزام بھی عائد کرتی ہے جس پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہریار مہر بھی بہت برہم ہیں اور کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کو بچا لیا ورنہ وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی۔ ہمارے پاس ووٹ پورے تھے چار پانچ ووٹوں کا فرق ہے سیاسی حلقے بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت سندھ ایم کیو ایم کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور شاید وزیراعظم نوازشریف نے بھی سابق صدر آصف زرداری کا کوئی قرض ادا کر دیا ہے کیونکہ حکومت سندھ کو بچانے کےلئے وزیراعظم خاص طور پر کراچی آئے انہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت کرادی بلکہ مسلم لیگ‘ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان غیراعلانیہ اتحاد بھی قائم ہو گیا۔ سینیٹ کے انتخابات بلامقابلہ کرانے کےلئے پیپلز پارٹی بدستور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور اس نے فنکشنل مسلم لیگ سے رابطے کئے ہیں۔ فنکشنل مسلم لیگ مان گئی تو پھر سندھ میں سینیٹ کے بلامقابلہ انتخابات ہو جائیں گے۔ اس وقت سینیٹ کے موجودہ چیئرمین نیئر بخاری کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ پیپلز پارٹی چیئرمین سینٹ کےلئے رحمان ملک کو آگے لانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ لیکن وزیراعظم نوازشریف نے گرین سگنل نہیں دیا۔ دونوں رہنماﺅں کے درمیان سینٹ کے الیکشن مشترکہ طور پر لڑنے کےلئے کراچی اور اسلام آباد میں کئی ملاقاتیں ہوئیں سب سے پہلے خواجہ سعد رفیق نے کراچی آکر آصف علی زرداری کو وزیراعظم کا پیغام پہنچایا جس کے بعد مذاکرات شروع ہوئے اور حکمت عملی وضع کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے سینیٹ کے الیکشن میں تعاون کے عوض سینٹ کی چیئرمین شپ مانگ لی اور ڈپٹی چیئرمین شپ مسلم لیگ کو دینے کا عندیہ دیدیا۔ جس پر نوازشریف نیم رضامند دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں نوازشریف نے عمران خان اور چوہدری شجاعت حسین کو تنہا کر دیا۔ مذکورہ دونوں لیڈروں نے طے کیا ہے کہ وہ چھوٹی جماعتوں کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے تاہم جن تین جماعتوں کو سینٹ کی کوئی نشست ملنے کا امکان نہیں ان کو کے پی کے میں ایک ایک نشست دیں گے۔ ان جماعتوں میں جے یو آئی‘ اے این پی اور پیپلز پارٹی شامل ہے۔ پیپلز پارٹی نے موقف اختیار کیا ہے کہ کیونکہ سینٹ کے چیئرمین کا تعلق ان کی جماعت سے ہے اس لئے چیئرمین شپ اس کو ملنی چاہئے۔ اس ضمن میں حتمی فیصلہ 5مارچ کو سینیٹ کے الیکشن کے بعد نوازشریف اور آصف زرداری کریں گے۔ ذرائع کے مطابق سینٹ کے الیکشن کےلئے پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم ایک ہوگئی ہیں۔ اتحاد قائم ہونے سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے۔
دریں اثناءنبیل گبول قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور کہاکہ میں ایم کیو ایم میں مس فٹ تھا۔ سندھ میں سیاسی جماعتوں پر برا وقت ہے۔ چند روز قبل جب ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی سے بغاوت کردی تو اس کے جواب میں ان کی بنیادی رکنیت معطل کردی گئی۔ مسلم لیگ ن سندھ میں باغیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور چار وزرائے اعلیٰ کے بعد کراچی کے مزید رہنما ناراض ہوگئے ہیں جن میں مسلم لیگ سندھ کے سیکرٹری مالیات رانااحسان بھی شامل ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کے 14سالہ دور کا مقابلہ کرنے والے کارکنوں کا دفاع کریں گے۔ رانا احسان نے مسلم لیگ ورکرز ایکشن کمیٹی تشکیل دے کر وزیراعظم محمد نوازشریف کی اس جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ ادھر مسلم لیگ ن میں سندھ کے چار سابق وزرائے اعلیٰ کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ۔ کیونکہ وزیراعظم محمد نوازشریف کے یہاں دورے کے موقع پرسابق وزرائے اعلیٰ ممتاز بھٹو‘غوث علی شاہ‘ ارباب غلام رحیم اور لیاقت جتوئی کی ساتھ کوئی مشورہ یا ملاقات نہ ہوسکی۔ غوث علی شاہ نے گزشتہ دنوں سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی تھی۔ سیاسی حلقوںکا خیال ہے مسلم لیگ کے بعض ناراض رہنماء متحدہ مسلم لیگ میں شامل ہو کر پرویز مشرف کی قیادت میں اسے فعال بنانے کےلئے کوشاں ہیں۔ اس کوشش میں ان کو وزیراعظم محمد نواز شریف کے اتحادی اور فنکشنل مسلم لیگ کے صدر پیر پگارو کی حمایت بھی حاصل ہے غوث علی شاہ‘ ارباب غلام رحیم اور ممتاز بھٹو نے اب تک مسلم لیگ سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا اور مسلم لیگ نے بھی اب ان کی رکنیت ختم نہیں کی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کےلئے مسلم لیگ ن کے دوسرے ناراض ارکان کو بھی نہیں بلایا گیا جن میں رانا احسان‘ حاجی چن زیب‘ عصمت انور محسود‘ ظفر اقبال شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے مسلم لیگ کے رہنماﺅں کے احساس محرومی کا نوٹس لے لیا اس مقصد کےلئے انہوں نے کراچی سے مسلم لیگ ن کے رہنماﺅں کو سینیٹ کا ٹکٹ دیدیا اور مسلم لیگ ن سندھ کی تنظیم نو کر دی لیکن ان اقدامات کے بعد روٹھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی۔