انسان نے جو بویا وہی کاٹنا ہوتا ہے۔ ببول بیج کر پھولوں اور خوشبو کی توقع پاگل پن ہے۔ برائی کبھی چھپ نہیں سکتی۔ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے آج نہیں تو کل اس کو عیاں اور نمایاں ہو جانا ہوتا ہے۔ انسان کا یومِ حساب یقینا قیامت ہے لیکن کچھ اعمال کا حساب اسی دنیا میں بھی قدرت کاملہ برابر کر دیتی ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے والے ہر کردار کو خدا نے عبرت بنا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی لگانے والوں کا حشر پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ آج قوم کے ساتھ جو ہو رہا ہے اچھا یا بُرااس کا ثمر بھی اس کے ذمہ داروں کو مل جائے گا اس دنیا میں اور آخر میں بھی۔ قیامت انسان کا یومِ حساب ہے تو سیاستدانوں کی کارکردگی جانچنے ان کی مقبولیت کا تعین کرنے کا پیمانہ الیکشن ہے۔ جس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے آ جاتا ہے۔ الیکشن ابھی چند ماہ اور حکومت کی مدت چند دن کی دوری پر ہے۔ پھر سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ سیاست دانوں نے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔2008ءکے الیکشن میں حصہ لینے والی ہر پارٹی حکومت میں ہے اور اقتدار کاحصہ ہے۔ جو کچھ ان پارٹیوں نے کیا وہ لوگوں کے سامنے ہے۔ آج ہر پارٹی اپنے گن گنوا رہی ہے گمراہ کن دعوے کیے جا رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں خوش کن وعدے بھی کیے جائیں گے۔ دیکھیں لوگ ایسے دعوﺅں سے کس حد تک گمراہ اور وعدوں کے سنہری جال میں پھنستے ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف گذشتہ دنوں اپنے بچپن کے دنوں کی یادیں تازہ کرنے سانگھڑ گئے۔ جہاں ایک کالج کے لیے 50کروڑ روپے کے فنڈز کا اعلان کیا۔ اتنی رقم سے ایک یونیورسٹی کھل سکتی ہے۔ اب دیکھیے ان 50کروڑ میں سے کالج کی قسمت میں کتنے ہیں۔ اسی علاقے میں انہوں نے بڑے بڑے دعوے کیے اور چیلنج دیئے۔ انہوں نے فرمایا کہ 5سال کا حساب دینے کو تیار ہیں۔ اتنے ترقیاتی کام 65سال میں نہیں ہوئے جتنے ہم نے 5سال میں کیے۔ خدا کی قسم جو بات کی باکمال کی واقعی قوم و ملک کے ساتھ 65سال میں نہیں ہوا جو ان حکمرانوں نے پانچ سال میں کرکے دکھا دیا۔آج ملک میں بجلی ہے نہ گیس، البتہ ان کے بل ہر ماہ ہونے والے اضافے کے ساتھ ضرور موصول ہو تے ہیں۔ پٹرولم مصنوعات آسمان سے باتیں کرتی ہیں، جو پٹرول نیٹو کو 44روپے لیٹر فراہم کیا جاتا ہے وہی پاکستانیوں کو دگنا سے بھی زیادہ اضافے کے ساتھ 104روپے میں دیا جاتا ہے۔ مہنگائی کی کوئی انتہا ہے نہ بیروزگاری کی، انرجی کرائسز کی وجہ سے سرمایہ کار اپنا کاروبار اور سرمایہ دوسرے ممالک منتقل کر رہے ہیں۔ کراچی اور کوئٹہ کے بہیمانہ سانحات لاقانویت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دہشت گردی نے ہر علاقے کو اپنی پشت میں لیا ہوا ہے، ڈرون حملوں ا ورایل او سی پر بھارتی فوج کی شرانگیزی نے قومی وقار اور ملکی سلامتی کو داﺅ پر لگا رکھا ہے۔ کرپشن کا جن ہر سو دندنارہا ہے۔ حکومت کے مقررہ کردہ چیئرمین فصیح بخاری کہتے ہیں کہ سرکاری اداروں میں روزانہ 12ارب روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے، وفاقی محتسب شعیب سڈل نے انکشاف کیا ہے کہ 70فیصد ارکان پارلیمنٹ ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے۔ ایف بی آر جس نے ٹیکس وصول کرنے ہوتے ہیں اس کے اندر بھی کرپشن کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھاکہ صرف ایف بی آر میں ہر سال 500ارب روپے بے ایمان حکام کی توندوں میں اتر جاتے ہیں۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024