غیرملکی ڈراموں سے ڈر نے کی کوئی ضرورت نہیں: معروف ماڈل و اداکارہ صبا قمر سے خصوصی انٹرویو
سیف اللہ سپرا
صبا قمر شوبز کی دنیا کا ایک ایسا نام ہیں جن کے دامن میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ ماڈلنگ ہو، اداکاری ہو، کمپیئرنگ ہو، صبا قمر نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے سال 2004ءمیں پی ٹی وی سے اپنے فنی کیرئر کا آغاز کیا۔ انہیں پی ٹی وی لاہور مرکز کے سابق پروڈیوسر شاہد چغتائی نے اپنے ڈرامے ”میں عورت ہوں“ کے ذریعہ متعارف کرایا۔ اس ڈرامے کے ساتھ ہی انہوں نے پی ٹی وی لاہور مرکز کے ہی ایک اور ڈرامے ”اثاثہ“ میں بھی کام کیا۔ اگرچہ انہوں نے سب سے پہلا ڈرامہ ”میں عورت ہوں“ میں کام کیا لیکن ٹیلی کاسٹ ہونے والا ان کا پہلا ڈرامہ اثاثہ ہے۔ اس ڈرامہ کو پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر سلمان سعید نے پروڈیوس کیا۔ پہلے ڈرامہ میں ہی ان کی اداکاری پسند کی گئی اور انہیں سرکاری و نجی ٹی وی چینلز کی طرف سے ڈراموں میں کام ملنا شروع ہو گیا۔ ان کے کریڈٹ پر بے شمار مقبول ٹی وی ڈرامے ہیں جن میں میں عورت ہوں اور اثاثہ کے علاوہ کہیں تم کہیں ہم، نجانے کیوں، غرور، تقدیر، ابن آدم، ان بیان ایبل، ماموں، مشال، چبھن، دھوپ میں اندھیرا، محبت یوں بھی ہوتی ہے، وہ صبح کب آئے گی، بنجر، ہمسفر، سسر ان لائ، نہ کہو تم میرے نہیں، یہاں پیار نہیں ہے، داستان، پانی جیسا پیار، جو چلے تو جاں سے گزر گئے، مات،تیری اک نظر، ہاف لائٹ، نادیہ نام کی لڑکی، بھول، کانپور سے کٹاس تک، تنکے، لاہور جنکشن، اڑان، آنکھ سلامت اندھے لوگ، ٹو ان ون، میں ایسا کیوں ہوں، خالدہ کی والدہ، تیرا پیار نہیں بھولے، میں چاندسی، نظر، شکوہ نہ شکایت، تھکن، شہر یار شہزادی، کاش ایسا ہو شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد ٹیلی فلموں میں بھی کام کیا۔ جن میں بالے کی بالی، پیار میں ٹونز اور لو کی کھچڑی شامل ہیں۔ ان کے متعدد ٹی وی ڈرامے زیرتکمیل ہیں۔ اس کے علاوہ ماڈلنگ اور ایک نجی شو کی کمپیئرنگ بھی کر رہی ہیں۔ انہیں ان کی بہترین پرفارمنس پر متعدد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا جن میں پی ٹی وی اور دیگر نجی چینلز اور اداروں کی طرف سے ملنے والے ایوارڈز شامل ہیں۔ پاکستان کی اس خوبصورت، باصلاحیت اور ورسٹائل اداکارہ سے گذشتہ دنوں ایک نشست ہوئی جن میں ان سے ان کی فنی اور نجی زندگی کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کیے جا رہے ہیں۔
س: آپ شو بز میں کیسے آئیں؟
ج: اداکاری کا مجھے بچپن سے ہی شوق تھا۔ زمانہ طالب علمی میں سکول و کالج میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میری اساتذہ اور میری کلاس فیلوز میری بہت حوصلہ افزائی کرتیں۔ یہ 2004ءکی بات ہے کہ میں ابھی زیرتعلیم ہی تھی کہ مجھے پی ٹی وی کی طرف سے ڈرامہ میں عورت ہوں میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی جو میں نے قبول کر لی۔ اس ڈرامہ کے ساتھ ہی مجھے دوسرے ڈرامے ”اثاثہ“ میں بھی کام مل گیا۔ پہلے اثاثہ ٹیلی کاسٹ ہوا۔ لوگوں نے میری اداکاری پسند کی اور مجھے بہت سے پروڈیوسرز کی طرف سے کام کی آفرز ملنی شروع ہو گئیں.... میں نے معیاری ڈرامے سائن کئے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ڈرامے لوگوں کو پسند آئے۔ اور اب تک لوگ میری اداکاری پسند کر رہے ہیں۔
س: ماڈلنگ کا تجربہ کیسا رہا ہے؟
ج: جب میرے ڈرامے ہٹ ہوئے تو ماڈلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ لوگوں نے میری اداکاری کی طرح میری ماڈلنگ بھی پسند کی اور میں اداکاری کے ساتھ ماڈلنگ بھی کر رہی ہوں۔
س: فلم میں کام کریں گی؟
ج: پاکستان میں آج کل فلمسازی تو نہ ہونے کے برابر رہ گئی تاہم اگر مجھے کسی اچھی فیچر فلم میں کام ملا تو ضرور کروں گی۔
س: فلم میں ہیروئن کو رقص بھی کرنا پڑتا ہے۔ آپ رقص جانتی ہیں؟
ج: میں رقاصہ یا گلوکارہ تو نہیں تاہم دونوں فنون میں آگاہی ضرور رکھتی ہوں۔ اصل آرٹسٹ وہ ہوتا ہے جو آرٹ سے متعلقہ ہر شعبے کو جانتا ہو اور اس میں کام کی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہو۔
س: سٹیج ڈراموں میں کام کی آفر ہو تو کریں گی؟
ج: ناچ گانے والا تھیٹر نہیں کروں گی۔ ہاں البتہ رفیع پیر تھیٹر ورکشاپ یا انور مقصود کے سٹیج ڈراموں میں کام کا موقع ملا تو ضرور کروں گی۔
س: کیا آپ کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے؟
ج: میرے والد کا تعلق حیدر آباد، سندھ سے ہے اور والدہ کا گوجرانوالہ سے۔ میری پیدائش حیدر آباد میں ہوئی اور گوجرانوالہ میں پلی بڑھی ہوں اس طرح سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں میں ہی میرا وقت گزرا ہے۔
س: کمپیئرنگ کا تجربہ کیسا رہا؟
ج: کمپیئرنگ اداکاری اور ماڈلنگ سے یکسر مختلف ہے تاہم اداکاری اور ماڈلنگ میں تجربے کی وجہ سے زیادہ مشکل پیش نہیں آئی
س: آپ پیروڈی بھی کرتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟
ج: پیروڈی ایک مشکل فن ہے۔ اس میں آرٹسٹ نے کسی دوسری شخصیت کا روپ دھارنا ہوتا ہے۔ شروع شروع میں تھوڑی مشکل پیش آتی مگر اب پیروڈی کو انجوائے کرتی ہوں۔
س: کیا گلوکاری کا شوق ہے؟
ج: جی نہیں۔ صرف سننے کی حد تک ہے۔
س: غیرملکی ٹی وی ڈراموں کے خلاف کچھ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟
ج: لوگ غیرملکی ڈراموں کے خلاف جلوس بھی نکال رہے ہیں۔ انہیں دیکھ بھی رہے ہیں۔ لوگوں میں اتحاد نہیں۔ اگر بائیکاٹ کرنا ہے تو سب کریں۔ ویسے میری رائے یہ ہے کہ پاکستان کا ڈرامہ بہت مضبوط ہے۔ لہٰذا ہمیں غیرملکی ڈراموں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ترکی کے ڈرامے بھی سٹار پلس کے ڈراموں کی طرح جلد ہی اپنی مقبولیت کھو دیں گے۔
س: پاکستان کی فلم انڈسٹری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: میں سمجھتی ہوں کہ جب پاکستان میں ٹی وی ڈرامہ اچھا بن سکتا ہے تو فلمیں بھی اچھی بن سکتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں اچھی فلمیں بنتی رہی ہیں۔ اب بھی تین چار اچھی فلمیں بن رہی ہیں۔ میں پرامید ہوں اگر اچھے موضوعات پر فلمیں بنیں گی تو لوگ ضرور دیکھیں گے۔
س: آپ کی شادی کی خبریں اکثر شائع ہوتی رہتی ہیں؟ ان میں کس حد تک صداقت ہے؟
ج: سب افواہیں۔ دور دور تک میری شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ لوگ تو باتیں بناتے رہتے ہیں۔ جب شادی ہو گی تو خفیہ نہیں رکھوں گی۔
س: کیا آپ گھر داری جانتی ہیں؟
ج: میں عورت ہوں اور عورت کو گھر داری کا علم ہونا چاہئے۔ ہر قسم کے کھانے بنا لیتی ہوں گھر کی سجاوٹ خود کرتی ہوں۔
س: آپ لوگوں کے لئے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: میں روزنامہ نوائے وقت کے ذریعے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ دوسرے لوگوں کے بارے میں اپنی سوچ پازیٹو رکھیں۔ کسی کے بارے میں کمنٹس دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں۔