رفیق ڈوگر
وہ رات یاد کریں جب خوف کی سیاہی دمکتے چہروں پر گہری ہوتی جا رہی تھی اور ووٹ گنے جا رہے تھے اور اقتدار کے ایوانوں میں بے کارکردگی کے سائے دراز ہو رہے تھے۔ دو سال کے تعاون برائے استحکام نظام اور جمہوریت برائے عوام کی شاندار کارکردگی والوں کو اس سے پہلے ”بے“ کی موجودگی کا احساس ہوا ہے یا نہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے اس رات اہل اختیار و اقتدار کے چہرے قریب سے دیکھے تھے لیکن لاہور ہائی کورٹ بار کے کامیاب و ناکام صدارتی امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد نے ان کی کارکردگی سے پہلے ”بے“ کی موجودگی کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ مقابلہ کیسا تھا؟ یا کیسا رہا؟ سب نے دیکھ لیا ایک طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاک باز پاک دامن صدر تھے۔ آئین اور قانون کے محافظ ان کے جملہ فدائین تھے رائیونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز والے امیر الامراءکے فدائین تھے پی سی او کے زخموں سے نڈھال اہل انصاف تھے۔ ججوں کی تقرری کے ماہر ہیچہ باز گورنر پنجاب تھے اور دوسری طرف یتامیٰ و مساکین تھے اور انہوں نے ان سب کی خدمات عالیہ اور کارکردگی پر عدم اعتماد کا فیصلہ سنا دیا تھا رات کے دو بجے میں نے ٹیلیوژن لگایا تو اتنے بڑے فیصلے نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اتنا فرق؟ اتنے زیادہ ووٹوں سے یتامیٰ و مساکین کی کامیابی؟ کیا بیت رہی ہو گی اہل خدمات و تعاون و کارکردگی کے دلوں پر؟ ہے اس فیصلے میں کسی کے لئے کوئی پیغام؟ کوئی سبق ؟ وہ اہل شعور اور اہل عدل و عدلیہ کا اظہار عدم اعتماد تھا آصف علی زرداری اور شریفین کی ملی جلی جمہوریت پر اگر آج ملک کے عوام سے بھی ان کی جمہوریت کی کارکردگی کے بارے میں فیصلہ مانگ لیا جائے تو وہ کیسا ہو گا؟ کرپشن کے اعلانیہ دشمن جاں مسلم لیگ ن کے قائد عوام و خاص میاں محمد نوازشریف کے اس اعلامیہ کو ایک بار پھر پڑھ لیں اندازہ ہو جائے گا۔ کہ ”ہم حکومت کی خراب کارکردگی کو بنیاد بنا کر مایوسی کا اظہار نہیں کریں گے اور تحفظات کے باوجود جمہوری عمل کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ “ اہل شعور کے اظہار مایوسی کے باوجود بھی قائد جمہوریت اپنی مایوسی کی نقاب نہیں الٹیں گے؟ ہالبروک کی ملاقات یا ایک اور ملاقات کے بعد یہ اعلامیہ جاری کرنا ان کا جمہوری فرض تھا کہ اس نے بھی تو زرخور جمہوریت کی سرپرستی کا اعلان کر دیا تھا اور اس کے مزید استحکام کے لئے سید ابو استثنیٰ گیلانی رکھی سکھی کھانے رائیونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز پہنچ گئے تھے۔ ”آﺅ میاں جی مل کر کھائیں “ کی درخواست لے کر‘ اور میاں برادران نے دستر خوان دراز کر دیا تھا۔ یاد کریں وہ رات اور وہ روکھی سوکھی جو دو سال سے وہ مل کر جمہوریت کے دستر خوان پر کھاتے آ رہے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ملک کے عوام ان کی جمہوریت کی پہچان کا شعور نہیں رکھتے ان کے دلفریب و دلربا نعروں اور خطبات سے نڈھال لوگوں کو اپنے دکھ اور مصائب سب بھول گئے ہیں کیا پیغام دے گئی تھی وہ رات ؟ کیا تھا اس پر بھی رکھی سکھی کھانے کے دوران غور زرخور جمہوریت کے مالکوں نے ؟ کون ہے بے شعور؟ کیا فیصلہ سنایا تھا بیس فروری 2010ء کے دن کالا کوٹ برادری نے اور اٹھارہ فروری 2008ء کو ملک کے عوام نے؟ کتنے سال بجتا رہا تھا جنرل پرویز مشرف کی شاندار خدمات اور کارکردگی کا گجر؟ کھا گئے تھے عوام اس گجر کے بجنے سے دھوکہ؟ بس گجر کے بجانے والے بھی اب وردی شاہ کا نام لیتے ہوئے شرم میں ڈوب کر حیا کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں‘ جمہوریت بہت ضروری ہے مگر قیادت؟ ایسی قیادت جس کی کمٹمنٹ اپنی ذات ذاتی مفاد اور مل جل کر کھانے کھلانے سے نہ ہو بلکہ ملک اور اس کے عوام کے ساتھ ہو جس کی سوچ اور جمہوریت اس کے پیٹ کی کی غلام نہ ہو ملک بلکہ قوم کے مفادات کی محافظ ہو اگر ایسا نہ ہو تو جمہوریت اور ڈرون حملے میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتا ڈرون حملے سے چند گھر تباہ اور کئی افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ مگر جمہوریت کے ڈرون حملے سے ملک اور قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ کالا کوٹ برادری کو چیرنے پھاڑنے کے سب آپریشن ناکام ہو گئے تھے۔ مبارک ہو کالا کوٹ اور ٹائی کو جس نے دو سالہ جمہوریت کے زرخور مالکوں کے مقابلے میں جمہوریت کی اور آئین اور قانون کی بہت ہی زیادہ خدمت انجام دے دی ہے اللہ اس برادری کی اس ہمت اور بے غرضی میں اضافہ کرے لوگوں نے تو اس سے اب بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں ملک کو اور جمہوریت کو کرپشن سے بچا لینے کی امیدیں‘ اسے زرخور اور زر زور جمہوریت پسندوں سے نجات دلا دینے کی امیدیں‘ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی واپسی کی امیدیں اور لاچار اور بے بس لوگوں کو انصاف کی فراہمی کی امیدیں۔ سنتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ان امیدوں کو پورا کرنے کے کسی مشن کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کالاکوٹ برادری نے بلا فیس جو مقدمہ لڑ کر جیتا ہے اس سے چیف کے مشن کو بھی تقویت ملے گی اور وہ رات ملک کی تاریخ کی یادگار رات بن سکے گی۔ وہ رات جب خوف کی سیاہی اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں براجمان چہروں کو لپیٹ لینے کو بڑھتی جا رہی تھی۔ اور ووٹ گنے جا رہے تھے وہ ہار اور جیت تھی کس کی دو رویوں اور دو رویوں کے مالکوں کی تھی وہ ہار اور جیت اور اس رات شعور کی روشنی سے خوف کی سیاہی گہری ہوتی دیکھی گئی تھی اور ہم نے یہ کالم اس لئے روک لیا تھا کہ اسے پنڈی کے حلقہ 55 کے دنگل کے کسی درشنی پہلوان کی مٹھی چاپی نہ سمجھ لیا جائے۔ شب رفتہ کی سیاہی اور دمک میں بھی تو ایک پیام ہے مگر وہ رات ایک یادگار رات تھی۔
وہ رات یاد کریں جب خوف کی سیاہی دمکتے چہروں پر گہری ہوتی جا رہی تھی اور ووٹ گنے جا رہے تھے اور اقتدار کے ایوانوں میں بے کارکردگی کے سائے دراز ہو رہے تھے۔ دو سال کے تعاون برائے استحکام نظام اور جمہوریت برائے عوام کی شاندار کارکردگی والوں کو اس سے پہلے ”بے“ کی موجودگی کا احساس ہوا ہے یا نہیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جنہوں نے اس رات اہل اختیار و اقتدار کے چہرے قریب سے دیکھے تھے لیکن لاہور ہائی کورٹ بار کے کامیاب و ناکام صدارتی امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد نے ان کی کارکردگی سے پہلے ”بے“ کی موجودگی کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ مقابلہ کیسا تھا؟ یا کیسا رہا؟ سب نے دیکھ لیا ایک طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پاک باز پاک دامن صدر تھے۔ آئین اور قانون کے محافظ ان کے جملہ فدائین تھے رائیونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز والے امیر الامراءکے فدائین تھے پی سی او کے زخموں سے نڈھال اہل انصاف تھے۔ ججوں کی تقرری کے ماہر ہیچہ باز گورنر پنجاب تھے اور دوسری طرف یتامیٰ و مساکین تھے اور انہوں نے ان سب کی خدمات عالیہ اور کارکردگی پر عدم اعتماد کا فیصلہ سنا دیا تھا رات کے دو بجے میں نے ٹیلیوژن لگایا تو اتنے بڑے فیصلے نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی فتح کو بھی ماند کر دیا تھا۔ اتنا فرق؟ اتنے زیادہ ووٹوں سے یتامیٰ و مساکین کی کامیابی؟ کیا بیت رہی ہو گی اہل خدمات و تعاون و کارکردگی کے دلوں پر؟ ہے اس فیصلے میں کسی کے لئے کوئی پیغام؟ کوئی سبق ؟ وہ اہل شعور اور اہل عدل و عدلیہ کا اظہار عدم اعتماد تھا آصف علی زرداری اور شریفین کی ملی جلی جمہوریت پر اگر آج ملک کے عوام سے بھی ان کی جمہوریت کی کارکردگی کے بارے میں فیصلہ مانگ لیا جائے تو وہ کیسا ہو گا؟ کرپشن کے اعلانیہ دشمن جاں مسلم لیگ ن کے قائد عوام و خاص میاں محمد نوازشریف کے اس اعلامیہ کو ایک بار پھر پڑھ لیں اندازہ ہو جائے گا۔ کہ ”ہم حکومت کی خراب کارکردگی کو بنیاد بنا کر مایوسی کا اظہار نہیں کریں گے اور تحفظات کے باوجود جمہوری عمل کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ “ اہل شعور کے اظہار مایوسی کے باوجود بھی قائد جمہوریت اپنی مایوسی کی نقاب نہیں الٹیں گے؟ ہالبروک کی ملاقات یا ایک اور ملاقات کے بعد یہ اعلامیہ جاری کرنا ان کا جمہوری فرض تھا کہ اس نے بھی تو زرخور جمہوریت کی سرپرستی کا اعلان کر دیا تھا اور اس کے مزید استحکام کے لئے سید ابو استثنیٰ گیلانی رکھی سکھی کھانے رائیونڈ کے جمہوری تبلیغی مرکز پہنچ گئے تھے۔ ”آﺅ میاں جی مل کر کھائیں “ کی درخواست لے کر‘ اور میاں برادران نے دستر خوان دراز کر دیا تھا۔ یاد کریں وہ رات اور وہ روکھی سوکھی جو دو سال سے وہ مل کر جمہوریت کے دستر خوان پر کھاتے آ رہے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ملک کے عوام ان کی جمہوریت کی پہچان کا شعور نہیں رکھتے ان کے دلفریب و دلربا نعروں اور خطبات سے نڈھال لوگوں کو اپنے دکھ اور مصائب سب بھول گئے ہیں کیا پیغام دے گئی تھی وہ رات ؟ کیا تھا اس پر بھی رکھی سکھی کھانے کے دوران غور زرخور جمہوریت کے مالکوں نے ؟ کون ہے بے شعور؟ کیا فیصلہ سنایا تھا بیس فروری 2010ء کے دن کالا کوٹ برادری نے اور اٹھارہ فروری 2008ء کو ملک کے عوام نے؟ کتنے سال بجتا رہا تھا جنرل پرویز مشرف کی شاندار خدمات اور کارکردگی کا گجر؟ کھا گئے تھے عوام اس گجر کے بجنے سے دھوکہ؟ بس گجر کے بجانے والے بھی اب وردی شاہ کا نام لیتے ہوئے شرم میں ڈوب کر حیا کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں‘ جمہوریت بہت ضروری ہے مگر قیادت؟ ایسی قیادت جس کی کمٹمنٹ اپنی ذات ذاتی مفاد اور مل جل کر کھانے کھلانے سے نہ ہو بلکہ ملک اور اس کے عوام کے ساتھ ہو جس کی سوچ اور جمہوریت اس کے پیٹ کی کی غلام نہ ہو ملک بلکہ قوم کے مفادات کی محافظ ہو اگر ایسا نہ ہو تو جمہوریت اور ڈرون حملے میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتا ڈرون حملے سے چند گھر تباہ اور کئی افراد جاں بحق ہوتے ہیں۔ مگر جمہوریت کے ڈرون حملے سے ملک اور قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ کالا کوٹ برادری کو چیرنے پھاڑنے کے سب آپریشن ناکام ہو گئے تھے۔ مبارک ہو کالا کوٹ اور ٹائی کو جس نے دو سالہ جمہوریت کے زرخور مالکوں کے مقابلے میں جمہوریت کی اور آئین اور قانون کی بہت ہی زیادہ خدمت انجام دے دی ہے اللہ اس برادری کی اس ہمت اور بے غرضی میں اضافہ کرے لوگوں نے تو اس سے اب بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں ملک کو اور جمہوریت کو کرپشن سے بچا لینے کی امیدیں‘ اسے زرخور اور زر زور جمہوریت پسندوں سے نجات دلا دینے کی امیدیں‘ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی واپسی کی امیدیں اور لاچار اور بے بس لوگوں کو انصاف کی فراہمی کی امیدیں۔ سنتے ہیں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ان امیدوں کو پورا کرنے کے کسی مشن کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کالاکوٹ برادری نے بلا فیس جو مقدمہ لڑ کر جیتا ہے اس سے چیف کے مشن کو بھی تقویت ملے گی اور وہ رات ملک کی تاریخ کی یادگار رات بن سکے گی۔ وہ رات جب خوف کی سیاہی اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں براجمان چہروں کو لپیٹ لینے کو بڑھتی جا رہی تھی۔ اور ووٹ گنے جا رہے تھے وہ ہار اور جیت تھی کس کی دو رویوں اور دو رویوں کے مالکوں کی تھی وہ ہار اور جیت اور اس رات شعور کی روشنی سے خوف کی سیاہی گہری ہوتی دیکھی گئی تھی اور ہم نے یہ کالم اس لئے روک لیا تھا کہ اسے پنڈی کے حلقہ 55 کے دنگل کے کسی درشنی پہلوان کی مٹھی چاپی نہ سمجھ لیا جائے۔ شب رفتہ کی سیاہی اور دمک میں بھی تو ایک پیام ہے مگر وہ رات ایک یادگار رات تھی۔