تقدیر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے اور تقدیر بھی وہ جو کسی نے خود اپنے لئے لکھی ہو۔ شیخ رشید احمد کا بڑا افسوس ہے کہ وہ الیکشن ہار گئے اور اس صدمے میں تین سگار پی گئے اور وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہر غم کو میں دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا۔ شیخ صاحب منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ان کے سابقہ اور موجودہ آقاﺅں نے ان کی بڑی مدد کی انہوں نے قاتلانہ حملہ بھی برداشت کیا مگر لال حویلی سے 5مرلے کا کوارٹر جیت گیا۔ مشرف کی باقیات ایک ایک کر کے صفحہ¿ سیاست سے ہٹتی جا رہی ہیں مشرف بھی اس صدمے سے چور کہیں بیٹھے پینگ پر پینگ اڑا رہے ہونگے۔ شکیل اعوان اگرچہ غریب سے آدمی ہےں 5مرلے کے مکان میں رہتے ہیں لیکن ان کا بھی پیچھے سے قلعہ مضبوط ہے۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت اپنے تمام تر وسائل سمیت ان کی پشت پر تھی مگر اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیخ رشید کی جڑوں میں مشرف کی یاری بیٹھ گئی۔ شیخ صاحب نے 21ہزار ووٹوں سے شکست کھائی پھر بھی وہ سگار کا مزہ لینے کےلئے کہتے ہیں۔ دھاندلی ہوئی ساتھیوں کو زبردستی توڑا گیا۔ شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس جیت گئی راولپنڈی کے عوام ہار گئے۔ دوسری طرف یہ خبر ہے کہ پوری راولپنڈی میں شکیل اعوان کی جیت پر جشن کا سماں ہے۔ شیخ صاحب باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں اور سیاسی ہتھکنڈوں سے اچھی طرح واقف ہیں ان کی زندگی کی پہلی اداس پریس کانفرنس تھی جو گزر گئی وہ حوصلہ رکھیں مشرف پھر آئیں گے شیر افگن بھی آئیں گے آمریت بحال ہو گی پھر سے ان کی بہار ہو گی۔ یہ دنیا دارالمکافات ہے یہاں انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ان کے دور شریف میں لال مسجد جیسا سانحہ ہوا، مشرف نے چاروں طرف اودھم مچائے رکھا اور یہ اک وزارت کی خاطر خاموش رہے کیا پنڈی کے عوام یہ سب کچھ بھول گئے ہونگے۔ مسلم لیگ ”ن“ نے ایک غریب آدمی کو اس کی سیاسی کارکردگی کی بنیاد پر ٹکٹ دیا اس لئے لوگوں نے پروردہ آمر کو رد کر کے شکیل اعوان کو منتخب کر لیا سیاست یہ نہیں کہ بندہ کچھ بھی کرتا جائے اور عوام اس کا ساتھ دیتے رہیں وہ بھی سابقہ ریکارڈ سامنے رکھتے ہیں۔ اس لئے ایسی سیاست کرنے سے تو سگار پینا اچھا ہے۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ پیپلزپارٹی انہیں کہیں اور کا ٹکٹ دے دے اور مشرف صاحب بھی اپنے وسائل پھر سے ان پر لگا دیں شاید کوئی امید بھر آئے۔ کوئی حل نکل آئے۔ نواز شریف نے اس موقعے پر ایک
بار پھر سے کہا ہے کہ علی بابا کے چالیس چوروں کے مقابلہ میں ہمارا کارکن جیت گیا۔ بے وفائی کی سیاست دفن ہو گئی مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس ملک میں کوئی ایک علی بابا اور چالیس چور نہیں یہاں بھی باباﺅں اور ان کے لاتعداد چوروں کی کمی نہیں بس وہی معاملہ ہے کہ کبھی ہم کبھی تم۔ فوجی آمر آمریت واقعی بری چیز ہے مگر اس کو بلاتا کون ہے۔ اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتا کون ہے اس لحاظ سے تو سب علی بابا ہیں۔ چالیس چور بچارے تو حکم کے غلام ہوتے ہیں انہیں اگر زمین کی جگہ آسمان مل جائے تو وہ بھلا کیوں کسی علی بابا سے سرکشی کریں رہ گئی دولت اور وسائل تو وہ کس کے پاس کم ہیں سب کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ وہ جسے چاہیں سیاست دان بنا دیں اقتدار میں لے آئیں ہمارے ہاں جمہوریت بھی دولت سے ملتی ہے اس لئے آمریت کے سٹیشن پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ آج شیخ رشید ہار گئے ہیں کل کوئی اور ہار جائے گا یہ ہار جیت تو لگی رہے گی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عندلیب سیاست سگار پی کر خاموش ہو گئی ہے۔ شیخ رشید کا حال تاریک ہو گیا مگر ان کا مستقبل اب بھی روشن ہے اس لئے کہ وہ موقعہ شناسی سیاست بازی اور پٹڑیاں بدلنے کے ماہر ہیں وہ کنوارے سیاست دان ہیں سیاست ہی ان کی زوجہ ہے وہ اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔
بار پھر سے کہا ہے کہ علی بابا کے چالیس چوروں کے مقابلہ میں ہمارا کارکن جیت گیا۔ بے وفائی کی سیاست دفن ہو گئی مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس ملک میں کوئی ایک علی بابا اور چالیس چور نہیں یہاں بھی باباﺅں اور ان کے لاتعداد چوروں کی کمی نہیں بس وہی معاملہ ہے کہ کبھی ہم کبھی تم۔ فوجی آمر آمریت واقعی بری چیز ہے مگر اس کو بلاتا کون ہے۔ اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتا کون ہے اس لحاظ سے تو سب علی بابا ہیں۔ چالیس چور بچارے تو حکم کے غلام ہوتے ہیں انہیں اگر زمین کی جگہ آسمان مل جائے تو وہ بھلا کیوں کسی علی بابا سے سرکشی کریں رہ گئی دولت اور وسائل تو وہ کس کے پاس کم ہیں سب کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ وہ جسے چاہیں سیاست دان بنا دیں اقتدار میں لے آئیں ہمارے ہاں جمہوریت بھی دولت سے ملتی ہے اس لئے آمریت کے سٹیشن پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ آج شیخ رشید ہار گئے ہیں کل کوئی اور ہار جائے گا یہ ہار جیت تو لگی رہے گی مگر افسوس اس بات کا ہے کہ عندلیب سیاست سگار پی کر خاموش ہو گئی ہے۔ شیخ رشید کا حال تاریک ہو گیا مگر ان کا مستقبل اب بھی روشن ہے اس لئے کہ وہ موقعہ شناسی سیاست بازی اور پٹڑیاں بدلنے کے ماہر ہیں وہ کنوارے سیاست دان ہیں سیاست ہی ان کی زوجہ ہے وہ اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔