میدان سجتا ہے تو ہار جیت بھی ہوتی ہے۔ضروری نہیں ہارنے والا ہر بار ہارے اور جیتنے والا ہر بار جیتے ۔ اصل ہار اُن کی ہوتی ہے جو دل ہارتے ہیں ۔ ہارنا بُری بات نہیں دل ہارنا بُری بات ہے ، جیتنا بڑ ی بات نہیں دل جیتنا بڑی بات ہے۔ راولپنڈی کے الیکشن میں عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کو اپنی شکست پرافسردہ ہونا چاہیے نہ سرکاری مسلم لیگ کے شکیل اعوان کو جشن منانا چاہیے۔ ہار جیت ،زندگی موت ، عزت ذلّت اللہ کے اختیار میں ہے اور شکر ہے اللہ نے یہ سب اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ انسانوں کے اختیار میں دیا ہو تا تو دنیا شاید دو دن بھی سلامت نہ رہتی ۔ شیخ رشید کی خوشی کیلئے اتنا بھی کافی ہے کہ گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں حالیہ الیکشن میں اُسے زیادہ ووٹ ملے۔اقتدار سے باہر رہ کر دو سالوں میں اُن کا ووٹ بنک بڑھا ہے اور اگر برسر اقتدار سیاسی جماعتوں کو مزیدتین سالہ کارکردگی دکھانے کا موقع مل گیا تو مجھے یقین ہے اُس کے بعد ہونے والے انتخابات میں لال مسجد جیسے دیگر تمام سانحے لوگ مکمل طور پر فراموش کر چکے ہوں گے لہٰذا شیخ رشید کیلئے اپنا پیغام یہی ہے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ !
ویسے عوامی مسلم لیگ کے رہنما حیران تو ہوئے ہوں گے پیپلز پارٹی کی حمایت کے باوجود اتنے ووٹ انہیں مل کیسے گئے؟ اوپر سے مسلم لیگ ق بھی ان کی حمایت میں اتر آئی یک نہ شُد دو شُد بظاہر جنہوں نے ان کے ساتھ دوستی کی اصل میں دشمنی کی جس کے موصوف حقدار بھی تھے اس لیے کہ مسلم لیگ ق کو بھی انہوں نے اُسی طرح چھوڑ دیا تھا جیسے مسلم لیگ ن کو چھوڑ دیا تھا ۔ ن لیگ نے مخالفت کر کے اُن سے بدلہ لے لیا اور ق لیگ نے حمایت کر کے ۔ سو فی الحال شیخ رشید کو دل ویران ہے تیری ےادہے تنہائی ہے گنگنا کر اُس وقت تک دبدبا جانا چاہیے جب تک برسر اقتدار سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے مکمل طور پر ننگی نہیں ہو جاتیں!
ویسے پیپلز پارٹی نے شیخ رشید کی حمایت کر کے اُن سے جو سلوک کیا اُس کے وہ حقدار بھی تھے ۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بی بی شہید کے بارے میں وہ ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے کہ شائستگی کے سارے دامن تار تار ہوتے ہوئے محسوس ہوتے تھے ۔ بی بی کے بارے میں بولے جانے والے زومعنی جملے اور ہاتھوں کے وہ اشارے پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن کیسے بھول سکتے ہیں جس کے بعد پاکستانی سیاست غلاظتوںمیں ڈوبی ہوئی محسوس ہوا کرتی تھی۔خدا کی قدرت تب یہ سب کچھ شیخ رشید جسے خوش کرنے کیلئے کرتے تھے آج اُ ن کے مقابلے میں اُتر کر وہی اُن کی شکست کا باعث بن گیا۔ جناب نواز شریف پنڈی میں جلسہ نہ کرتے تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں بھی اب وہ تاثر نہیں رہا جو ماضی قریب میں تھا کہ یہ پارٹی کسی کھمبے کو ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ الیکشن جیتنے کیلئے مسلم لیگ ن کو جتنی” سرکاری و غیر سرکاری جدوجہد“ کرنا پڑی اُس پر اُن کے راہنماﺅں کو سر جوڑ کربیٹھنا چاہیے کہ اُن کا گراف اتنا گر کیوں گیا ہے؟ آج قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے کیلئے نواز شریف کو خود میدان میں اُترنا پڑا۔ اُ س نواز شریف کو جس کا سیاسی قد اتنا بلند ہے کہ شیخ رشید اُن کے مقابلے میں بونا دکھائی دیتا ہے۔ کیا سیاست کے ”عالم چنا“ کو اب ہر بونے کے مقابلے پر خود اُترنا پڑے گا؟ کہاں گئے وہ دن جب ”نام ہی کافی ہے“ کا تاثر ن لیگ کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوتا تھا؟ میرے خیال میں پاکستان کی دوسری بڑی جماعت نے اپنے سیاسی کردار کا تعیّن اب بھی نہ کیا تو آج جو الیکشن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جیتی کل زور لگا کر بھی نہیں جیت سکے گی!
شیخ رشید کے ساتھ میڈیا نے بھی وہی سلوک کیا جو سلوک اُن کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے کیا۔ کسی ”صحافتی کاریگر “ نے کہا تھا ”جنگیں اب ہتھیاروں کے زور پر نہیں میڈیا کے زور پر لڑی جائیں گی“۔ میں اس خیال میں ذرا سی ترمیم کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن اب کردار کے زور پر نہیں میڈیا کے زورپر لڑے جائیں گے۔ کوئی امید وار کتنا ہی برا کیوں نہ ہو میڈیا اس کا طرف دار تو اس کیلئے فکرمندی کی کوئی بات نہیں اور کوئی امید وار پارسا کیوں نہ ہو میڈیا اس کا طرف دار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو انتخابات لڑنے سے قبل اب میڈیا سے اپنے ”معاملات“ طے کر لینا چاہییں۔ خاص طور پر میڈیا کے اس ” گروہ “ سے جو سمجھتا ہے پاکستان میں حکومتیں بنانا اور گرانا اس کی ذمہ داری ہے۔ پر ایسے نہیں ہوتا حضور بالکل ایسے نہیں ہوتا ۔ ایک سال کی مسلسل زور آزمائی کے بعد میڈیا کا مخصوص گروہ حکومت تو گرا نہیں سکا اپنی ساکھ گرا بیٹھا!
خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی فی الحال شیخ رشید کی شکست پرہم افسردہ ہیں کہ ایسے لوگ ہوں تو اسمبلی میں رونق سی لگی رہتی ہے۔ اب شیخ صاحب آرام اور غور فرمائیں کہ کون کون سے محرکات ان کی شکست کا باعث بنے۔ ان محرکات میں غرور کی زیادتی اور پیسے کی کمی کو شامل کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ انہیں اب احساس ہو جانا چاہیے کہ انتخابات میں ” لیڈری “ سے زیادہ ”عاجزی“ کام آتی ہے۔ جہاں تک پیسے کا تعلق ہے تو پیسے خرچ کرنے کی سیاست شیخ صاحبان کر ہی نہیں سکتے کہ پیسے خرچ کرنے سے شکست کھانا ان کے نزدیک بہتر ہوتا ہے!
ویسے عوامی مسلم لیگ کے رہنما حیران تو ہوئے ہوں گے پیپلز پارٹی کی حمایت کے باوجود اتنے ووٹ انہیں مل کیسے گئے؟ اوپر سے مسلم لیگ ق بھی ان کی حمایت میں اتر آئی یک نہ شُد دو شُد بظاہر جنہوں نے ان کے ساتھ دوستی کی اصل میں دشمنی کی جس کے موصوف حقدار بھی تھے اس لیے کہ مسلم لیگ ق کو بھی انہوں نے اُسی طرح چھوڑ دیا تھا جیسے مسلم لیگ ن کو چھوڑ دیا تھا ۔ ن لیگ نے مخالفت کر کے اُن سے بدلہ لے لیا اور ق لیگ نے حمایت کر کے ۔ سو فی الحال شیخ رشید کو دل ویران ہے تیری ےادہے تنہائی ہے گنگنا کر اُس وقت تک دبدبا جانا چاہیے جب تک برسر اقتدار سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے مکمل طور پر ننگی نہیں ہو جاتیں!
ویسے پیپلز پارٹی نے شیخ رشید کی حمایت کر کے اُن سے جو سلوک کیا اُس کے وہ حقدار بھی تھے ۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں بی بی شہید کے بارے میں وہ ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے کہ شائستگی کے سارے دامن تار تار ہوتے ہوئے محسوس ہوتے تھے ۔ بی بی کے بارے میں بولے جانے والے زومعنی جملے اور ہاتھوں کے وہ اشارے پیپلز پارٹی کے رہنما اور کارکن کیسے بھول سکتے ہیں جس کے بعد پاکستانی سیاست غلاظتوںمیں ڈوبی ہوئی محسوس ہوا کرتی تھی۔خدا کی قدرت تب یہ سب کچھ شیخ رشید جسے خوش کرنے کیلئے کرتے تھے آج اُ ن کے مقابلے میں اُتر کر وہی اُن کی شکست کا باعث بن گیا۔ جناب نواز شریف پنڈی میں جلسہ نہ کرتے تو نتائج مختلف بھی ہو سکتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے بارے میں بھی اب وہ تاثر نہیں رہا جو ماضی قریب میں تھا کہ یہ پارٹی کسی کھمبے کو ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ الیکشن جیتنے کیلئے مسلم لیگ ن کو جتنی” سرکاری و غیر سرکاری جدوجہد“ کرنا پڑی اُس پر اُن کے راہنماﺅں کو سر جوڑ کربیٹھنا چاہیے کہ اُن کا گراف اتنا گر کیوں گیا ہے؟ آج قومی اسمبلی کے صرف ایک حلقے کیلئے نواز شریف کو خود میدان میں اُترنا پڑا۔ اُ س نواز شریف کو جس کا سیاسی قد اتنا بلند ہے کہ شیخ رشید اُن کے مقابلے میں بونا دکھائی دیتا ہے۔ کیا سیاست کے ”عالم چنا“ کو اب ہر بونے کے مقابلے پر خود اُترنا پڑے گا؟ کہاں گئے وہ دن جب ”نام ہی کافی ہے“ کا تاثر ن لیگ کا دامن مضبوطی سے پکڑے ہوتا تھا؟ میرے خیال میں پاکستان کی دوسری بڑی جماعت نے اپنے سیاسی کردار کا تعیّن اب بھی نہ کیا تو آج جو الیکشن ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جیتی کل زور لگا کر بھی نہیں جیت سکے گی!
شیخ رشید کے ساتھ میڈیا نے بھی وہی سلوک کیا جو سلوک اُن کے ساتھ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے کیا۔ کسی ”صحافتی کاریگر “ نے کہا تھا ”جنگیں اب ہتھیاروں کے زور پر نہیں میڈیا کے زور پر لڑی جائیں گی“۔ میں اس خیال میں ذرا سی ترمیم کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن اب کردار کے زور پر نہیں میڈیا کے زورپر لڑے جائیں گے۔ کوئی امید وار کتنا ہی برا کیوں نہ ہو میڈیا اس کا طرف دار تو اس کیلئے فکرمندی کی کوئی بات نہیں اور کوئی امید وار پارسا کیوں نہ ہو میڈیا اس کا طرف دار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو انتخابات لڑنے سے قبل اب میڈیا سے اپنے ”معاملات“ طے کر لینا چاہییں۔ خاص طور پر میڈیا کے اس ” گروہ “ سے جو سمجھتا ہے پاکستان میں حکومتیں بنانا اور گرانا اس کی ذمہ داری ہے۔ پر ایسے نہیں ہوتا حضور بالکل ایسے نہیں ہوتا ۔ ایک سال کی مسلسل زور آزمائی کے بعد میڈیا کا مخصوص گروہ حکومت تو گرا نہیں سکا اپنی ساکھ گرا بیٹھا!
خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی فی الحال شیخ رشید کی شکست پرہم افسردہ ہیں کہ ایسے لوگ ہوں تو اسمبلی میں رونق سی لگی رہتی ہے۔ اب شیخ صاحب آرام اور غور فرمائیں کہ کون کون سے محرکات ان کی شکست کا باعث بنے۔ ان محرکات میں غرور کی زیادتی اور پیسے کی کمی کو شامل کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ انہیں اب احساس ہو جانا چاہیے کہ انتخابات میں ” لیڈری “ سے زیادہ ”عاجزی“ کام آتی ہے۔ جہاں تک پیسے کا تعلق ہے تو پیسے خرچ کرنے کی سیاست شیخ صاحبان کر ہی نہیں سکتے کہ پیسے خرچ کرنے سے شکست کھانا ان کے نزدیک بہتر ہوتا ہے!