لاہور میں میو ہسپتال، سروسز ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال، سر گنگا رام ہسپتال، لیڈی ولنگٹن ہسپتال اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیسے ہسپتال موجود ہیں۔ ان میں کم و بیش پانچ پانچ سو بیڈز کی سہولتیں موجود ہیں۔ متعدد شعبہ ہائے امراض ہیں۔ ایمرجنسی سنٹرز بھی قائم ہیں۔ بعض ہسپتالوں کے ساتھ ٹریننگ کالج بھی منسلک ہیں۔ اس طرح ان ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بھاری بھر کم ہوگیا ہے۔ جہاں انتظامی امور میں متعدد خرابیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ معیار قائم نہیں رہا جو مطلوب ہے یا کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود حاصل نہیں ہو رہا۔ وسائل بدانتظامی کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں اور عوام کو بھی خاطر خواہ سہولتیں نہیں مل رہیں جو ان کا حق ہے۔
میرے تیس پینتیس سالہ تجربہ اور مشاہدہ کے مطابق ان ہسپتالوں میں جو منتظم مقرر کئے جاتے ہیں وہ جدید ترین ایڈمنسٹریشن کے ماہر نہیں ہوتے۔ عام ڈاکٹروں کو بعض اوقات منتظم مقرر کر دیا جاتا ہے جن کو ہسپتال چلانے، پبلک ڈیلنگ ادویات کی خریداری، مریضوں اور ان کے لواحقین سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل اور سب سے بڑھ کر اکاؤنٹس وغیرہ کو ڈیل کرنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ اکاؤنٹس صاحبان بہت ماہر اور سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہوتے ہیں جن کے سامنے ناتجربہ کار اور غیر ماہر ڈاکٹر منتظم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
ضروری ہے کہ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کا شعبہ قائم کر کے ڈاکٹرز کو ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے ٹریننگ دی جائے۔
چونکہ 500 بستروں کے موجودہ بڑے ہسپتالوں میں انتظامی امور غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ سے خامیاں اور کمزوریاں در آئی ہیں اس لئے ان ہسپتالوں میں پانچ پانچ سو بیڈز کے مزید اضافے کی بجائے درمیانے درجہ کے ہسپتالوں کا قیام ضروری ہے کیونکہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
مثال کے طور پر مرید کے سے شاہدرہ، شاہدرہ سے داتا دربار تک کے علاقے میں بھی کوئی قابل ذکر ہسپتال موجودنہیں، لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب نوازشریف کا قائم کردہ چھوٹا سا ہسپتال ہے اور بس۔ ریلوے کے پار واہگہ بارڈر تک اتنی بڑی آبادیاں ہیں جن کا کوئی شمار نہیں۔ ان میں مصری شاہ، وسن پورہ، فاروق گنج، عثمان گنج، تاج پورہ، کاچھو پورہ، میاں میر، شادباغ، بادامی باغ اور باغبانپورہ کے علاوہ درجنوں نئی آبادیاں شامل ہیں، کوئی سرکاری ہسپتال موجود نہیں۔ میرے خیال اور رائے کے مطابق ان علاقوں میں 200 یا 250 بستروں پر مشتمل نئے ہسپتال قائم کر دئیے جائیں۔ لاہور میں اس قسم کے کم از کم دس سے پندرہ ہسپتال قائم کئے جائیں یا پھر کم از کم لاہور کے جو سٹی ٹاؤنز قائم ہیں ان میں ایک ایک بڑا ہسپتال بنا دیا جائے۔ اس طرح عوام کو زیادہ بہتر میڈیکل سہولتیں میسر آ سکیں گی اور انہیں دور دراز سفر کر کے بڑے ہسپتال میں جانا نہیں پڑے گا۔ مزید برآں ان ہسپتالوں میں رش بھی کم ہو جائے گا۔
لاہور کے متعلق جن خدشات اور بدانتظامی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ملتان یا فیصل آباد میں بھی موجود ہیں۔ وہاں بھی انتظامات تسلی بخش نہیں۔ وہاں بھی پہلے سے قائم کردہ ہسپتالوں میں بیڈز کا اضافہ کرنے اور ایمرجنسی سنٹر قائم کرنے کی بجائے نئے اور الگ ہسپتال قائم کئے جائیں تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔
میرے تیس پینتیس سالہ تجربہ اور مشاہدہ کے مطابق ان ہسپتالوں میں جو منتظم مقرر کئے جاتے ہیں وہ جدید ترین ایڈمنسٹریشن کے ماہر نہیں ہوتے۔ عام ڈاکٹروں کو بعض اوقات منتظم مقرر کر دیا جاتا ہے جن کو ہسپتال چلانے، پبلک ڈیلنگ ادویات کی خریداری، مریضوں اور ان کے لواحقین سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل اور سب سے بڑھ کر اکاؤنٹس وغیرہ کو ڈیل کرنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ اکاؤنٹس صاحبان بہت ماہر اور سرد و گرم زمانہ چشیدہ ہوتے ہیں جن کے سامنے ناتجربہ کار اور غیر ماہر ڈاکٹر منتظم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔
ضروری ہے کہ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کا شعبہ قائم کر کے ڈاکٹرز کو ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے ٹریننگ دی جائے۔
چونکہ 500 بستروں کے موجودہ بڑے ہسپتالوں میں انتظامی امور غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ سے خامیاں اور کمزوریاں در آئی ہیں اس لئے ان ہسپتالوں میں پانچ پانچ سو بیڈز کے مزید اضافے کی بجائے درمیانے درجہ کے ہسپتالوں کا قیام ضروری ہے کیونکہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
مثال کے طور پر مرید کے سے شاہدرہ، شاہدرہ سے داتا دربار تک کے علاقے میں بھی کوئی قابل ذکر ہسپتال موجودنہیں، لاہور ریلوے سٹیشن کے قریب نوازشریف کا قائم کردہ چھوٹا سا ہسپتال ہے اور بس۔ ریلوے کے پار واہگہ بارڈر تک اتنی بڑی آبادیاں ہیں جن کا کوئی شمار نہیں۔ ان میں مصری شاہ، وسن پورہ، فاروق گنج، عثمان گنج، تاج پورہ، کاچھو پورہ، میاں میر، شادباغ، بادامی باغ اور باغبانپورہ کے علاوہ درجنوں نئی آبادیاں شامل ہیں، کوئی سرکاری ہسپتال موجود نہیں۔ میرے خیال اور رائے کے مطابق ان علاقوں میں 200 یا 250 بستروں پر مشتمل نئے ہسپتال قائم کر دئیے جائیں۔ لاہور میں اس قسم کے کم از کم دس سے پندرہ ہسپتال قائم کئے جائیں یا پھر کم از کم لاہور کے جو سٹی ٹاؤنز قائم ہیں ان میں ایک ایک بڑا ہسپتال بنا دیا جائے۔ اس طرح عوام کو زیادہ بہتر میڈیکل سہولتیں میسر آ سکیں گی اور انہیں دور دراز سفر کر کے بڑے ہسپتال میں جانا نہیں پڑے گا۔ مزید برآں ان ہسپتالوں میں رش بھی کم ہو جائے گا۔
لاہور کے متعلق جن خدشات اور بدانتظامی کا ذکر کیا گیا ہے وہ ملتان یا فیصل آباد میں بھی موجود ہیں۔ وہاں بھی انتظامات تسلی بخش نہیں۔ وہاں بھی پہلے سے قائم کردہ ہسپتالوں میں بیڈز کا اضافہ کرنے اور ایمرجنسی سنٹر قائم کرنے کی بجائے نئے اور الگ ہسپتال قائم کئے جائیں تاکہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔