باغات کی شکل میں بنی عوامی تفریح گاہیں شہری ماحول میں وہ سرسبز و شاداب جگہیں ہیں جو شہروں میں بسنے والوں کو زندگی کیجھج افراتفری سے پناہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی تندرستی کو فروغ دیتی ہیں اور مختلف طرح کے افراد کے مابین رابطے کا وسیلہ بھی بنتی ہیں۔ لاہور اپنی بھرپور ثقافت اور تاریخی آثار کے لیے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اس شہر میں مذکورہ نوعیت کی تفریح گاہوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے پاس ہے۔ یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ حالیہ برسوں میں ایک پریشان کن رجحان سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ ان عوامی تفریح گاہیں شادی کی تقریبات کے لیے کرائے پر دیدی جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسا شام کے اوقات میں ہوتا ہے اور ان اوقات میں ان تفریح گاہوں میں عام لوگ کم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس عمل سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔
عوامی تفریح گاہوں کو حکومت جن مقاصد کے لیے بناتی ہے ان میں تفریح، ورزش اور آرام شامل ہیں اور انھی مقاصد کو سامنے رکھ کر ان تفریح گاہوں کو ایک خاص شکل دی جاتی ہے۔ انھی مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہر عمر اور پس منظر کے لوگوں کے لیے ایک مشترکہ ماحول ترتیب دیا جائے جس کے ذریعے کمیونٹی کے احساس کو فروغ ملے۔ تفریح گاہوں کی جمالیاتی اور ماحولیاتی اہمیت لاہور جیسے شہر میں اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کہ یہاں کی آبادی بہت زیادہ اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل بھی گوناگوں ہیں۔ تفریح گاہوں میں موجود درخت آلودگی کو کم کرنے، حیاتیاتی تنوع کو بڑھانے اور شہری تناؤ سے نجات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس سب کا بنیادی مقصد عوام کی خدمت ہے نہ کہ مالی اعتبار سے کسی منفعت بخش سلسلے کو آگے بڑھانا۔
شادی کی تقریبات کا عوامی تفریح گاہوں میں انعقاد ان کے بنیادی کام میں خلل ڈالتا ہے۔ شادی بیاہ کے لیے کی جانے والی سجاوٹ، عارضی ڈھانچے اور سامان اور افراد کی بڑی تعداد میں موجودگی گھاس اور پودوں کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے ان تفریح گاہوں کی دلکشی اور خوبصورتی بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، ایسے مواقع پر شادی میں آئے ہوئے افراد تفریح گاہوں سے ملحقہ سڑکوں پر اپنی گاڑیاں کھڑی کر دیتے ہیں جس سے مقامی رہائشی اور وہاں سے گزرنے والے متاثر ہوتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شادی کا کھانا بھی بعض اوقات انھی سڑکوں پر پکایا جاتا ہے اور بعد میں وہاں صفائی بھی نہیں کی جاتی۔ اس صورتحال میں ایک طرف تفریح گاہوں کے اردگرد کا ماحول متاثر ہوتا ہے اور دوسری جانب عوام کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے اور یہ دونوں معاملات ان مقاصد سے متصادم ہیں جنھیں سامنے رکھ کر عوامی تفریح گاہیں بنائی جاتی ہیں۔
پی ایچ اے کو لاہور میں تفریح گاہوں اور سبزہ زاروں کی دیکھ بھال کا کام سونپا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مینڈیٹ یہ یقینی بنانا ہے کہ تفریح گاہیں اور سبزہ زار عام لوگوں کے لیے قابل رسائی اور فائدہ مند رہیں۔ شادی کی نجی تقریبات کے لیے تفریح گاہیں کرائے پر دینے کا فیصلہ اس مینڈیٹ سے انحراف ہے۔ اگرچہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ تفریح گاہیں کرائے پر دینے سے پی ایچ اے کو جو آمدن کے لیے حاصل ہوتی ہے وہ تفریح گاہوں اور سبزہ زاروں کی حالت بہتر بنانے پر اور ان کے معاملات چلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن تفریح گاہوں اور سبزہ زاروں کو اس آمدن کی وجہ سے جو نقصان پہنچتا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے مقابلے میں یہ آمدن کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ صورتحال پی ایچ اے کے مینڈیٹ اور عوامی بہبود پر اس کے اثرات کے بارے میں سنگین سوالات اٹھارہی ہے۔
یہاں یہ سوال سب سے اہم ہے کہ پی ایچ اے کو عوامی تفریح گاہوں میں نجی تقریبات کی اجازت دینے کا اختیار کس نے دیا؟ کیا یہ فیصلہ شفافیت کی بنیاد پر عوامی مشاورت سے کیا گیا یا یہ ایک یکطرفہ اقدام تھا جس کا مقصد وسیع تر مضمرات پر غور کیے بغیر محض آمدن کو بڑھانا تھا؟ عوامی تفریح گاہیں اجتماعی اثاثہ ہیں اور ان کے استعمال سے متعلق فیصلوں میں تمام سٹیک ہولڈرز، بشمول عوام اور ماہرین ماحولیات، کو شامل کیا جانا چاہیے۔ مذکورہ صورتحال سے جو سنگین مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کے حل کے لیے ایک واضح اور شفاف پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ پی ایچ اے کو مطلوبہ مقاصد کے لیے عوامی تفریح گاہوں اور سبزہ زاروں کے تحفظ اور دیکھ بھال کو ترجیح دینی چاہیے۔ اگر آمدنی بڑھانا ضروری ہے تو اس کے متبادل طریقوں یعنی سپانسرشپ وغیرہ پر غور کیا جائے۔ دوسرا، نجی تقریبات کے دوران ملحقہ سڑکوں کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت ضابطے نافذ کیے جائیں۔
پی ایچ اے کے ذمہ داران کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوامی تفریح گاہیں اور سبزہ زار لاہور کے شہری زندگی ایسا حصہ ہیں جن کے بغیر اس زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ شادی کی تقریبات کے لیے ان جگہوں کرائے پر دینے سے ان عوامی اثاثوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کی تلافی کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتی۔ پی ایچ اے کو اپنے مینڈیٹ پر نظرثانی کرنی چاہیے اور اپنی پالیسیوں کو شہر کے باسیوں کی بہتری کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ فضائی آلودگی نے پہلے ہی اس شہر کا برا حال کیا ہے اور سموگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل تو ہم سب دیکھ بلکہ بھگت ہی رہے ہیں۔ شہر میں موجود عوامی تفریح گاہوں اور سبزہ زاروں کا تحفظ یقینی بنا کر پی ایچ اے ایک قومی خدمت کر رہا ہے جس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے، اور حکومت کو چاہیے کہ وہ پی ایچ اے کے کام میں بہتری لانے کے لیے اس کے وسائل میں اضافہ کرے۔
عوامی تفریح گاہوں میں شادی کی تقریبات
Dec 26, 2024