گیارہ جماعتوں پر مشتمل PDMحکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہے مگر نہ کوئی شوروغُل ہے نہ بے چینی کی کیفیت۔ حکومت اِن کے واویلا سے ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ گیارہ جماعتوں میں دو بڑی جماعتیں بھی شامل ہیں وہ حکومت کو زیر کرنے میں کیوں ناکام ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت کے خلافPDM کا یہ واویلا بے وقت کی راگنی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ ’’آزمودہ را آزمودن جہالت است‘‘ آزمائے ہوئے کو بار بار آزمانا بے وقوفی ہے۔ عوام کئی دہائیوں تک PDMمیں شامل جماعتوں کو آزماتے رہے ہیں اور اب وہ اُن کی بے تُکی باتوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ سبب یہ ہے کہ مولانا اور مریم صفدر دونوں پارلیمنٹ سے باہر ہیں اور دونوں حکومت کو آناً فاناً ختم کرنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ان کی پارٹیاں حکومت میں نہیں ہیں تو حکومت بقول مولانا ناجائز ہے۔ ’’مولانا‘‘ ن۔ لیگ اور PPPکی حکومتوں میں کشمیر کمیٹی کے متفقہ چیئرمین ہوتے ہیں۔ہاں نیب آج کل مولانا کے ’’اثاثے‘‘ سامنے لانے کے درپے ہے۔ مولانا کے والد صاحب نے ایک مرتبہ بابائے صحافت جناب محترم حمید نظامی صاحب کے سامنے فرمایا تھا کہ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے جُرم میں شریک نہیں تھے۔ بہرحال مولانا آج کل پہلی بار حکومت سے باہر ہیں لہٰذا وہ اس حکومت کو جائز نہیں سمجھتے جیسے نیب مولانا کے آمدن سے زائد اثاثوں کو جائز قرار نہیں دے رہی۔ جب پانامہ کا فیصلہ آیا تو مریم نواز نے میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر فوج اور عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی تھی وہ سب پر عیاں ہے۔ نواز شریف کو سزا ہوئی۔ علاج کے بہانے آج کل لندن میں قیام پذیر ہیں۔ مریم یہاں جلسوں میں اُسی فوج کے خلاف زہراُگلنے میں مگن ہے۔ مریم کو بھی سزا ہوئی تھی۔ عورت ہونے کی وجہ سے ضمانت لے لی گئی حالانکہ ہزاروں خواتین ہماری جیلوں میں قید ہیں۔ مریم نواز سمیت مولانا اور بلاول زرداری کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی عوام کے دل اپنی پاک فوج کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ وہ اپنی فوج کے خلاف ایک لفظ بھی سُننا گوارا نہیں کرتے۔ جنرل ضیاء الحق والی فوج اچھی تھی مگر یہ فوج بُری ہے؟PDMکا فوج کے خلاف بیانیہ عوام دفن کر چکے ہیں۔ بلاول کی بے تُکی باتیں عوام کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ عوام ماضی کو قطعاً نہیں بُھلا سکتے؟ زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد اتحادیوں کے ساتھ مِل کر اس ملک کو جو نقصان پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے۔ زرداری نے اپنی جماعت سمیت ہر پارٹی کو لوٹ مار کی کھلی اجازت دے رکھی تھی۔ اب بلاول کس مُنہ سے عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ابھی بھی سندھ میں PPP کی حکومت ہے۔ کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ بلاول پہلے سندھ میں ہی لوگوں کے مسائل حل کرائیں اور سندھ کو کرپشن فری صوبہ بنا کر دکھائیں، پھر شاید عوام اُن کی بات سننے کو تیار ہو سکے۔ اداروں کو فضول یا حکومت کو بُرا بھلا کہنے سے کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ چار روز قبل خورشید شاہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ فرماتے ہیں کہ عمران خان سیاست دان نہیں ہے اور یہ کہ چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ ماشاء اللہ پہلے جتنے بھی چیئرمین نیب گذرے ہیں وہ واقعہ ہی سر جھکاتے آئے ہیں۔ سر تو اللہ کے سامنے جھکانا چاہیئے۔ چیئرمین بہت درست سمت میں جا رہے ہیں۔ مگر کیا کریں خورشید شاہ صاحب شاید ابھی ’’ماضی‘‘ میں رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو ابھی ڈھائی سال ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کا کردار سب کے سامنے ہے اور ایک کھلی کتاب ہے۔ پانچ سال کے لیے عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ ڈھائی سال مزید آپ صبر کر لیں۔ پھر سب میدان میں آ جائیں گے جس کی کارکردی ہو گی عوام انہیں Select کر لیں گے۔ کرونا کا سنگین خطرناک مہلک ماحول ہے ۔ روزانہ لوگ فوت ہو رہے ہیں۔ PDM اور حکومت والے دونوں عوام پر رحم کریں۔ جلسوں میں ان کو نہ گھسیٹیں۔ بلاشبہ مہنگائی، بیروزگاری کا گذشتہ حکومتوں کی طرح راج ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ اس کے باوجود عوام موجودہ حکومت کو پانچ سال دینا چاہتے ہیں تو PDM والے بھی صبر سے کام لیں۔ جلسہ بڑاکر لینا کسی پارٹی کی کامیابی کی دلیل نہیں ہوتا۔ انڈیا کے ساتھ حالات انتہائی خراب ہیں ۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنی ’’کارکردگی‘‘ بھی دکھائیں اور PDM کے ساتھ بھی بات چیت کریں تاکہ کم از کم عوام کے دُکھوں کا مداوا تو ہو سکے۔ اگر PDM اور حکومت میں اِسی طرح کھینچا تانی جاری رہی تو عوام کا پُرسانِ حال کون ہو گا؟ اقتدار کی ہوس سے بے نیاز ہو کر PDMاور حکومت دونوں کو عوام کا سوچنا ہو گا۔ نام دونوں عوام کا لیتے ہیں اور مفادات ان کے اپنے اپنے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب خود PDM سے رابطہ کریں، اُن کو بٹھاکرسُنیں، نیب والے ان سے پری بارگین کرلیں۔ کچھ لے دے کر اِن کو ریلیف دیں تاکہ ملک میں بے چینی کا خاتمہ ہو ورنہ یہی حالات رہے تو ’’جمہوریت‘‘ کی گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے گی اور سب ہاتھ مَلتے رہ جائیں گے۔ کسی کے ساتھ کچھ بھی نہیں لگے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024