بالآخر جو ہونا تھا سو ہو گیا۔ تمام تجزئیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تجزیہ نگار اینکر پرسن سیاسی لال بجھکڑ، سب کا خیال تھا کہ توازن برقرار رکھا جائیگا۔ میاں صاحب کی داد رسی نہیں تو اشک شوئی ضرور کی جائیگی۔ وہ طنزاً ہی سہی خان کو کہہ سکیں گے …؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلائوں ہائے دل
قانون کا لمبا ہاتھ عمران خان کے گریبان تک تو نہ پہنچ سکا البتہ جیب کاٹ گیا۔ ان کے ’’بٹوہ بردار‘‘ جہانگیر ترین پر کاتب تقدیر کا آزاد قلم چل گیا اور وہ نااہل قرار دیا گیا۔ عزیزی بلاول نے طنزاً ٹویٹ کیا۔ ’’عمران خان کی ATM مشین میں روڑا اٹک گیا ہے‘‘ ن لیگ میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ ان کا ہدف ’’برائی کی ماں تھی‘‘ Lessor Evilنہیں تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چند گھنٹے قبل وہ حدیبیہ پیپر مل کا فیصلہ آنے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے۔ چھوٹے صاحب نے تو اسے حق اور سچائی کی فتح قرار دیا مقدمہ استغاثہ کی Inordinate Delay پر ختم ہوا۔ تکنیکی وجوہ! پتہ نہیں حق اور سچائی کہاں سے ٹپک پڑی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ہماری حق گوئی پر نہیں بلکہ دیدہ دلیری پر رشک کرتی ہے۔
اگر عمران خان نااہل ہو جاتا تو پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔ یہاں پارٹیاں اشخاص پر چلتی ہیں۔ خان کے بغیر ’’لولی لنگڑی‘‘ تحریک انصاف دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی۔ اب تک دبنگ خان نے جو Momentum Built کیا ہے، وہ فضا میں تحلیل ہو جاتا۔ شاہ محمود، ترین، چودھری سرور یا علیم خان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکیں۔ ان میں کوئی بھی دوسرے کو لیڈر ماننے پر تیار نہ ہوتا۔ یہی حال دوسری پارٹیوں کا ہے۔ پیپلز پارٹی بغیر زرداری اور بلاول کے صفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بوڑھے انکل نوعمر لیڈر کے سامنے دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی معزولی نے ن لیگ کی چُولیں ہلا دی ہیں۔ گو وہ ہنوز کسی طور پارٹی صدر بن گئے ہیں مگر وہ مولوی مدن والی بات کہاں۔ گھوڑوں نے نئی چراگاہوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ اسمبلی میں کورم پورا نہیں ہوتا۔ لاء اینڈ آرڈر کا یہ حال ہے کہ دس ہزار پولیس والے دو ہزار دھرنا دینے والوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ بے بس نظر آتا ہے اور وزیراعظم ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘
جہانگیر ترین عمران خان کا دستِ راست ہے۔ پارٹی کا جنرل سیکرٹری تھا۔ کیا اسکے جانے سے کوئی فرق پڑیگا؟ سیاسی طور پر عمران کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائینگے۔ یہ جو طوفانی دورے اور جلسے ہو رہے ہیں ان میں کمی آ جائیگی۔ خان معاشی اعتبار سے مفلوج ہو جائیگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ خان کی مایوسی اپنی جگہ لیکن اندر ہی اندر پارٹی کے لیڈران نے سکھ کا سانس لیا ہے شاہ ملتانی کی ایک بہت بڑی اڑچن دور ہو گئی ہے۔ پہلے دور میں یوسف رضا گیلانی اسکی اور وزارت عظمیٰ کے درمیان حائل ہو گیا تھا۔ اب ترین ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ ہر دو کا تعلق ملتان سے ہے۔ ایک میان میں دو تلواریں تو سما سکتی ہیں لیکن ایک شہر میں دو بڑے لیڈروں کا نباہ مشکل ہوتا ہے۔ چودھری سرور پارٹی میں عضو معطل بن گیا تھا۔ اسکی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ اسد عمر پارٹی کا جنرل سیکرٹری بن جائیگا۔ اس کا برگر قسم کے سیاستدان پر شاید کسی کو اعتراض بھی نہ ہو۔ اس کا دوسرا بھائی ن لیگ میں ہے، اسے گورنر سندھ بنا دیا گیا ہے۔ وہ اپنی حرکات و سکنات اور بیان بازی سے گورنر کم اور متوالا زیادہ لگتا ہے۔ غیر جانبداری کا جو تھوڑا سا بھرم ہوتا ہے وہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ جو شخص مریم نواز کے گھر پر دستک دے کر واپس چلا جائے اسکے متعلق تو دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
ہمیں اپنے مؤقف کی وضاحت کے لئے جہانگیر ترین کے عروج و زوال پر نظر ڈالنا ہو گی۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ یہ سیاستدان By Default بنا ہے۔ میں اسے اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ کوئٹہ میں اپنی کوٹھی میں ٹرالی، سائیکل چلاتا تھا۔ اسکے والد اللہ نواز خان ترین کوئٹہ میں ڈی آئی جی پولیس تھے۔ نہایت ملنسار اور خوبصورت انسان، ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی میںاس وقت AC قلات تھا، یحییٰ خان کا مارشل لاء لگ چکا تھا، بریگیڈیئر درانی جب بھی میٹنگ بلاتے تو کمشنر صاحب قلات کی طرف سے مجھے بھیجتے۔ ترین صاحب کو حکومت نے فارغ کر دیا، وہ 303 کی زد میں آ گئے۔ کسی سرکاری ملازم کیلئے اس طرح نوکری سے نکلنا بہت بڑا المیہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور ملتان میں آ کر کاروبار شروع کر دیا۔ پیپسی کی ایجنسی سونے کی کان ثابت ہوئی اور جلد ہی ان کا کاروبار پورے صوبے میں پھیل گیا۔ میں جب 1990ء میں ڈی سی ملتان تعینات ہوا تو ایک طویل عرصے کے بعد پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
ایک دن احمد محمود (سابق گورنر پنجاب) مجھے ملنے آیا تو اسکے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ تعارف کراتے ہوئے بولا ’’آپ نے شاید اسے پہچانا نہیں، یہ میرا بہنوئی جہانگیر ترین ہے۔ یہ اس وقت بہت مشکل میں ہے جو صرف آپ ہی حل کر سکتے ہیں۔ اسکے باپ نے اسے جائیداد سے عاق کر کے گھر سے نکال دیا ہے اور لودھراں کا ماڈل فارم بھی واپس لے لیا ہے۔
دراصل ہوا یوں کہ جہانگیر ترین نے احمد محمود سے مل کر نواب صادق قریشی سے لاہور والی پیپسی کولا کی فیکٹری خرید لی۔ یہ فیکٹری نواب مرحوم کو بھٹو صاحب نے انعام میں دی تھی۔ نواب صاحب جب بیمار ہوئے تو انکے بیٹوں نے کھل کھیلنا شروع کر دیا۔ شام کو جس کے ہاتھ جو کچھ آتا وہ گھر لے جاتا۔ جب اس ’’کارخیر‘‘ میں ان کا داماد زاہد حامد (سابق وزیر قانون) بھی شامل ہوا تو صادق قریشی کا ماتھا ٹھنکا۔ انہیں فیکٹری بیچنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ ترین صاحب کو غصہ تھا کہ جہانگیر نے خاندانی کاروبار میں احمد محمود کو کیوں شامل کیا۔ ان کا استدلال تھا کہ رشتہ داری اور کاروبار الگ چیزیںہیں۔ احمد محمود سید حسن محمود کا فرزند ہے۔ اس کا تعلق رحیم یار خان سے ہے۔ یہ کئی دفعہ وزیر بھی رہ چکا ہے۔ جب میں رحیم یا ر خان میں ڈپٹی کمشنر تھا تو میں اسے سیاست میں لایا (اس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی زیر طبع کتاب شاہ داستان میں کر دیا ہے) قصہ مختصر میں نے باپ بیٹے میں صلح کرا دی۔ جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے جہانگیر ایک زرخیز ذہن رکھتا ہے۔ جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے کندن بن جاتی ہے۔ اسکے کہنے پر احمد نے جمال دین والی میں شوگر مل لگائی۔ کچھ سالوں میں اس نے ایک سے تین ملیں کھڑی کر دیں۔ گنے کی مسلسل سپلائی کیلئے اس کو ایک نئی ترکیب سوجھی، اس نے مقامی زمینداروں سے 15 ہزار ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے لی، ٹھیکے کی رقم دگنی کر دی۔ وہ زمین دراصل مل کی تھی البتہ نام جے کے فارم رکھا گیا۔ اب اسے اتفاق سمجھیں کہ کاشتکاروں کو بروقت ادائیگی نہ کرنے پر مشرف دور کی فوجی انتظامیہ نے مل بند کر دی۔ یہ ایک دفعہ پھر میرے پاس آئے۔ میں اس وقت کمشنر بہاولپور تھا۔ میں نے ذاتی ضمانت پر جنرل عارف حیات GOC کو کہہ کر مل کھلوائی۔ میرا استدلال یہ تھا کہ مل چلے گی تو رقم کی ادائیگی ہو سکے گی۔
اس وقت تک جہانگیر سیاست سے کوسوں دور تھا۔ ایک کامیاب بزنس مین! جب مشرف نے اسمبلی الیکشن کیلئے گریجویشن کی قدغن لگائی تو احمد کو مجبوراً اپنی سیٹ جہانگیر کو دینا پڑی۔ اسکے بیٹے نابالغ تھے۔ یہاں سے ترین کی سیاست کا آغاز ہوا۔ ق لیگ کی حکومت میں زراعت کا مشیر رہا۔ اسی اثناء میں احمد محمود کے بیٹے جوان ہو گئے اور انہوں نے مناسب سمجھا کہ انکل کو ایکسٹرا ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا جائے۔ یہاں سے ان کا اختلاف شروع ہوا۔ مجبوراً جہانگیر نے تحریک انصاف جائن کر لی اور بالاخر عمران کی وجہ سے لودھراں کے حلقے سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو گیا۔
اب ہو گا کیا…؟ نظرثانی کی اپیل تضیع اوقات ثابت ہو گی۔ تمام دستاویزات کی جانچ پڑتال ہو چکی ہے۔ (ERROR APPARENT ON THE FACE OF RECORD) تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ جہانگیر کی اولاد باآسانی ضمنی انتخاب میں کامیاب ہو جائے گی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کہ ATM رک جائیگی وہ غلط فہمی میں نہ رہیں۔ ہندو پاک کی تاریخ صرف بادشاہوں سے نہیں بلکہ بادشاہ گروں سے بھی بھری پڑی ہے۔