مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پاکستان میں ولن کو ہیرو اور ہیرو کو زیرو کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ تصور اور فلاسفی پوری طاقت کے ساتھ لاگو ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔اس تھیوری کا خاتمہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ان میں سے ایک نہ رہے یعنی یا تو بھینس ہی مر جائے یا پھر لاٹھی ہی ٹوٹ جائے لیکن ظاہر ہے کہ دونوں ہی لازم وملزوم ہیں۔ پاکستان میں لاٹھی ہر اس شخص کے ہاتھ میں ہے جس کے پاس دولت ہے اور دولت کے بل پر آپ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں دولت کی طاقت کی لاکھوں کروڑوں مثالیں ہیں جس نے پاکستان کو ان 70 سالوں میں کمزور سے کمزور کیا ہے۔ پاکستان میں دکھ کی کروڑوں کہانیاں ہیں۔ پھر بھی ہمارے کئی ادباء وشعراء کہانیوں اور آئیڈیاز کے حربے اور نقالی سے باز نہیں آتے۔پاکستان میں انصاف وہ واحد چیز ہے جو ناممکن الحصول ہے۔ جتنی دھجیاں پاکستان میں میرٹ کی اڑائی گئی ہیں اتنی دھجیوں سے تو پورے ہالی ووڈ بلکہ امریکہ کے ملبوسات تیار ہوسکتے ہیں۔ شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزموں کی رہائی نے ’’انصاف‘‘ کی حقیقت واشگاف کر دی ہے۔ شاہ زیب مرحوم کے والد نے میڈیا کے سوالوں کے جواب میں صرف یہ کہا کہ اللہ کی رضا کے لئے معاف کیا ہے۔ کون باپ ہوگا جو اپنے نوجوان بیٹے کے بے قصور قتل پر اللہ کے نام پر معاف کر دے ۔ یہ صرف اور صرف اس شخص کی بے بسی‘ بے چارگی اور بدنصیبی کی انتہا ہے۔ یقینی طور پر شاہ رخ جتوئی کے باپ نے دولت اور طاقت کے بل پر ڈرا دھمکا کرمقتول کے باپ سے راضی نامہ کرایا ہے۔ شاہ زیب کے والد کے ابتدائی بیان اور اس بیان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاہ زیب کی فیملی نے پہلے بتایا تھا کہ انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں عدلیہ کا کیا کردار ہے اور طاقت کے بل پر کیے گئے ایسے راضی ناموں پر عدالتوں کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ گزشتہ دنوں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی اور لاہور کے دوروں کے دوران جو تقاریر کیں‘ وہ بہت امید افزاء تھیں۔ اس کے علاوہ لاہور اور کراچی میں گندے پانی کے حوالے سے چیف جسٹس کی برہمی قابل توجہ تھی جو حکومتیں اپنے لوگوں کو صاف پانی بھی فراہم نہیں کرسکتیں ان سے کسی اور سہولت کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ملک پر پچھلے 45سال سے انہی دو پارٹیوں کا قبضہ چلا آرہا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی 70ء کی دہائی سے مسلسل حکومت میں رہی ہے یا حکومت کرتی رہی ہے۔ شاید بھٹو کے زمانے میں پانی صاف ہو لیکن ضیاء الحق کے بعد سے پاکستان میں جہاں مہنگائی کا طوفان برپا ہوا ہے وہاں ان دونوں پارٹیوں نے انصاف‘ مساوات‘ امن‘ رواداری‘ میرٹ اور اقدار کا دیوالیہ بھی نکال دیا ہے۔خصوصاً 35 سالوں میں پاکستان اپنی ثقافت‘ معاشرت‘ معیشت‘ تعلیم وتربیت‘ انصاف‘ صنعت وحرفت‘ سیاست‘ جمہوریت‘ ریاست ہر حوالے سے کمزور ہوا ہے۔ ہمارے روپے کی قدر اتنی گری ہے کہ گر کر تباہ ہوگیا بلکہ صرف کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری اقدار گراوٹ کا شکار ہوگئی ہیں‘ ہماری زبان انگریزی‘ ہندی اور دیگر کا مغلوبہ بن کر رہ گئی ہے۔ قومی زبان اردو کے ساتھ سوتیلوں سے بھی بدتر سلوک کیا جارہاہے۔ جمہوریت کا راگ الاپ کر ملک میں آمریت اور بادشاہت کو رواج دیا گیا ہے۔ رشوت‘ سفارش‘ اقرباء پروری‘ دھونس دھاندلی‘ منافقت‘ ریاکاری‘ مکاری‘ بددیانتی‘ افراتفری‘ انتشار اورحق تلفی نے ہمارے ملک میں پائوں پسار لیے ہیں۔ جس ملک میں حکومت ’’مال بھرو‘‘ کے ایجنڈے پر‘ اپوزیشن جلسے جلوس کے نام پر منعقدہ فنکشنز انجوائے کرنے پر لگی ہو اور فوج سرحدوں کے علاوہ ملک کے مختلف محاذوں پر ڈٹی ہو تو پھر صرف عدلیہ کا کردار باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اٹھے اور ایسے تمام ناسوروں کے علاج کے لئے ازخود نوٹس لیکر فیصلے کرے۔ آج حال یہ ہے کہ گندا غلیظ پانی اس ملک کے عوام کا نصیب بنا دیا گیا ہے۔ اس ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے اور ملک میں بے روزگار افراد سے بھی ڈنڈے کے زور پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔ کسی ایک گھر میں صاف پانی نہیں آتا لیکن ہر گھر کو مختلف ٹیکسوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔ کھانے کو روٹی نہیں ملتی لیکن ٹیکس کا پروانہ آجاتا ہے۔ بے چارے غریب عوام کا اتنا ذریعہ آمدن نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ٹیکس ٹھونک دیا جاتا ہے۔ شہبازشریف نے عوام کو کسی بھی جگہ صاف پانی فراہم نہیں کیا لیکن خالی پلاٹ پر بھی ٹیکس کا انجکشن لگا دیا ہے۔ لوگوں کو صاف سیدھی سڑکیں نہیں دیں‘ لاہور کی ہزاروں سڑکیں آثار قدیمہ اور جنگ عظیم کا نقشہ پیش کر رہی ہیں لیکن خادم اعلیٰ کو پل اور پلیاں‘ ریڈ‘ اورنج‘ یلیو گاڑیاں بسیں بنانے اور لانے کا شق چڑھا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سیف سٹی پراجیکٹ پر اربوں روپے خرچ کرکے کیمرے لگائے گئے اور تمام سڑکیں اس چکر میں ادھیڑ کر پھینک دی گئیں۔ 10ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے پورے لاہور کی سڑکوں میں گڑھے ڈال دیئے گئے لیکن آج تک کیمرے نصب کرنے کیلئے جہاں جہاں سڑکیں کھودی گئی تھیں وہ اسی طرح ٹوٹی پھوٹی پڑی ہیں۔ لوگوں کوآتے جاتے ہر دو کلومیٹر پر دھکے اور جھٹکے پڑتے ہیں۔ لاہور کی آدھی آبادی بلڈپریشر‘ شوگر اور دل یا گردوں کی مریض ہے جن کے لئے یہ جھٹکے جان لیوا ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان جھٹکوں اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے قیمتی گاڑیوں کے انجر پنجر ڈھیلے ہو جاتے ہیں جبکہ پرانی گاڑیوں کے تو بمپر اور بونٹ بلکہ کئی بار تو ٹائر بھی نکل کر باہر گر تے دیکھے گئے ہیں۔ اس سیف سٹی پراجیکٹ سے لوگوں کی جان اور صحت دونوں خطرات سے دوچار ہیں۔ سیف سٹی پراجیکٹ لاہوریوں کی جان کیلئے عذاب اور خطرہ بن گیا ہے۔ جبکہ اس سے آج تک کوئی کیس پکڑا نہیں گیا‘ نہ ہی کسی کو ٹکے کا فائدہ ہوا۔چیف جسٹس کو ایسے نامعقول پراجیکٹس کا ازخود نوٹس لینا چاہیے اور کسی حکمران کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ احمقانہ یا نامعقول پراجیکٹس پر اندھا دھند اربوں روپے خرچ کرے۔ یہ پیسہ ہمارے خون پسینے سے نچوڑ کر خزانے میں جاتا ہے۔ خزانے میں موجود پیسہ ہمارا ہوتا ہے‘ اس لئے اگر کوئی پراجیکٹ ناکام ہوتا ہے یا اس سے نقصان ہوتا ہے تو اس رقم کی ادائیگی خود مطلوبہ حکمران کی ذمہ داری ہے۔حکمران کو اپنے ہر فعل کے لئے جوابدہ ہونا چاہیے اور ان رقوم کو آڈٹ ہونا چاہیے کہ آخر یہ کھربوں روپے کب ، کہاں‘ کیسے اور کس پر خرچ کیا جاتا ہے، کیوں خرچ کیا جاتا ہے؟ ہر روپے بلکہ پیسے پیسے کا حساب ہونا چاہیے۔ یہ پیسہ کوئی مفت کا مال نہیں ہے کہ اندھا دھند ذاتی دوروں پر خرچ کیاجائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے بڑی زبردست بات کی کہ ہمیں کوئی لیڈری کا شوق نہیں ہے۔ دراصل اقتدار میں رہنے والے خرابی کے حقیقی ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور کھڑا کرنا کافی نہیں اس سے تو الٹا ان کی پبلسٹی ہوتی ہے کہ ‘‘بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ آپ کی بہادری‘ عدل اور حب الوطنی کا تقاضا تو یہ ہے کہ قانون کے مطابق چارہ جوئی کریں‘ انہیں سخت سزائیں دیں۔ اگر چیف جسٹس عدل کے مطابق پاکستان کے دس بڑوں کو ان کے جرم کے مطابق ایک مرتبہ کڑی سزائیں دے دیں تو خدا کی قسم! اس ملک سے کرپشن دم دبا کر بھاگ جائیگی۔ پاکستان میں کرپشن اور ظلم کا خاتمہ تبھی ہوگا جب اس ملک کے حقیقی مجرموں‘ زور آور اور منہ زوروں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اس اندھیر نگری‘ لاقانونیت کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ ہم کب تک اس سسٹم کے ہاتھوں یرغمال رہیں گے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس سے کب نجات ملے گی۔ کیا کوئی نجات دہندہ آئے گا جو ہمیں ان آلائشوں سے نجات دلائے گا؟ یہ لاٹھی ٹوٹ کیوں نہیں جاتی جس سے بھینس پر قبضہ کیا جاتا ہے۔