بیورو چیف ....عبدالشکور ابی حسن
صحرانامہ
نبی آخری زماں حضرت محمد نے اپنے آخری خطبہ میں اسلام کو ایک مکمل دین قرار دیا اورفرمایا کہ اسلام اصولوں کی پاسدرای کروگے تو فلاح پاﺅ گے جب سے نبی کریم کا خطبہ حج ہوا ہے آج بھی اسی خطبہ پر زور دیاجاتا ہے لیکن مسلمانوں نے جہاں اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑا وہی نبی کریم کے اصولوں کو بھی پاش پاش کر دیا ہے اسی وجہ سے آج مسلمان اغیار کے تلے چاٹنے پر مجبورہے اسلام ایک مکمل دین ہے اور قرآن پاک مکمل ضابطہ حےات ہے جب مسلمانوں نے ان پر عمل کیا وہ دنیا میں طاقتور رہے لیکن جب سے مسلمانوں نے دنیاوی دولت کو اپنا ہتھیار بنایا لیا اور اپنے قول و فعل میں تضاد پیداکیا اسی روز سے مسلمان پسپائی میں چلے گے اورآج سوا ارب سے زائد آبادی والے مسلمان اپنا لیڈر پیدا نہیں کرسکے جس سے مسلمان ممالک میں بدامنی ، بے چینی ، نااتفاقی ، دست وگربیان ، قتل وغارت ، زنا بالجبر ، سود خوری ، رشتوں کی پامالی ، خودکش دھماکے ، ڈرون حملے، نااتفاقی ، عدم برادشت، عدم تعاون ، ناانصافیاں ، ظلم و جبر، بربرےت، چغل خوری قوانین کی پامالی ہو رہی ہیں مسلمان امہ کے لیڈر وںکے کبھی دل نہیں روے اورآنکھ پُرنم نہیں ہوئی جبکہ نبی کریم کا فرمان مسلمان ایک جسم اور دوجان ہیں ایک حصے کو تکلیف ہو تو دوسرا تڑپ اٹھتا ہے لیکن آج مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن ہوئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے کبھی مسلم لیڈروں نے مسلمانوں کو یک جاں کرنے کی کوشش نہیں کی فرقوں میں مسلمانوں کو بٹ کر سب تماشائی بن گئے ہیں جب کہ سب ایک اللہ ، ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے والے ہیں پھرآپس میں تفریق کیوں؟ جب اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے جس میں بھائی چارہ ، اتفاق و محبت کا درس دےتا ہے اس وقت مسلمان گفتار کے تو غازی بن گئے ہیں لیکن کردار میں نمازی رہے اورنہ ہی غازی! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے ہمیشہ عالم اسلام پر زور دیا کہ عہد حاضر کے چیلنجوں اور مشکلات کا مقابلہ صرف اتحاد و یکجہتی پر قائم رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، ایمان پر چلیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، اسلام قتل و غارت اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، کرہ ارض پر فساد کے منصوبے بنانے اور معصوم انسانوں کو نقصان پہنچانے والوں کا دین سے کوئی تعلق نہیں، وہ انبیاءکی تعلیمات سے انحراف برت رہے ہیں، نوجوانوں کو بہکانا اور انہیں تشدد کی ترغیب دینا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو دنیا سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنے خطبہ حج کے دوران مفتی اعظم نے اس نکتے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی کہ نبی آخر الزمان کی لائی ہوئی شریعت میں انسان کے روحانی و مادی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ، اس کے رسولوں اور قضا و قدر پر بھی ایمان لانے کا حکم ہے، اللہ واحد اور صمد ہے، وہی عزت اور ذلت دینے والا ہے، تمام احکام دینے کا اختیار اسی کے پاس ہے، وہ اس کائنات کا خالق، اور تمام صفات کا مالک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ توحید کی یہ خصوصیات اور تفصیلات اللہ کی کتاب اور سنت رسول میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہیں،آپ جو نظام زندگی لائے اس پر زندگی گزارنے سے دنیا و آخرت کی کامیابیاں ملتی ہیں، آپ کی عطا کی ہوئی شریعت سے انسانوں کے درمیان عقیدہ الفت و محبت پیدا ہوتا ہے، تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے، اسلام صرف ایک نظریاتی دین نہیں بلکہ اس کی عملی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص فرض نمازوں کی پابندی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ نفلی عبادات کرتا ہے وہ اللہ کی محبت پا لیتا ہے، اس کی تفصیلات کتاب و سنت میں پوری تفصیل سے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے اپنی طرف سے دین میں تحریف کی یا اپنی طرف سے باتیں داخل کیں، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ تہجد نوافل اور عبادات کا اس عاجزی اور تواضع سے اہتمام فرماتے کہ ان کے قدم مبارک سوج جاتے، آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا شکر کیوں ادا نہ کروں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح اسلام کے زکوة کے نظام کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان تمام عبادات کا ہماری زندگیوں پر اثر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم ہے اور اپنی دولت کو حرام کاموں میں خرچ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو صاحب ثروت اور صاحب حال ہیں وہ ان لوگوں کا خیال رکھیں جو رزق کے معاملے میں پیچھے رہ گئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دوفریق آپس کے معاملہ کا خاتمہ کرنے کیلئے خوشدلی کا مظاہرہ کریں تو اللہ کی رحمتوں سے مالا مال ہوں گے، اسی طرح نکاح کا حکم ہے اور نکاح کے علاوہ خواہشات پوری کرنے کی سختی سے ممانعت ہے، اگر خاندانی نظام بکھر جاتا ہے اور اس کو ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے تو پوری امت بکھر جائے گی اس کو ٹھیک کرنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اولاد کی تربیت، شوہر اور بچوں کے حقوق سے متعلقہ تعلیمات بھی ہمارے دین نے ہمیں عطا کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بد اعمالیوں کی سزا ملے گی، اسلام کا نظام جزا و سزا کا ایک جامع نظام ہے اس سے معاشرے میں امن، نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اسلامی نظام معاشرت مجموعی طور پر نظام عدل پر مبنی ہے، امر بالمعروف نہی عن المنکر کو چھوڑنے سے بھی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے گا، اللہ رسول کی اطاعت امت کے افراد پر فرض ہے، اخلاق کا فروغ اور بہترین سلوک کو قائم کرنا شریعت کے مقاصد ہیں۔ ہمیں اپنے رویئے میں نرمی پیدا کرنے چاہئے اور خرید و فروخت میں سختی اختیار نہیں کرنی چاہیے ایسے لوگوں کیلئے اللہ کے نبی نے رحمت مانگی ہے، اسلام کے تصور رحمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمارے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوں اور ایک دوسرے کیلئے کینہ اور نفرت کے جذبات نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا اس کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم ہے چنانچہ اسلام کی روح کے مطابق روئے زمین پر امن قائم کیا جائے، امن ہو گا تو مساجد کی تعمیر ہو گی اور اللہ کی عبادت ہو گی، اہل ایمان کیلئے اللہ کا فرمان ہے کہ وہ زمین پر خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دیں۔ انہوں نے کہا کہ جو امت یا قوم شکر کو چھوڑ دیتی ہے اس کی مثال ایسی بستی کی ہے جس کو خوف اور بد امنی میں مبتلا کر دیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی رسالت تمام ادیان اور پیروکاروں کیلئے ہے۔
اس دین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر زمانے کیلئے اور آفاقی ہے، صدیوں سے انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری ہے، اللہ کی شریعت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، عبادات کا اثر ہماری زندگیوں پر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اسلام کے عادلانہ نظام پر عمل کیا جائے تو دنیا کے اندر ایسا نظام قائم ہو جائے گا جو بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کر دے گا بشرطیکہ اس کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے، اسلام نے صرف خوشحال لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ تمام طبقات کو حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام نے ہر طرح کے تعصبات اور فساد پھیلانے کی مذمت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام ہر طرح کی قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، اسلام امن اور ایمان کا نام ہے لہذا مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی روح کو سمجھے اور تمام تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرے، جب ہم ایمان پر چلیں گے تو کوئی بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اپنے ایمان کی اپنے عمل سے نفی کریں گے تو فلاح نہیں ہو گی، ایمان کے دعوﺅں کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کا خون بہاتے ہیں، ایمان کے دعوے کے ساتھ کمزوروں سے زیادتیاں کرتے ہیں، نوجوانوں کو فسادات کی طرف مائل کرتے اور اصل راستے سے ہٹاتے ہیں، فساد نوجوانوں کو بہکانے اور تشدد کی تعلیمات دینا دینی تعلیمات کے برعکس ہیں، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے نظام اخلاق کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنایا جائے، جو لوگ کرہ ارض پر فساد کے منصوبے بناتے ہیں اور معصوم انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ اپنے اپنے انبیاءکی تعلیمات سے انحراف برت رہے ہیں، ان کا تعلق دین سے نہیں ہے۔
انہوں نے امت کے تمام پیروکاروں اور دین پر چلنے والوں سے کہا کہ اپنی نجی و اجتماعی زندگیوں میں دینی تعلیمات پر کاربند رہیں اور ایک دوسرے سے اخوت و محبت سے پیش آئیں۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر کے چیلنجوں کو سمجھنا ہم سب کیلئے ضروری ہے، ان چیلنجز اور اس دور کی مشکلات کا مقابلہ صرف اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے، ہم سب کو ایک دوسرے سے جڑنے والا بننا چاہیے۔ مفتی اعظم نے کہا کہ ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف اکسایا جا رہا ہے، ایک جگہ رہنے والوں کو دوسری جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کو ہم صرف متحد ہو کر ہی روک سکتے ہیں، حجاج کثرت سے اللہ کا ذکر کریں جو لوگ اس میدان میں پہنچے ہیں، اللہ نے ان کیلئے آسانی پیدا کی ہے۔ انہوں نے حج کے بہترین انتظامات پر سعودی حکومت کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ حج کے بڑے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اسلام کے عقیدہ توحید کو سمجھیں، اللہ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم ؑ کیلئے اس مقام کو پسند کیا تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ان شعائر کی تعظیم ہونی
چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہمارا کلمہ سر بلند اور دشمنوں کے عزائم ناکام ہوں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دے جو قتل و غارت گری اور فساد ہمارے معاشروں میں پھیل چکا ہے اللہ اس کو ختم کرے، اللہ ہمیں ان کاموں کی طرف راغب کرے جن سے وہ خوش ہوتا ہے، اللہ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے۔ انہوں نے دعا کی اللہ ہمیں ایسی قیادت عطا فرمائے جو ہماری صحیح راہنمائی کر سکے۔
صحرانامہ
نبی آخری زماں حضرت محمد نے اپنے آخری خطبہ میں اسلام کو ایک مکمل دین قرار دیا اورفرمایا کہ اسلام اصولوں کی پاسدرای کروگے تو فلاح پاﺅ گے جب سے نبی کریم کا خطبہ حج ہوا ہے آج بھی اسی خطبہ پر زور دیاجاتا ہے لیکن مسلمانوں نے جہاں اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے منہ موڑا وہی نبی کریم کے اصولوں کو بھی پاش پاش کر دیا ہے اسی وجہ سے آج مسلمان اغیار کے تلے چاٹنے پر مجبورہے اسلام ایک مکمل دین ہے اور قرآن پاک مکمل ضابطہ حےات ہے جب مسلمانوں نے ان پر عمل کیا وہ دنیا میں طاقتور رہے لیکن جب سے مسلمانوں نے دنیاوی دولت کو اپنا ہتھیار بنایا لیا اور اپنے قول و فعل میں تضاد پیداکیا اسی روز سے مسلمان پسپائی میں چلے گے اورآج سوا ارب سے زائد آبادی والے مسلمان اپنا لیڈر پیدا نہیں کرسکے جس سے مسلمان ممالک میں بدامنی ، بے چینی ، نااتفاقی ، دست وگربیان ، قتل وغارت ، زنا بالجبر ، سود خوری ، رشتوں کی پامالی ، خودکش دھماکے ، ڈرون حملے، نااتفاقی ، عدم برادشت، عدم تعاون ، ناانصافیاں ، ظلم و جبر، بربرےت، چغل خوری قوانین کی پامالی ہو رہی ہیں مسلمان امہ کے لیڈر وںکے کبھی دل نہیں روے اورآنکھ پُرنم نہیں ہوئی جبکہ نبی کریم کا فرمان مسلمان ایک جسم اور دوجان ہیں ایک حصے کو تکلیف ہو تو دوسرا تڑپ اٹھتا ہے لیکن آج مسلمان ایک دوسرے کے جانی دشمن بن ہوئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے کبھی مسلم لیڈروں نے مسلمانوں کو یک جاں کرنے کی کوشش نہیں کی فرقوں میں مسلمانوں کو بٹ کر سب تماشائی بن گئے ہیں جب کہ سب ایک اللہ ، ایک رسول اور ایک قرآن کو ماننے والے ہیں پھرآپس میں تفریق کیوں؟ جب اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے جس میں بھائی چارہ ، اتفاق و محبت کا درس دےتا ہے اس وقت مسلمان گفتار کے تو غازی بن گئے ہیں لیکن کردار میں نمازی رہے اورنہ ہی غازی! سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز نے ہمیشہ عالم اسلام پر زور دیا کہ عہد حاضر کے چیلنجوں اور مشکلات کا مقابلہ صرف اتحاد و یکجہتی پر قائم رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، ایمان پر چلیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی، اسلام قتل و غارت اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، کرہ ارض پر فساد کے منصوبے بنانے اور معصوم انسانوں کو نقصان پہنچانے والوں کا دین سے کوئی تعلق نہیں، وہ انبیاءکی تعلیمات سے انحراف برت رہے ہیں، نوجوانوں کو بہکانا اور انہیں تشدد کی ترغیب دینا اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو دنیا سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنے خطبہ حج کے دوران مفتی اعظم نے اس نکتے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی کہ نبی آخر الزمان کی لائی ہوئی شریعت میں انسان کے روحانی و مادی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اللہ، اس کے رسولوں اور قضا و قدر پر بھی ایمان لانے کا حکم ہے، اللہ واحد اور صمد ہے، وہی عزت اور ذلت دینے والا ہے، تمام احکام دینے کا اختیار اسی کے پاس ہے، وہ اس کائنات کا خالق، اور تمام صفات کا مالک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ توحید کی یہ خصوصیات اور تفصیلات اللہ کی کتاب اور سنت رسول میں پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہیں،آپ جو نظام زندگی لائے اس پر زندگی گزارنے سے دنیا و آخرت کی کامیابیاں ملتی ہیں، آپ کی عطا کی ہوئی شریعت سے انسانوں کے درمیان عقیدہ الفت و محبت پیدا ہوتا ہے، تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے، اسلام صرف ایک نظریاتی دین نہیں بلکہ اس کی عملی اہمیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص فرض نمازوں کی پابندی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ نفلی عبادات کرتا ہے وہ اللہ کی محبت پا لیتا ہے، اس کی تفصیلات کتاب و سنت میں پوری تفصیل سے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی نے اپنی طرف سے دین میں تحریف کی یا اپنی طرف سے باتیں داخل کیں، رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ تہجد نوافل اور عبادات کا اس عاجزی اور تواضع سے اہتمام فرماتے کہ ان کے قدم مبارک سوج جاتے، آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا شکر کیوں ادا نہ کروں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح اسلام کے زکوة کے نظام کی بھی بڑی اہمیت ہے، ان تمام عبادات کا ہماری زندگیوں پر اثر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم ہے اور اپنی دولت کو حرام کاموں میں خرچ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو صاحب ثروت اور صاحب حال ہیں وہ ان لوگوں کا خیال رکھیں جو رزق کے معاملے میں پیچھے رہ گئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دوفریق آپس کے معاملہ کا خاتمہ کرنے کیلئے خوشدلی کا مظاہرہ کریں تو اللہ کی رحمتوں سے مالا مال ہوں گے، اسی طرح نکاح کا حکم ہے اور نکاح کے علاوہ خواہشات پوری کرنے کی سختی سے ممانعت ہے، اگر خاندانی نظام بکھر جاتا ہے اور اس کو ہم اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دیں گے تو پوری امت بکھر جائے گی اس کو ٹھیک کرنا مشکل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اولاد کی تربیت، شوہر اور بچوں کے حقوق سے متعلقہ تعلیمات بھی ہمارے دین نے ہمیں عطا کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بد اعمالیوں کی سزا ملے گی، اسلام کا نظام جزا و سزا کا ایک جامع نظام ہے اس سے معاشرے میں امن، نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اسلامی نظام معاشرت مجموعی طور پر نظام عدل پر مبنی ہے، امر بالمعروف نہی عن المنکر کو چھوڑنے سے بھی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے گا، اللہ رسول کی اطاعت امت کے افراد پر فرض ہے، اخلاق کا فروغ اور بہترین سلوک کو قائم کرنا شریعت کے مقاصد ہیں۔ ہمیں اپنے رویئے میں نرمی پیدا کرنے چاہئے اور خرید و فروخت میں سختی اختیار نہیں کرنی چاہیے ایسے لوگوں کیلئے اللہ کے نبی نے رحمت مانگی ہے، اسلام کے تصور رحمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہمارے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوں اور ایک دوسرے کیلئے کینہ اور نفرت کے جذبات نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا اس کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم ہے چنانچہ اسلام کی روح کے مطابق روئے زمین پر امن قائم کیا جائے، امن ہو گا تو مساجد کی تعمیر ہو گی اور اللہ کی عبادت ہو گی، اہل ایمان کیلئے اللہ کا فرمان ہے کہ وہ زمین پر خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دیں۔ انہوں نے کہا کہ جو امت یا قوم شکر کو چھوڑ دیتی ہے اس کی مثال ایسی بستی کی ہے جس کو خوف اور بد امنی میں مبتلا کر دیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی رسالت تمام ادیان اور پیروکاروں کیلئے ہے۔
اس دین کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر زمانے کیلئے اور آفاقی ہے، صدیوں سے انسانوں کی ہدایت کا سلسلہ جاری ہے، اللہ کی شریعت انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، عبادات کا اثر ہماری زندگیوں پر بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اسلام کے عادلانہ نظام پر عمل کیا جائے تو دنیا کے اندر ایسا نظام قائم ہو جائے گا جو بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کر دے گا بشرطیکہ اس کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے، اسلام نے صرف خوشحال لوگوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ تمام طبقات کو حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام نے ہر طرح کے تعصبات اور فساد پھیلانے کی مذمت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانی حقوق کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام ہر طرح کی قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، اسلام امن اور ایمان کا نام ہے لہذا مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی روح کو سمجھے اور تمام تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرے، جب ہم ایمان پر چلیں گے تو کوئی بھی ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، اپنے ایمان کی اپنے عمل سے نفی کریں گے تو فلاح نہیں ہو گی، ایمان کے دعوﺅں کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کا خون بہاتے ہیں، ایمان کے دعوے کے ساتھ کمزوروں سے زیادتیاں کرتے ہیں، نوجوانوں کو فسادات کی طرف مائل کرتے اور اصل راستے سے ہٹاتے ہیں، فساد نوجوانوں کو بہکانے اور تشدد کی تعلیمات دینا دینی تعلیمات کے برعکس ہیں، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے نظام اخلاق کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنایا جائے، جو لوگ کرہ ارض پر فساد کے منصوبے بناتے ہیں اور معصوم انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ اپنے اپنے انبیاءکی تعلیمات سے انحراف برت رہے ہیں، ان کا تعلق دین سے نہیں ہے۔
انہوں نے امت کے تمام پیروکاروں اور دین پر چلنے والوں سے کہا کہ اپنی نجی و اجتماعی زندگیوں میں دینی تعلیمات پر کاربند رہیں اور ایک دوسرے سے اخوت و محبت سے پیش آئیں۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر کے چیلنجوں کو سمجھنا ہم سب کیلئے ضروری ہے، ان چیلنجز اور اس دور کی مشکلات کا مقابلہ صرف اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے، ہم سب کو ایک دوسرے سے جڑنے والا بننا چاہیے۔ مفتی اعظم نے کہا کہ ایک ملک کو دوسرے ملک کے خلاف اکسایا جا رہا ہے، ایک جگہ رہنے والوں کو دوسری جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کو ہم صرف متحد ہو کر ہی روک سکتے ہیں، حجاج کثرت سے اللہ کا ذکر کریں جو لوگ اس میدان میں پہنچے ہیں، اللہ نے ان کیلئے آسانی پیدا کی ہے۔ انہوں نے حج کے بہترین انتظامات پر سعودی حکومت کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ حج کے بڑے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اسلام کے عقیدہ توحید کو سمجھیں، اللہ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم ؑ کیلئے اس مقام کو پسند کیا تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ان شعائر کی تعظیم ہونی
چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہمارا کلمہ سر بلند اور دشمنوں کے عزائم ناکام ہوں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دے جو قتل و غارت گری اور فساد ہمارے معاشروں میں پھیل چکا ہے اللہ اس کو ختم کرے، اللہ ہمیں ان کاموں کی طرف راغب کرے جن سے وہ خوش ہوتا ہے، اللہ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچائے۔ انہوں نے دعا کی اللہ ہمیں ایسی قیادت عطا فرمائے جو ہماری صحیح راہنمائی کر سکے۔