نوازشریف کا زین بگتی کی گرفتاری پر افسوس اور اظہار تشویش حکومت محب وطن بلوچوں کو دشمن کی صفوں میں نہ دھکیلے
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کو فون کرکے شاہ زین بگتی کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف نے دونوں رہنمائوں سے کہا کہ جمہوری وطن پارٹی کے رہنماء شاہ زین بگتی کی گرفتاری اور ان پر قائم ہونیوالے مقدمے سے بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی بڑھے گا۔ اکبر بگتی کے قتل کے بعد بلوچ عوام کے زخم ابھی تک بھرے نہیں‘ ان حالات میں ایسی کارروائی افسوسناک ہے۔ شاہ زین سے برآمد ہونیوالے اسلحہ سے متعلق واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ ذرائع کیمطابق نواز شریف نے شاہ زین کی گرفتاری کو مفاہمت کیخلاف سازش قرار دیتے ہوئے انکی رہائی کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے جواباً کہا کہ حکومت بلوچستان کے حالات کی حساسیت سے آگاہ ہے‘ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائیگا‘ کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بننے دینگے۔
آج بلوچستان واقعتاً جل رہا ہے‘ امن و امان کی صورتحال مخدوش‘ علیحدگی پسندوں کی اجارہ داری‘ حکومتی رٹ صرف شہروں تک محدود‘ ٹارگٹ کلنگ جاری‘ تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ پڑھا جا سکتا ہے‘ نہ پرچم لہرانے کی اجازت ہے۔ بلوچستان کو آگ کا الائو بنانے میں افغانستان میں موجود بھارت کے 14 قونصل خانے سرگرم ہیں جو علیحدگی پسندوں کو تربیت‘ ان کو اسلحہ اور روپیہ پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کے حالات میں تو صوبے کے اندر تمام طبقات کے مابین اتحاد‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ حکومت کیخلاف اسلحہ اٹھانے والوں کو راہ راست پر لانے کی تدبیر ہونی چاہیے‘ جو بھی بن پڑے‘ ریاست کے دشمنوں میں کمی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومتی اقدامات اور عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں سے اپنے دشمنوںمیں اضافہ کئے جا رہی ہے۔
بلوچستان کے بگاڑ میں بیوروکریسی کا ہاتھ تھا اور بدستور ہے‘ بعض اوقات تو حکمران بلوچستان کے حوالے سے ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کے مہرے نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد بلوچستان کے معاملات کو دانشمندی کے بجائے طاقت سے طے کرنے کی کوشش کی گئی‘ جس سے نفرت کے جذبات نے جنم لیا۔ سردار نوروز مینگل حکومت کیخلاف بغاوت کرکے پہاڑوں پر چلے گئے تو حکومت نے جھالاوان قبیلے کے سردار دودا خان سے رابطہ کرکے نوروز خان کو پہاڑوں سے نیچے لانے کی کوشش کی‘ دودا خان نے حکومت کی طرف سے ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر ان کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا یقین دلایا۔ وہ پہاڑوں سے اترے تو حکومت نے گرفتار کرکے نوروز کو انکے بیٹے اور ساتھیوں سمیت پھانسی لگادی۔ اس اقدام سے جہاں بلوچوں کے اندر نفرت کا لاوا ابلنے لگا‘ وہیں ان کا حکومتی وعدوں سے اعتبار بھی اٹھ گیا۔ بدقسمتی سے کسی بھی دور میں حکومت کی طرف سے اصلاح کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر آنیوالی حکومت کو بیورو کریسی نے گمراہ کرکے صوبے میں لگی آگ کو پٹرول چھڑک کر بجھانے کا مشورہ دیا‘ جس کا فائدہ بھارت جیسے عیار اور مکار دشمن نے اٹھایا۔
بلوچستان کی سیاست سرداری نظام کے گرد گھومتی ہے‘ معروضی حالات کو نظرانداز کرکے حالات پر قابو پانا ناممکن ہے۔ اگر بلوچ کے دل میں غبار ہے تو ہاتھ میں ہتھیار ہے‘ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام بلوچوں کی فطرت ہرگز نہیں‘ انکی قدم قدم پر دشمنیاں ہیں‘ بغیر ہتھیاروں کے چلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ہر حکمت عملی سازگار حالات کی مرہون منت ہوتی ہے‘ جب تک لوگوں میں تعلیم عام نہ ہو‘ اجتماعی شعور بیدار نہ ہو‘ اس وقت تک منفی اثرات کو زائل نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری حکومتوں نے بلوچستان سمیت پورے ملک میں تعلیم اور اجتماعی شعور اجاگر کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
اکبر بگتی کو مشرف کے حکم پر قتل کیا گیا تو بلوچستان میں حکومت کیخلاف نفرت میں اضافہ تو ہوا لیکن بحیثیت قبیلہ بگتیوں نے بغاوت کی‘ نہ پاکستان کیخلاف کوئی بات۔ وہ اپنی دانست میں جن کو قاتل سمجھتے ہیں‘ ان کو عدالتی کٹہرے میں لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ شاہ زین بگتی کو جس تضحیک آمیز طریقے سے گرفتار کرکے اس پر اسلحہ ڈالا گیا ہے‘ وہ عقل و دانش سے عاری حکمت عملی محسوس ہوتی ہے۔ پھر ایک سیکورٹی اہلکار کی طرف سے شاہ زین کی گردن پر رکھے گئے ہاتھ سے ہر محب وطن کو پریشان کن پیغام ملا۔ اس گرفتاری کے بعد وزیر داخلہ حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیکر خود صدر زرداری کے ساتھ ترکی کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وزیراعظم گیلانی کا کہنا ہے کہ انکے وطن واپس آنے پر وہ قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا سیر سپاٹے پر نکل جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت شاہ زین کی گرفتاری کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ نواز شریف کی تشویش بجا ہے‘ نجانے حکومت کی کیا مجبوری ہے اور کونسا دبائو ہے کہ وہ اس ملکی سلامتی و سالمیت سے براہ راست وابستہ معاملے پر آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں کچھ دشمنوں اور کچھ اپنوں کی لگائی ہوئی آگ پر اتحاد و یگانگت کے ساتھ قابو پایا جائے‘ اسکے برعکس پالیسی ساز اپنی مردہ سوچ کے مطابق دانستہ یا نادانستہ ان لوگوں کو بھی دشمن کی صفوں میں کھڑا کر رہے ہیں‘ جو پاکستان کی بات کرتے ہیں‘ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد بلوچوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان کیا‘ گزشتہ حکمرانوں کی زیادتیوں پر معافی مانگی لیکن بات مذاکرات اور کمیٹیوں کی تشکیل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ صدر زرداری صاحب ترکی سے وطن واپس پہنچ چکے ہیں‘ پہلی فرصت میں کوئٹہ جائیں‘ بلوچ ہی‘بلوچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کے ازالے کیلئے فوری اقدامات کریں۔
شاہ زین پر گرفتاری کے بعد جو دفعات لگائی گئی ہیں‘ ان میں سے متعدد کی سزا موت ہے‘ یہ انتہائی اقدام ہے۔ انکے ورثاء کی طرف سے رحمان ملک کے تشکیل کردہ کمشن کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل انکوائری ہو۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے‘ جن ایجنسیوں نے ان کو گرفتار اور سرِراہ رسوا کیا‘ انکی طرف سے غیرجانبدارانہ انکوائری کی توقع عبث ہے۔ جوڈیشل انکوائری سے حقائق سامنے آجائیں گے تاہم معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر ہی بلوچستان کے سلگتے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ اس کا ادراک قومی و صوبائی حکومت اور وہاں موجود اداروں کو بھی ہونا چاہیے۔
چیک پوسٹوں پر حملے اور
باجوڑ میںخودکش دھماکے
مہمند ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی پانچ چیک پوسٹوں پر شدت پسندوں کے حملہ میں 11 سیکورٹی اہلکار جوابی کارروائی میں 24 شدت پسند جاں بحق ہوگئے اور 10 زخمی ہو گئے جبکہ باجوڑ ایجنسی میں خودکش دھماکے میں 43 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہو گئے۔
امریکی مفادات کی جنگ نے جہاں ہمیں معاشی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہیںہماری دفاعی قوت کو بھی اپنوں کے ساتھ ہی لڑا کر کمزور کر رہا ہے‘ قوم کو بتایا جائے کہ سوات سے لے کر مہمند ایجنسی تک امریکی مفادات کی جنگ میں کتنے جنازے اٹھائے جا چکے ہیں؟ غیروں کی جنگ میں کتنے بچوں کے سروں سے شفقت پدری کا سایہ چھینا گیا‘ کتنی خواتین کے سہاگ اجڑے؟ اب تک کیا کھویا کیا پایا‘ لیکن ان تمام سوالوں سے نظریں چرا کر حکومت امریکی ڈومور کے تقاضے کو پورا کر رہی ہے۔ طالبان بھی مسلمان فوج بھی اسلامی آخر کس غلط فہمی کے تحت زور آزمائی ہو رہی ہے؟ امریکہ اگر افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم امن قائم کرنے کیلئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟ فریقین سمجھ داری سے کام لیں اور کلمے کے نام پر معرض وجود میں آئی اسلامی ریاست کو انتشار اور بدامنی کی آماجگاہ مت بنائیں۔ ہم 45 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرکے فقیروں کی طرح دردر پر جھولی پھیلا رہے ہیں۔ خودکش حملوں اور دھماکوں کے باعث معاشی حالات ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں جس کے باعث خودکشیوں میں اضافے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ فوڈ سنٹر میں راشن تقسیم کرنے کے موقع پر خاتون کے خودکش دھماکے نے بھی کئی سوال جنم دیئے ہیں‘ کیا حکومت اب ڈرون حملوں پر پابندی لگانے کا سنجیدہ مطالبہ کریگی؟ حالات گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں‘ حکومت ہوش کے ناخن لے‘ ملک کو بارود کا ڈھیر بننے سے بچانے کی واضح حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ حملہ کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کیلئے کوئی اور محاذ کافی نہیں‘ اپنے ملک کی دفاعی قوت کو کمزور مت کریں۔ حکومت بھی امریکی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرے‘ اپنی عوام اور فوج کو پرائی جنگ کا ایندھن نہ بنائے۔
بھارتی حکومت اپنے ہی مذاکرات
کاروں کی رائے کا احترام کرے
بھارت کی طرف سے نامزد مذاکرات کاروں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کا کردار اہم ہے‘ ریاستی سرکار کو جوابدہ بننا ہو گا‘ مسئلہ کے سیاسی حل کے تلاش کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف علی گیلانی اور ارون دھتی کیخلاف بغاوت کے الزام میں یو پی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا۔
63 سال سے ہندو بنیئے کے مقبوضہ وادی پر غاصبانہ قبضے کے جواب میں کشمیریوں کی پرامن آزادی کی کوششیں بھارت کو باور کروا چکی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل ضرور تلاش کرنا ہو گا۔ اب تو بھارت کی طرف سے نامزد مذاکرات کاروں نے بھی ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کا کردار کلیدی ہو گا‘ اس لئے پاکستان کو نظرانداز کرنا بھارت کی بہت بڑی حماقت ہو گی۔
پاکستان کا ایک ہی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں موجود قراردادوں کیمطابق حل کیا جائے اور وہاں پر جاری ظلم و ستم فی الفور بند کیا جائے۔ اس وقت حریت رہنمائوں کی جانب سے شروع کی گئی ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی ہے اور بھارت کے عوام بھی کشمیر کو باقاعدہ متنازعہ علاقہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔
چند روز قبل بھارت کی سماج وادی پارٹی کے رہنماء اعظم خان نے بھی جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے بھی یا نہیں‘ اس سے پہلے معروف بھارتی دانشور ارون دھتی نے بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا تھا‘ جس پر اسکے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اب بھی علی گیلانی اور ارون دھتی کیخلاف یو پی میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے‘ کیا ایسے مقدموں سے کسی کے ضمیر کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے؟ لالہ جی! اب پانی سر سے گزر رہا ہے‘ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر کشمیریوں کو خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں‘ گھر کی گواہی کے بعد یہ فیصلہ درست ہو گا۔
کیا پیادے کے ذریعے
بی بی کے قاتل پکڑے جائینگے؟
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سعود عزیز کی گرفتاری پیادے کی مانند ہے‘ بینظیر قتل کیس میں پرویز مشرف سے بطور ملزم تفتیش کی جانی چاہیے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے ملک واقعی ایک عظیم سیاسی رہنماء سے محروم ہو گیا لیکن گزشتہ تین سال کے عرصہ کے دوران شوہر نامدار قاتلوں کو جاننے کے باوجود کٹہرے میں نہیں لا سکے۔ اعتزار احسن نے سعود عزیز کی گرفتاری کو پیادے کی مانند قرار دیا ہے جبکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے برملا پرویز مشرف کو بینظیر کا قاتل کہا ہے۔ اگر پارٹی رہنمائوں کے مطابق مشرف واقعی قاتل ہے تو اس کو سلیوٹ کرکے باہر کیوں بھیجا؟ کیسی جماعت ہے جس نے اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی قائد کے قاتل کو پکڑنا ضروری نہیں سمجھا۔
پرویز مشرف پر لال مسجد جامعہ حفصہ‘ اکبر بگتی سمیت سینکڑوں لوگوں کے قتل کا الزام ہے‘ اس کو واپس لایا جائے اور مقدمات کا سامنا کرایا جائے۔ محترمہ کا قتل اگر ثابت ہو جائے تو پھر بے شک محترمہ کے لواحقین اس کو معاف کرنا چاہیں تو انکی مرضی ہے‘ لیکن ایک دفعہ انصاف کے کٹہرے میں تو ضرور لایا جائے یا پھر صدر آصف علی زرداری قوم کے سامنے اعلان کریں کہ فلاں فلاں قاتل ہے‘ جس کا وہ پہلے محترمہ کی برسی پر اقرار کر چکے ہیں کہ میں قاتلوں کو پہچانتا ہوں تاکہ پارٹی اور محترمہ کے محبین جس تذبذب کا شکار ہیں‘ اس سے نکل پائیں اور اس مقدمہ میں شک کی بناء پر پکڑے گئے لوگ خلاصی پا سکیں۔
آج بلوچستان واقعتاً جل رہا ہے‘ امن و امان کی صورتحال مخدوش‘ علیحدگی پسندوں کی اجارہ داری‘ حکومتی رٹ صرف شہروں تک محدود‘ ٹارگٹ کلنگ جاری‘ تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ پڑھا جا سکتا ہے‘ نہ پرچم لہرانے کی اجازت ہے۔ بلوچستان کو آگ کا الائو بنانے میں افغانستان میں موجود بھارت کے 14 قونصل خانے سرگرم ہیں جو علیحدگی پسندوں کو تربیت‘ ان کو اسلحہ اور روپیہ پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کے حالات میں تو صوبے کے اندر تمام طبقات کے مابین اتحاد‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ حکومت کیخلاف اسلحہ اٹھانے والوں کو راہ راست پر لانے کی تدبیر ہونی چاہیے‘ جو بھی بن پڑے‘ ریاست کے دشمنوں میں کمی ہونی چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومتی اقدامات اور عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں سے اپنے دشمنوںمیں اضافہ کئے جا رہی ہے۔
بلوچستان کے بگاڑ میں بیوروکریسی کا ہاتھ تھا اور بدستور ہے‘ بعض اوقات تو حکمران بلوچستان کے حوالے سے ملٹری اور سول اسٹیبلشمنٹ کے مہرے نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد بلوچستان کے معاملات کو دانشمندی کے بجائے طاقت سے طے کرنے کی کوشش کی گئی‘ جس سے نفرت کے جذبات نے جنم لیا۔ سردار نوروز مینگل حکومت کیخلاف بغاوت کرکے پہاڑوں پر چلے گئے تو حکومت نے جھالاوان قبیلے کے سردار دودا خان سے رابطہ کرکے نوروز خان کو پہاڑوں سے نیچے لانے کی کوشش کی‘ دودا خان نے حکومت کی طرف سے ہاتھوں میں قرآن اٹھا کر ان کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کا یقین دلایا۔ وہ پہاڑوں سے اترے تو حکومت نے گرفتار کرکے نوروز کو انکے بیٹے اور ساتھیوں سمیت پھانسی لگادی۔ اس اقدام سے جہاں بلوچوں کے اندر نفرت کا لاوا ابلنے لگا‘ وہیں ان کا حکومتی وعدوں سے اعتبار بھی اٹھ گیا۔ بدقسمتی سے کسی بھی دور میں حکومت کی طرف سے اصلاح کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر آنیوالی حکومت کو بیورو کریسی نے گمراہ کرکے صوبے میں لگی آگ کو پٹرول چھڑک کر بجھانے کا مشورہ دیا‘ جس کا فائدہ بھارت جیسے عیار اور مکار دشمن نے اٹھایا۔
بلوچستان کی سیاست سرداری نظام کے گرد گھومتی ہے‘ معروضی حالات کو نظرانداز کرکے حالات پر قابو پانا ناممکن ہے۔ اگر بلوچ کے دل میں غبار ہے تو ہاتھ میں ہتھیار ہے‘ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام بلوچوں کی فطرت ہرگز نہیں‘ انکی قدم قدم پر دشمنیاں ہیں‘ بغیر ہتھیاروں کے چلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ہر حکمت عملی سازگار حالات کی مرہون منت ہوتی ہے‘ جب تک لوگوں میں تعلیم عام نہ ہو‘ اجتماعی شعور بیدار نہ ہو‘ اس وقت تک منفی اثرات کو زائل نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری حکومتوں نے بلوچستان سمیت پورے ملک میں تعلیم اور اجتماعی شعور اجاگر کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ بدقسمتی سے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
اکبر بگتی کو مشرف کے حکم پر قتل کیا گیا تو بلوچستان میں حکومت کیخلاف نفرت میں اضافہ تو ہوا لیکن بحیثیت قبیلہ بگتیوں نے بغاوت کی‘ نہ پاکستان کیخلاف کوئی بات۔ وہ اپنی دانست میں جن کو قاتل سمجھتے ہیں‘ ان کو عدالتی کٹہرے میں لانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ شاہ زین بگتی کو جس تضحیک آمیز طریقے سے گرفتار کرکے اس پر اسلحہ ڈالا گیا ہے‘ وہ عقل و دانش سے عاری حکمت عملی محسوس ہوتی ہے۔ پھر ایک سیکورٹی اہلکار کی طرف سے شاہ زین کی گردن پر رکھے گئے ہاتھ سے ہر محب وطن کو پریشان کن پیغام ملا۔ اس گرفتاری کے بعد وزیر داخلہ حساس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیکر خود صدر زرداری کے ساتھ ترکی کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وزیراعظم گیلانی کا کہنا ہے کہ انکے وطن واپس آنے پر وہ قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا سیر سپاٹے پر نکل جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت شاہ زین کی گرفتاری کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ نواز شریف کی تشویش بجا ہے‘ نجانے حکومت کی کیا مجبوری ہے اور کونسا دبائو ہے کہ وہ اس ملکی سلامتی و سالمیت سے براہ راست وابستہ معاملے پر آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں کچھ دشمنوں اور کچھ اپنوں کی لگائی ہوئی آگ پر اتحاد و یگانگت کے ساتھ قابو پایا جائے‘ اسکے برعکس پالیسی ساز اپنی مردہ سوچ کے مطابق دانستہ یا نادانستہ ان لوگوں کو بھی دشمن کی صفوں میں کھڑا کر رہے ہیں‘ جو پاکستان کی بات کرتے ہیں‘ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد بلوچوں کے تحفظات دور کرنے کا اعلان کیا‘ گزشتہ حکمرانوں کی زیادتیوں پر معافی مانگی لیکن بات مذاکرات اور کمیٹیوں کی تشکیل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ صدر زرداری صاحب ترکی سے وطن واپس پہنچ چکے ہیں‘ پہلی فرصت میں کوئٹہ جائیں‘ بلوچ ہی‘بلوچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کے ازالے کیلئے فوری اقدامات کریں۔
شاہ زین پر گرفتاری کے بعد جو دفعات لگائی گئی ہیں‘ ان میں سے متعدد کی سزا موت ہے‘ یہ انتہائی اقدام ہے۔ انکے ورثاء کی طرف سے رحمان ملک کے تشکیل کردہ کمشن کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل انکوائری ہو۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے‘ جن ایجنسیوں نے ان کو گرفتار اور سرِراہ رسوا کیا‘ انکی طرف سے غیرجانبدارانہ انکوائری کی توقع عبث ہے۔ جوڈیشل انکوائری سے حقائق سامنے آجائیں گے تاہم معروضی حالات کو پیش نظر رکھ کر ہی بلوچستان کے سلگتے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ اس کا ادراک قومی و صوبائی حکومت اور وہاں موجود اداروں کو بھی ہونا چاہیے۔
چیک پوسٹوں پر حملے اور
باجوڑ میںخودکش دھماکے
مہمند ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی پانچ چیک پوسٹوں پر شدت پسندوں کے حملہ میں 11 سیکورٹی اہلکار جوابی کارروائی میں 24 شدت پسند جاں بحق ہوگئے اور 10 زخمی ہو گئے جبکہ باجوڑ ایجنسی میں خودکش دھماکے میں 43 افراد جاں بحق اور 72 زخمی ہو گئے۔
امریکی مفادات کی جنگ نے جہاں ہمیں معاشی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے‘ وہیںہماری دفاعی قوت کو بھی اپنوں کے ساتھ ہی لڑا کر کمزور کر رہا ہے‘ قوم کو بتایا جائے کہ سوات سے لے کر مہمند ایجنسی تک امریکی مفادات کی جنگ میں کتنے جنازے اٹھائے جا چکے ہیں؟ غیروں کی جنگ میں کتنے بچوں کے سروں سے شفقت پدری کا سایہ چھینا گیا‘ کتنی خواتین کے سہاگ اجڑے؟ اب تک کیا کھویا کیا پایا‘ لیکن ان تمام سوالوں سے نظریں چرا کر حکومت امریکی ڈومور کے تقاضے کو پورا کر رہی ہے۔ طالبان بھی مسلمان فوج بھی اسلامی آخر کس غلط فہمی کے تحت زور آزمائی ہو رہی ہے؟ امریکہ اگر افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم امن قائم کرنے کیلئے ایسا کیوں نہیں کرتے؟ فریقین سمجھ داری سے کام لیں اور کلمے کے نام پر معرض وجود میں آئی اسلامی ریاست کو انتشار اور بدامنی کی آماجگاہ مت بنائیں۔ ہم 45 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرکے فقیروں کی طرح دردر پر جھولی پھیلا رہے ہیں۔ خودکش حملوں اور دھماکوں کے باعث معاشی حالات ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں جس کے باعث خودکشیوں میں اضافے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ورلڈ فوڈ سنٹر میں راشن تقسیم کرنے کے موقع پر خاتون کے خودکش دھماکے نے بھی کئی سوال جنم دیئے ہیں‘ کیا حکومت اب ڈرون حملوں پر پابندی لگانے کا سنجیدہ مطالبہ کریگی؟ حالات گھمبیر صورت اختیار کر چکے ہیں‘ حکومت ہوش کے ناخن لے‘ ملک کو بارود کا ڈھیر بننے سے بچانے کی واضح حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ حملہ کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کیلئے کوئی اور محاذ کافی نہیں‘ اپنے ملک کی دفاعی قوت کو کمزور مت کریں۔ حکومت بھی امریکی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرے‘ اپنی عوام اور فوج کو پرائی جنگ کا ایندھن نہ بنائے۔
بھارتی حکومت اپنے ہی مذاکرات
کاروں کی رائے کا احترام کرے
بھارت کی طرف سے نامزد مذاکرات کاروں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کا کردار اہم ہے‘ ریاستی سرکار کو جوابدہ بننا ہو گا‘ مسئلہ کے سیاسی حل کے تلاش کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف علی گیلانی اور ارون دھتی کیخلاف بغاوت کے الزام میں یو پی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا۔
63 سال سے ہندو بنیئے کے مقبوضہ وادی پر غاصبانہ قبضے کے جواب میں کشمیریوں کی پرامن آزادی کی کوششیں بھارت کو باور کروا چکی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل ضرور تلاش کرنا ہو گا۔ اب تو بھارت کی طرف سے نامزد مذاکرات کاروں نے بھی ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں پاکستان کا کردار کلیدی ہو گا‘ اس لئے پاکستان کو نظرانداز کرنا بھارت کی بہت بڑی حماقت ہو گی۔
پاکستان کا ایک ہی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں موجود قراردادوں کیمطابق حل کیا جائے اور وہاں پر جاری ظلم و ستم فی الفور بند کیا جائے۔ اس وقت حریت رہنمائوں کی جانب سے شروع کی گئی ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی ہے اور بھارت کے عوام بھی کشمیر کو باقاعدہ متنازعہ علاقہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔
چند روز قبل بھارت کی سماج وادی پارٹی کے رہنماء اعظم خان نے بھی جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے بھی یا نہیں‘ اس سے پہلے معروف بھارتی دانشور ارون دھتی نے بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دیا تھا‘ جس پر اسکے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ اب بھی علی گیلانی اور ارون دھتی کیخلاف یو پی میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے‘ کیا ایسے مقدموں سے کسی کے ضمیر کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے؟ لالہ جی! اب پانی سر سے گزر رہا ہے‘ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر کشمیریوں کو خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں‘ گھر کی گواہی کے بعد یہ فیصلہ درست ہو گا۔
کیا پیادے کے ذریعے
بی بی کے قاتل پکڑے جائینگے؟
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماء اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سعود عزیز کی گرفتاری پیادے کی مانند ہے‘ بینظیر قتل کیس میں پرویز مشرف سے بطور ملزم تفتیش کی جانی چاہیے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سے ملک واقعی ایک عظیم سیاسی رہنماء سے محروم ہو گیا لیکن گزشتہ تین سال کے عرصہ کے دوران شوہر نامدار قاتلوں کو جاننے کے باوجود کٹہرے میں نہیں لا سکے۔ اعتزار احسن نے سعود عزیز کی گرفتاری کو پیادے کی مانند قرار دیا ہے جبکہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر نے برملا پرویز مشرف کو بینظیر کا قاتل کہا ہے۔ اگر پارٹی رہنمائوں کے مطابق مشرف واقعی قاتل ہے تو اس کو سلیوٹ کرکے باہر کیوں بھیجا؟ کیسی جماعت ہے جس نے اقتدار میں ہونے کے باوجود اپنی قائد کے قاتل کو پکڑنا ضروری نہیں سمجھا۔
پرویز مشرف پر لال مسجد جامعہ حفصہ‘ اکبر بگتی سمیت سینکڑوں لوگوں کے قتل کا الزام ہے‘ اس کو واپس لایا جائے اور مقدمات کا سامنا کرایا جائے۔ محترمہ کا قتل اگر ثابت ہو جائے تو پھر بے شک محترمہ کے لواحقین اس کو معاف کرنا چاہیں تو انکی مرضی ہے‘ لیکن ایک دفعہ انصاف کے کٹہرے میں تو ضرور لایا جائے یا پھر صدر آصف علی زرداری قوم کے سامنے اعلان کریں کہ فلاں فلاں قاتل ہے‘ جس کا وہ پہلے محترمہ کی برسی پر اقرار کر چکے ہیں کہ میں قاتلوں کو پہچانتا ہوں تاکہ پارٹی اور محترمہ کے محبین جس تذبذب کا شکار ہیں‘ اس سے نکل پائیں اور اس مقدمہ میں شک کی بناء پر پکڑے گئے لوگ خلاصی پا سکیں۔