ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
وزیراعظم مخدوم گیلانی کو کیا ہو گیا ہے ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں وہ کسی کے ساتھ نہیں، ان دنوں ان کی سرگرمیاں ایسی ہیں کہ وہ شاید اپنے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے خواہ مخواہ جنرل کیانی کے بارے میں بات چھیڑی ہے۔ پہلے انہی کے لئے کہتے تھے کہ وہ جنرل کیانی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے خود کہا کہ جنرل کیانی، جنرل مشرف کا ساتھ بھی دے سکتے تھے مگر انہوں نے جمہوریت کا ساتھ دیا پھر یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کو میں نے بحال کیا۔ جنرل کیانی کا اس میں کوئی کردار نہیں یہ بھی انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کرنا ہو گا۔ یہ کارنامہ کون کرے گا، پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل کیانی کے لئے لوگوں کی محبت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاک فوج میں یہ خوف تھا کہ وہ عوامی جگہوں پر باوردی نہیں جاتے تھے، اپنے ادارے کو اعتبار اور پیار جنرل کیانی نے دیا۔ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ جنرل مشرف نے پاک فوج کو بدنام اور ناکام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر فوج میں اتنا ڈسپلن ہے کہ جنرل مشرف سے نفرت کے باوجود کہیں بھی ان کے لئے باغیانہ خیالات پیدا نہ ہوتے تھے۔ وہ خود چلے گئے اب اگر یہ خیال کسی کے دل میں ہے کہ وہ آرمی چیف کو وقت سے پہلے ریٹائر کر دیں گے تو وہ احمقوں کی سیاسی جنت میں رہتا ہے۔ اس طرح وہ طوفان اٹھے گا کہ سب کچھ خس و خاشاک میں مل جائے گا۔ بقول مخدوم گیلانی اداروں میں تصادم ہوا تو کچھ نہیں بچے گا۔ اسی انجام سے بچنے کے لئے نوازشریف نے یہ مشورہ دیا تھا کہ مجھ سے سبق سیکھو۔ ان سے میرا بڑی محبت کا سوال ہے کہ کیا انہوں نے خود اپنے آغاز اور انجام سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ وہ ملک وقوم کو بحران میں چھوڑ کر لندن چلے گئے وہاں کس کس کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، اور پھر اچانک شیڈول سے ہٹ کر واپس کیوں تشریف لے آئے ہیں اور اب ان کے ارادے کیا ہیں، ہمیشہ جرنیلوں کے لئے کہاجاتا ہے کہ وہ طالع آزمائی کرتے ہیں، سیاستدانوں کو بھی زور آزمائی سے گریز کرنا چاہیے۔ صدر زرداری جذباتی نہیں ہوئے نہ کوئی جلد بازی کی مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ کیا مخدوم گیلانی صدر زرداری کے لئے آسانی پیدا کر سکے ہیں وہ کسی کے لئے منفی یا مثبت تاثر پیدا کرنے کا نہ حوصلہ رکھتے ہیں نہ صلاحیت رکھتے ہیں وہ جو بیان جنرل کیانی کے لئے دے رہے ہیں تو مجھے ابھی معلوم نہیں کہ تار کس طرف سے ہلائی جا رہی ہے اور ان کا اصل مقصد کیا ہے۔ وہ صدر زرداری کے لئے کوئی پریشانی پیدا کرنا چاہتے ہیں یا جنرل کیانی کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کے تقرر کا اختیار ان کے پاس ابھی نہیں آیا ہے۔ صدر زرداری نے ابھی زبانی کلامی بات کی ہے۔ صدر زرداری مخدوم گیلانی سے کہیں بڑے کھلاڑی ہیں۔ وہ سیاستدان بھی ان سے زیادہ ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ کے این آر او کے بارے میں فیصلے کے بعد یوٹرن لیا ہے جبکہ یہ فیصلہ بظاہر پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں۔ صدر زرداری کو تو استثنیٰ حاصل ہے لوگوں کوخواہ مخواہ شک گزرتا ہے، نوازشریف بھی اعتزاز پر زیادہ اعتبار نہ کریں مخدوم گیلانی اور اعتزاز دونوں ایک جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں اس محفل میں موجود تھا جب مخدوم گیلانی نے زرداری صاحب کے لئے کہا تھا وہ بھی محفل میں موجود تھے اور ابھی صدر نہیں بنے تھے ” آصف زرداری خود بھی وزیراعظم بن سکتے تھے مگر انہوں نے مجھے وزیراعظم بنایا“ ان کے صدر بنتے ہی وزیراعظم کے یہ خیالات بدل گئے مگر کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ صدر زرداری جس وقت چاہیں وزیراعظم بن سکتے ہیں یہ خیال 17 ویں ترمیم ختم کرانے کے لئے زور دینے والے نوازشریف کے لئے بھی ہے۔ شہبازشریف بھی امیدوار ہیں تو ان کے لئے بھی اندر سے مخدوم گیلانی کوئی اور خیال رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جنرل کیانی صدر مشرف کا ساتھ بھی دے سکتے تھے مگر انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تو پھر ان کے لئے منفی تاثر کون پھیلا رہا ہے اسے زائل کرنے سے پہلے یہ تو سوچیں کہ قوم جنرل کیانی کو ان سے زیادہ پسند کیوں کرتی ہے یہ تو صدر زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ عوام فوج کے پیچھے کھڑے ہیں، پاک فوج کا تاثر (امیج)جنرل کیانی نے وہاں تک پہنچا دیا ہے جو 65ءکی پاک بھارت جنگ کے زمانے میں تھا۔ وہی ترانے فضاو¿ں میں گونج رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول ترین جرنیل ہیں انہیں سیاسی جرنیل بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ جنرل مشرف کے زمانے میں لوگ دہشت گرد طالبان کے خلاف فوج کی کارروائی کے حق میں نہ تھے۔ اب اس کے خلاف نہیں، فوج اور حکومت مل کر یہ کارنامہ دے سکتے ہیں۔ اب رحمان ملک ٹھیک کہتے ہیں کہ معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے طالبان نہیں ہیں، ظالمان ہیں اور لوگ مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھی سرگرمی رحمان ملک دکھا رہے ہیں اب تک مخدوم گیلانی نے تو کچھ نہیں کیا۔
جنرل کیانی خاموش طبع آدمی ہیں، وہ سر سے پاو¿ں تک مکمل سپاہی اور سپہ سالار ہیں۔ بہادر اور دردمند ہیں جنرل مرزا اسلم بیگ نے ان کے لئے بہت تعریف کی ہے ان کو بھی آرمی چیف ہوتے ہوئے تمغہ جمہوریت دیا گیا تھا۔ جنرل کیانی نے بھی جمہوریت کے لئے جدوجہد کی ہے ایسے جرنیل ہمارے سیاستدانوں کو پسند نہیں بھٹو نے جنرل ضیاءاور نوازشریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا دونوں جونیئر تھے اور ملک میں مارشل لاءہمیشہ جونیئر آرمی جرنیلوں نے لگایا۔ جنرل کیانی نے ابوظہبی میں بے نظیر بھٹو اور صدر مشرف کے درمیان معاہدہ کرایا اور وہ وطن آئیں اس کے بعد نوازشریف بھی آئے۔ جنرل مشرف کو الیکشن کے لئے آمادہ جنرل کیانی نے کیا اور فوجی افسران کو حکم دیا کہ کوئی بھی الیکشن کے حوالے سے اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گا یہ شاید پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا۔ جنرل مشرف نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے جہاں بھی فوج بھیجی اسے ناکامی اور بدنامی ملی جہاں فوج جنرل کیانی نے بھیجی وہاں عزت مندی اور کامیابی ملی۔ سوات میں دہشت گرد گوریلوں کے خلاف بے مثال کامیابی ملی، ساری دنیا نے تعریف کی کئی لاکھ نقل مکانی کرنے والوں کو سنبھالا ، لوگوں نے تعاون کیا حکومت نے اس سلسلے میں کوئی خاص امداد نہ کی پھر وہ عزت مندی سے اپنے گھروں کو واپس گئے۔ امریکہ اور بھارت وغیرہ سمجھتے تھے کہ فوج یہاں پھنس جائے گی مگر یہ فتح ایک بہت بڑا معرکہ ہے لوگوں نے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔ آئی ایس آئی کا کردار بھی اہم ہے۔ جنرل کیانی نے کئی بار اگلے مورچوں کا دورہ کیا پھر نقل مکانی کرنے والوں سے ملنے کے لئے سوات گئے پھر انہوں نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا۔ ایک خط بھی امن پسند قبائلی پاکستانیوں کو لکھا۔ وہ خط لوگوں نے اپنے گھروں میں اور دیواروں پر لگا دیا جب وہ بھی نقل مکانی کر کے آئے تو یہ خط ان کے جیب میں تھا۔ انہوں نے جنرل کیانی کے لئے دعا کی اور کہا کہ ہم سے وہی سلوک کرو جو سوات کے مظلوم لوگوں کے ساتھ کیا تھا اور کامیاب آپریشن کرو۔ وہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائیں اور ہم باعزت طریقے سے بے خوف ہو کر اپنے گھروں کو جائیں۔ وزیرستان میں بھی سوات کی طرح کامیابیاں مل رہی ہیں۔ بم دھماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے پاس گئے، پشاور کے پولیس دربار سے خطاب کیا اور یہ پاکستان پولیس کے لئے پہلا یادگار موقع تھا۔ چیف جسٹس کو انہوں نے بحال کرنا تھا تو قومی اسمبلی میں پہلے دن ہی ججوں کو رہا کرنے کے ساتھ بحال بھی کر دیتے پھر نوازشریف اس سلسلے میں صرف صدر زرداری سے مذاکرات اور معاہدے کرتے رہے کہیں ایک جگہ بھی مخدوم گیلانی نظر نہیں آئے۔ جنرل کیانی نے لانگ مارچ کے لئے کامیاب حکمت عملی اپنائی اور شریف برادران نے ان سے رابطے میں تمام معاملات چلائے۔ مخدوم گیلانی نے رات تین بجے نشری تقریر کی۔ جنرل کیانی صدر زرداری اور مخدوم گیلانی سے کیوں ملتے رہے؟ شریف برادران سے بھی رابطہ رکھا جو کچھ ہوا جنرل کیانی کی مداخلت سے ہوا۔ اس طرح کی غیر سیاسی مداخلت سیاسی لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ اب تک حکومت بچانے اور گرانے کے علاوہ انہوں نے کیا ہی کچھ نہیں۔ صدر زرداری اس لمحے کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے چیف جسٹس کی بحالی پر آمادہ ہوئے۔ کاش وہ صدر بنتے ہی یہ کام کر دیتے تو آج صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔ اب بھی آزاد عدلیہ کے فیصلے کو الجھانے کی کوشش مخدوم گیلانی نے کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی ہم نے کرائی ہے پہلے دونوں آپس میں فیصلہ کر لیں کہ یہ فیصلہ بھی جنرل کیانی کرائیں گے۔ جنرل کیانی کی وجہ سے جسٹس کیانی یاد آتے ہیں۔ مخدوم گیلانی کی وجہ سے کون یاد آتا ہے؟
وزیراعظم مخدوم گیلانی کو کیا ہو گیا ہے ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں وہ کسی کے ساتھ نہیں، ان دنوں ان کی سرگرمیاں ایسی ہیں کہ وہ شاید اپنے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے خواہ مخواہ جنرل کیانی کے بارے میں بات چھیڑی ہے۔ پہلے انہی کے لئے کہتے تھے کہ وہ جنرل کیانی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے خود کہا کہ جنرل کیانی، جنرل مشرف کا ساتھ بھی دے سکتے تھے مگر انہوں نے جمہوریت کا ساتھ دیا پھر یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کو میں نے بحال کیا۔ جنرل کیانی کا اس میں کوئی کردار نہیں یہ بھی انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی کے بارے میں منفی تاثر کو زائل کرنا ہو گا۔ یہ کارنامہ کون کرے گا، پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل کیانی کے لئے لوگوں کی محبت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاک فوج میں یہ خوف تھا کہ وہ عوامی جگہوں پر باوردی نہیں جاتے تھے، اپنے ادارے کو اعتبار اور پیار جنرل کیانی نے دیا۔ باوردی آدمی کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہئے۔ جنرل مشرف نے پاک فوج کو بدنام اور ناکام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی مگر فوج میں اتنا ڈسپلن ہے کہ جنرل مشرف سے نفرت کے باوجود کہیں بھی ان کے لئے باغیانہ خیالات پیدا نہ ہوتے تھے۔ وہ خود چلے گئے اب اگر یہ خیال کسی کے دل میں ہے کہ وہ آرمی چیف کو وقت سے پہلے ریٹائر کر دیں گے تو وہ احمقوں کی سیاسی جنت میں رہتا ہے۔ اس طرح وہ طوفان اٹھے گا کہ سب کچھ خس و خاشاک میں مل جائے گا۔ بقول مخدوم گیلانی اداروں میں تصادم ہوا تو کچھ نہیں بچے گا۔ اسی انجام سے بچنے کے لئے نوازشریف نے یہ مشورہ دیا تھا کہ مجھ سے سبق سیکھو۔ ان سے میرا بڑی محبت کا سوال ہے کہ کیا انہوں نے خود اپنے آغاز اور انجام سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ وہ ملک وقوم کو بحران میں چھوڑ کر لندن چلے گئے وہاں کس کس کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، اور پھر اچانک شیڈول سے ہٹ کر واپس کیوں تشریف لے آئے ہیں اور اب ان کے ارادے کیا ہیں، ہمیشہ جرنیلوں کے لئے کہاجاتا ہے کہ وہ طالع آزمائی کرتے ہیں، سیاستدانوں کو بھی زور آزمائی سے گریز کرنا چاہیے۔ صدر زرداری جذباتی نہیں ہوئے نہ کوئی جلد بازی کی مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ کیا مخدوم گیلانی صدر زرداری کے لئے آسانی پیدا کر سکے ہیں وہ کسی کے لئے منفی یا مثبت تاثر پیدا کرنے کا نہ حوصلہ رکھتے ہیں نہ صلاحیت رکھتے ہیں وہ جو بیان جنرل کیانی کے لئے دے رہے ہیں تو مجھے ابھی معلوم نہیں کہ تار کس طرف سے ہلائی جا رہی ہے اور ان کا اصل مقصد کیا ہے۔ وہ صدر زرداری کے لئے کوئی پریشانی پیدا کرنا چاہتے ہیں یا جنرل کیانی کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کے تقرر کا اختیار ان کے پاس ابھی نہیں آیا ہے۔ صدر زرداری نے ابھی زبانی کلامی بات کی ہے۔ صدر زرداری مخدوم گیلانی سے کہیں بڑے کھلاڑی ہیں۔ وہ سیاستدان بھی ان سے زیادہ ہیں، انہوں نے سپریم کورٹ کے این آر او کے بارے میں فیصلے کے بعد یوٹرن لیا ہے جبکہ یہ فیصلہ بظاہر پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں۔ صدر زرداری کو تو استثنیٰ حاصل ہے لوگوں کوخواہ مخواہ شک گزرتا ہے، نوازشریف بھی اعتزاز پر زیادہ اعتبار نہ کریں مخدوم گیلانی اور اعتزاز دونوں ایک جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں اس محفل میں موجود تھا جب مخدوم گیلانی نے زرداری صاحب کے لئے کہا تھا وہ بھی محفل میں موجود تھے اور ابھی صدر نہیں بنے تھے ” آصف زرداری خود بھی وزیراعظم بن سکتے تھے مگر انہوں نے مجھے وزیراعظم بنایا“ ان کے صدر بنتے ہی وزیراعظم کے یہ خیالات بدل گئے مگر کچھ لوگ اب بھی کہتے ہیں کہ صدر زرداری جس وقت چاہیں وزیراعظم بن سکتے ہیں یہ خیال 17 ویں ترمیم ختم کرانے کے لئے زور دینے والے نوازشریف کے لئے بھی ہے۔ شہبازشریف بھی امیدوار ہیں تو ان کے لئے بھی اندر سے مخدوم گیلانی کوئی اور خیال رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جنرل کیانی صدر مشرف کا ساتھ بھی دے سکتے تھے مگر انہوں نے ہمارا ساتھ دیا تو پھر ان کے لئے منفی تاثر کون پھیلا رہا ہے اسے زائل کرنے سے پہلے یہ تو سوچیں کہ قوم جنرل کیانی کو ان سے زیادہ پسند کیوں کرتی ہے یہ تو صدر زرداری بھی کہہ چکے ہیں کہ عوام فوج کے پیچھے کھڑے ہیں، پاک فوج کا تاثر (امیج)جنرل کیانی نے وہاں تک پہنچا دیا ہے جو 65ءکی پاک بھارت جنگ کے زمانے میں تھا۔ وہی ترانے فضاو¿ں میں گونج رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ ہمارے مقبول ترین جرنیل ہیں انہیں سیاسی جرنیل بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ جنرل مشرف کے زمانے میں لوگ دہشت گرد طالبان کے خلاف فوج کی کارروائی کے حق میں نہ تھے۔ اب اس کے خلاف نہیں، فوج اور حکومت مل کر یہ کارنامہ دے سکتے ہیں۔ اب رحمان ملک ٹھیک کہتے ہیں کہ معصوم لوگوں کو قتل کرنے والے طالبان نہیں ہیں، ظالمان ہیں اور لوگ مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھی سرگرمی رحمان ملک دکھا رہے ہیں اب تک مخدوم گیلانی نے تو کچھ نہیں کیا۔
جنرل کیانی خاموش طبع آدمی ہیں، وہ سر سے پاو¿ں تک مکمل سپاہی اور سپہ سالار ہیں۔ بہادر اور دردمند ہیں جنرل مرزا اسلم بیگ نے ان کے لئے بہت تعریف کی ہے ان کو بھی آرمی چیف ہوتے ہوئے تمغہ جمہوریت دیا گیا تھا۔ جنرل کیانی نے بھی جمہوریت کے لئے جدوجہد کی ہے ایسے جرنیل ہمارے سیاستدانوں کو پسند نہیں بھٹو نے جنرل ضیاءاور نوازشریف نے جنرل مشرف کو آرمی چیف بنایا دونوں جونیئر تھے اور ملک میں مارشل لاءہمیشہ جونیئر آرمی جرنیلوں نے لگایا۔ جنرل کیانی نے ابوظہبی میں بے نظیر بھٹو اور صدر مشرف کے درمیان معاہدہ کرایا اور وہ وطن آئیں اس کے بعد نوازشریف بھی آئے۔ جنرل مشرف کو الیکشن کے لئے آمادہ جنرل کیانی نے کیا اور فوجی افسران کو حکم دیا کہ کوئی بھی الیکشن کے حوالے سے اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گا یہ شاید پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا۔ جنرل مشرف نے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے جہاں بھی فوج بھیجی اسے ناکامی اور بدنامی ملی جہاں فوج جنرل کیانی نے بھیجی وہاں عزت مندی اور کامیابی ملی۔ سوات میں دہشت گرد گوریلوں کے خلاف بے مثال کامیابی ملی، ساری دنیا نے تعریف کی کئی لاکھ نقل مکانی کرنے والوں کو سنبھالا ، لوگوں نے تعاون کیا حکومت نے اس سلسلے میں کوئی خاص امداد نہ کی پھر وہ عزت مندی سے اپنے گھروں کو واپس گئے۔ امریکہ اور بھارت وغیرہ سمجھتے تھے کہ فوج یہاں پھنس جائے گی مگر یہ فتح ایک بہت بڑا معرکہ ہے لوگوں نے پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے۔ آئی ایس آئی کا کردار بھی اہم ہے۔ جنرل کیانی نے کئی بار اگلے مورچوں کا دورہ کیا پھر نقل مکانی کرنے والوں سے ملنے کے لئے سوات گئے پھر انہوں نے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا۔ ایک خط بھی امن پسند قبائلی پاکستانیوں کو لکھا۔ وہ خط لوگوں نے اپنے گھروں میں اور دیواروں پر لگا دیا جب وہ بھی نقل مکانی کر کے آئے تو یہ خط ان کے جیب میں تھا۔ انہوں نے جنرل کیانی کے لئے دعا کی اور کہا کہ ہم سے وہی سلوک کرو جو سوات کے مظلوم لوگوں کے ساتھ کیا تھا اور کامیاب آپریشن کرو۔ وہاں پاکستان کے جھنڈے لہرائیں اور ہم باعزت طریقے سے بے خوف ہو کر اپنے گھروں کو جائیں۔ وزیرستان میں بھی سوات کی طرح کامیابیاں مل رہی ہیں۔ بم دھماکوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے پاس گئے، پشاور کے پولیس دربار سے خطاب کیا اور یہ پاکستان پولیس کے لئے پہلا یادگار موقع تھا۔ چیف جسٹس کو انہوں نے بحال کرنا تھا تو قومی اسمبلی میں پہلے دن ہی ججوں کو رہا کرنے کے ساتھ بحال بھی کر دیتے پھر نوازشریف اس سلسلے میں صرف صدر زرداری سے مذاکرات اور معاہدے کرتے رہے کہیں ایک جگہ بھی مخدوم گیلانی نظر نہیں آئے۔ جنرل کیانی نے لانگ مارچ کے لئے کامیاب حکمت عملی اپنائی اور شریف برادران نے ان سے رابطے میں تمام معاملات چلائے۔ مخدوم گیلانی نے رات تین بجے نشری تقریر کی۔ جنرل کیانی صدر زرداری اور مخدوم گیلانی سے کیوں ملتے رہے؟ شریف برادران سے بھی رابطہ رکھا جو کچھ ہوا جنرل کیانی کی مداخلت سے ہوا۔ اس طرح کی غیر سیاسی مداخلت سیاسی لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ اب تک حکومت بچانے اور گرانے کے علاوہ انہوں نے کیا ہی کچھ نہیں۔ صدر زرداری اس لمحے کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے چیف جسٹس کی بحالی پر آمادہ ہوئے۔ کاش وہ صدر بنتے ہی یہ کام کر دیتے تو آج صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔ اب بھی آزاد عدلیہ کے فیصلے کو الجھانے کی کوشش مخدوم گیلانی نے کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ججوں کی بحالی ہم نے کرائی ہے پہلے دونوں آپس میں فیصلہ کر لیں کہ یہ فیصلہ بھی جنرل کیانی کرائیں گے۔ جنرل کیانی کی وجہ سے جسٹس کیانی یاد آتے ہیں۔ مخدوم گیلانی کی وجہ سے کون یاد آتا ہے؟