فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا نے کہا ہے کہ گھنٹی بج چکی ہے‘ حکومت کی رخصتی کا وقت آگیا ہے۔
رخصتیوں پر تو بالعموم شہنایاں بجتی ہیں‘ ممکن ہے پیر صاحب کے ہاں گھنٹیاں بجتی ہوں۔ انکی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی پیر صاحب آدمیوں کو تعویز دے‘ ان میں پانچ نے تو ویسے بھی ٹھیک ہونا ہوتا ہے‘ باقی پانچ جائیں بھاڑ میں۔ جن پانچ کا کام ہو چکا ہوتا ہے‘ وہ عقیدت مند بن جاتے ہیں۔ اسی طرح پیر صاحب پگاڑا بھی پیشین گوئیاں کرتے رہتے ہیں‘ جن میں سے کچھ نے ویسے پورا ہونا ہوتا ہے اور انکی جے جے ہوجاتی ہے۔ اب گھنٹی تو کیا بجنی ہے‘ بگل بج رہا ہے‘ دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟
پاکستان میں غیریقینی صورتحال ہے‘ اس لئے کسی بھی معاملے میں ابھی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال پیر صاحب کیلئے یہی کافی ہے کہ ان کا این آر او میں نام نہیں۔ پاکستان کی سیاست پیروں‘ فقیروں‘ جاگیرداروں‘ سرداروں کی سیاست ہے‘ ان میں سے کوئی دن دیہاڑے بھی پکڑا جائے تو پکڑا نہیں کہلاتا‘ البتہ غریب لوگ بے گناہ بھی دھرلئے جاتے ہیں۔ جائیں تھانوں میں دیکھیں‘ کوئی امیر نظر نہیں آئیگا‘ سب غریب مار کھا رہے ہونگے۔ پیر صاحب پگاڑا کی خاندانی تاریخ بہت اونچی ہے اور انکے خاندان کی بڑی خدمات ہیں۔ اگر وہ چاہتے تو اس ملک کی سیاست کو سیدھے راستے پر لا سکتے تھے‘ وہ اگر مسلم لیگ ہی کو ایک بنا کر قائداعظم کی روح کو ایصال ثواب کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے‘ پاکستان کی فضائی سالمیت سے متعلق سوالات پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔
یہ معاملہ پاک فضائیہ کا ہے‘ اس لئے امریکی بیان میں چھپا جھوٹ پوشیدہ نہیں رہ سکتا‘ ڈرون طیارے تو آجا رہے ہیں کہ اب جنگی طیارے بھی ہماری فضائوں میں گھسنے لگے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ بتائے اس نے کیا نہیں کیا؟
یہ سوال کتنا بھونڈا ہے کہ پاکستان کی فضائی سالمیت سے متعلق سوالات پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔ اگر پاک فضائیہ پر ہی چھوڑنا ہے تو پھر امریکی طیاروں کو زمین پر ہونا چاہئے‘ مگر ہم نے تو آج تک کوئی ڈرون طیارہ نہیں گرایا۔ امریکی جنگی طیاروں کا کیا کرلیں گے؟
شاید ہمارا خیال ہے کہ امریکہ اجازت دیگا‘ تو ہم انکے فضائی طیاروں کو روک سکیں گے۔ فضائی تاریخ میں اکثر یہ بہانہ چلتا ہے کہ فلاں کا طیارہ غلطی سے فلاں کے ملک میں داخل ہو گیا۔ پاکستان کی فضائی سالمیت کتنی بار اب تک روندی جا چکی ہے‘ مگر امریکہ کا کہنا بجا ہے کہ اسے پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ کچھ نہیں کہے گی۔ آپ آج بھارت کے کسی علاقے میں ایک چھوٹا سا ہیلی کاپٹر داخل کردیں‘ وہ فضائیں سر پر اٹھا لیںگے۔ ہمارے ہاں فضائیہ موجود ہے‘ اسکے باوجود گن شپ ہیلی کاپٹر اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں‘ کارروائی کرتے ہیں‘ یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے یہ سوال کرکے پاکستانی فضائیہ کو آزمائش میں ڈالاہے۔
٭…٭…٭…٭
امریکی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف مسٹر مولن نے کہا ہے کہ ایران پر حملے کا آپشن کھلا ہے‘ ایٹمی پروگرام سے روکنے کیلئے مزید پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں مولن مولوی کی مؤنث کو کہتے ہیں‘ ظاہر ہے مولن کا مولوی اوبامہ ہو گا۔ امریکہ اس وقت چِھتے کتے کی طرح عالم اسلام کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ سفارت کاری ایٹمی معاملے کے حل کیلئے بہترین راستہ ہے‘ دوسری جانب وہ ایران پر حملے کی سوچ رہے ہیں جبکہ ان کو یہ معلوم ہے کہ ایران پر حملہ عراق پر حملے کی طرح آسان نہ ہو گا۔ جس ایران نے امریکہ کے سب سے بڑے ٹائوٹ کو دنیا بھر میں دھکے دے دیکر موت کے منہ میں پہنچا دیا اور جس نے اسلامی انقلاب برپا کر دیا اور جو وطن کی حفاظت کیلئے یکمشت ہے‘ اسے نشانہ بنانا اپنے ہی پنچھی کو مارنا ہے۔
ایران ایک بڑا اسلامی ملک ہے‘ اسکی سرحدیں پاکستان سے ملی ہوئی ہیں اور اسکی پرامن مقاصد کیلئے ایٹمی کوششیں جاری ہیں‘ معاشی لحاظ سے بھی وہ کسی مالیاتی ادارے کا دریوزہ گر نہیں ہے۔ ایران پر حملے کی غلطی مسلم امہ کو خواب خرگوش سے جگانے کی کوشش ہو گی‘ امریکی جنرل نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کریگا‘ یعنی منافقت کی بھی حد ہوتی ہے‘ امریکہ تو حملہ کریگا‘ اسرائیل نہیں کریگا۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے کہا ہے کہ این آر او پر فیصلے میں سلیکٹڈ جسٹس‘‘ ہے۔ زرداری کے سوا سب کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ فوج اور حکومت میں تو تصادم نہیں‘ نادان حامیوں نے جذبات میں آکر کہا کہ اگلی لاش پنجاب میں آئیگی۔
فوزیہ وہاب این آر او کے فیصلے پر جو بھی کہیں کہہ سکتی ہیں‘ بہرحال آزاد عدلیہ نے جو کرنا تھا‘ کردیا۔ انکی یہ بات بھی خوب ہے کہ صدر زرداری کے سوا سب کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ پھر بھی آگے چل کر کیا ہوتا ہے‘ یہ خود شاید فوزیہ وہاب کو بھی نہیں معلوم۔ وہ ان دنوں پیپلز پارٹی کے غصے کو اپنے کُھسے (جوتی) میں ڈال رہی ہیں تاکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کیخلاف رنج و غم ٹھنڈا پڑ جائے۔
٭…٭…٭…٭
چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ قرضوں کی واپسی کیلئے ایک موقعہ دیں گے‘ پھر کارروائی ہو گی۔ اس طرح ممکن ہے کہ جمہوری سفر بھی جاری رہے اور بچہ جمورا بھی۔ این آر او کے تحت جو لوٹ مار ہوئی‘ وہ پیسے عوام کے تھے اور عوام کو ہی لوٹانے چاہئیں اور چیف جسٹس یہی ارادہ رکھتے ہیں۔ آجکل مسلم لیگ (ن) والے بھی اونچی ہوائوں میں ہیں‘ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا‘ بدقسمتی ہے کہ پنجاب کو کوئی ’’بندے دا پتر‘‘ گورنر نہیں ملا حالانکہ گورنر کسی بندے کے پتر ہی کو بنایا جاتا ہے۔
رخصتیوں پر تو بالعموم شہنایاں بجتی ہیں‘ ممکن ہے پیر صاحب کے ہاں گھنٹیاں بجتی ہوں۔ انکی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی پیر صاحب آدمیوں کو تعویز دے‘ ان میں پانچ نے تو ویسے بھی ٹھیک ہونا ہوتا ہے‘ باقی پانچ جائیں بھاڑ میں۔ جن پانچ کا کام ہو چکا ہوتا ہے‘ وہ عقیدت مند بن جاتے ہیں۔ اسی طرح پیر صاحب پگاڑا بھی پیشین گوئیاں کرتے رہتے ہیں‘ جن میں سے کچھ نے ویسے پورا ہونا ہوتا ہے اور انکی جے جے ہوجاتی ہے۔ اب گھنٹی تو کیا بجنی ہے‘ بگل بج رہا ہے‘ دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا؟
پاکستان میں غیریقینی صورتحال ہے‘ اس لئے کسی بھی معاملے میں ابھی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال پیر صاحب کیلئے یہی کافی ہے کہ ان کا این آر او میں نام نہیں۔ پاکستان کی سیاست پیروں‘ فقیروں‘ جاگیرداروں‘ سرداروں کی سیاست ہے‘ ان میں سے کوئی دن دیہاڑے بھی پکڑا جائے تو پکڑا نہیں کہلاتا‘ البتہ غریب لوگ بے گناہ بھی دھرلئے جاتے ہیں۔ جائیں تھانوں میں دیکھیں‘ کوئی امیر نظر نہیں آئیگا‘ سب غریب مار کھا رہے ہونگے۔ پیر صاحب پگاڑا کی خاندانی تاریخ بہت اونچی ہے اور انکے خاندان کی بڑی خدمات ہیں۔ اگر وہ چاہتے تو اس ملک کی سیاست کو سیدھے راستے پر لا سکتے تھے‘ وہ اگر مسلم لیگ ہی کو ایک بنا کر قائداعظم کی روح کو ایصال ثواب کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا ہے‘ پاکستان کی فضائی سالمیت سے متعلق سوالات پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔
یہ معاملہ پاک فضائیہ کا ہے‘ اس لئے امریکی بیان میں چھپا جھوٹ پوشیدہ نہیں رہ سکتا‘ ڈرون طیارے تو آجا رہے ہیں کہ اب جنگی طیارے بھی ہماری فضائوں میں گھسنے لگے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ امریکہ نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ بتائے اس نے کیا نہیں کیا؟
یہ سوال کتنا بھونڈا ہے کہ پاکستان کی فضائی سالمیت سے متعلق سوالات پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔ اگر پاک فضائیہ پر ہی چھوڑنا ہے تو پھر امریکی طیاروں کو زمین پر ہونا چاہئے‘ مگر ہم نے تو آج تک کوئی ڈرون طیارہ نہیں گرایا۔ امریکی جنگی طیاروں کا کیا کرلیں گے؟
شاید ہمارا خیال ہے کہ امریکہ اجازت دیگا‘ تو ہم انکے فضائی طیاروں کو روک سکیں گے۔ فضائی تاریخ میں اکثر یہ بہانہ چلتا ہے کہ فلاں کا طیارہ غلطی سے فلاں کے ملک میں داخل ہو گیا۔ پاکستان کی فضائی سالمیت کتنی بار اب تک روندی جا چکی ہے‘ مگر امریکہ کا کہنا بجا ہے کہ اسے پاک فضائیہ پر چھوڑتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ کچھ نہیں کہے گی۔ آپ آج بھارت کے کسی علاقے میں ایک چھوٹا سا ہیلی کاپٹر داخل کردیں‘ وہ فضائیں سر پر اٹھا لیںگے۔ ہمارے ہاں فضائیہ موجود ہے‘ اسکے باوجود گن شپ ہیلی کاپٹر اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں‘ کارروائی کرتے ہیں‘ یوں لگتا ہے کہ امریکہ نے یہ سوال کرکے پاکستانی فضائیہ کو آزمائش میں ڈالاہے۔
٭…٭…٭…٭
امریکی چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف مسٹر مولن نے کہا ہے کہ ایران پر حملے کا آپشن کھلا ہے‘ ایٹمی پروگرام سے روکنے کیلئے مزید پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں مولن مولوی کی مؤنث کو کہتے ہیں‘ ظاہر ہے مولن کا مولوی اوبامہ ہو گا۔ امریکہ اس وقت چِھتے کتے کی طرح عالم اسلام کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ سفارت کاری ایٹمی معاملے کے حل کیلئے بہترین راستہ ہے‘ دوسری جانب وہ ایران پر حملے کی سوچ رہے ہیں جبکہ ان کو یہ معلوم ہے کہ ایران پر حملہ عراق پر حملے کی طرح آسان نہ ہو گا۔ جس ایران نے امریکہ کے سب سے بڑے ٹائوٹ کو دنیا بھر میں دھکے دے دیکر موت کے منہ میں پہنچا دیا اور جس نے اسلامی انقلاب برپا کر دیا اور جو وطن کی حفاظت کیلئے یکمشت ہے‘ اسے نشانہ بنانا اپنے ہی پنچھی کو مارنا ہے۔
ایران ایک بڑا اسلامی ملک ہے‘ اسکی سرحدیں پاکستان سے ملی ہوئی ہیں اور اسکی پرامن مقاصد کیلئے ایٹمی کوششیں جاری ہیں‘ معاشی لحاظ سے بھی وہ کسی مالیاتی ادارے کا دریوزہ گر نہیں ہے۔ ایران پر حملے کی غلطی مسلم امہ کو خواب خرگوش سے جگانے کی کوشش ہو گی‘ امریکی جنرل نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ نہیں کریگا‘ یعنی منافقت کی بھی حد ہوتی ہے‘ امریکہ تو حملہ کریگا‘ اسرائیل نہیں کریگا۔
٭…٭…٭…٭
پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے کہا ہے کہ این آر او پر فیصلے میں سلیکٹڈ جسٹس‘‘ ہے۔ زرداری کے سوا سب کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ فوج اور حکومت میں تو تصادم نہیں‘ نادان حامیوں نے جذبات میں آکر کہا کہ اگلی لاش پنجاب میں آئیگی۔
فوزیہ وہاب این آر او کے فیصلے پر جو بھی کہیں کہہ سکتی ہیں‘ بہرحال آزاد عدلیہ نے جو کرنا تھا‘ کردیا۔ انکی یہ بات بھی خوب ہے کہ صدر زرداری کے سوا سب کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ پھر بھی آگے چل کر کیا ہوتا ہے‘ یہ خود شاید فوزیہ وہاب کو بھی نہیں معلوم۔ وہ ان دنوں پیپلز پارٹی کے غصے کو اپنے کُھسے (جوتی) میں ڈال رہی ہیں تاکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کیخلاف رنج و غم ٹھنڈا پڑ جائے۔
٭…٭…٭…٭
چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بڑا اچھا بیان دیا ہے کہ قرضوں کی واپسی کیلئے ایک موقعہ دیں گے‘ پھر کارروائی ہو گی۔ اس طرح ممکن ہے کہ جمہوری سفر بھی جاری رہے اور بچہ جمورا بھی۔ این آر او کے تحت جو لوٹ مار ہوئی‘ وہ پیسے عوام کے تھے اور عوام کو ہی لوٹانے چاہئیں اور چیف جسٹس یہی ارادہ رکھتے ہیں۔ آجکل مسلم لیگ (ن) والے بھی اونچی ہوائوں میں ہیں‘ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا‘ بدقسمتی ہے کہ پنجاب کو کوئی ’’بندے دا پتر‘‘ گورنر نہیں ملا حالانکہ گورنر کسی بندے کے پتر ہی کو بنایا جاتا ہے۔