شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب
مےں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے عہدیداروں خصوصاً جناب مجید نظامی کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے 134 ویں یوم ولادت کی تقریب کے موقع پر اظہار خیال کا موقع عنایت فرمایا۔ مےں آپ سب خواتین و حضرات کو دل کی گہرائیوں سے قائداعظم کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں قائداعظم کے اصولوں پر چلتے ہوئے پاکستان کے تحفظ اور نگہداشت کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں قائداعظم جیسا دوراندیش اور زیرک راہنما عطا فرمایا۔ اگر برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظم کی قیادت میسر نہ آتی تو پاکستان کبھی معرض وجود مےں نہ آسکتا تھا۔
مجھے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقاریب مےں شرکت سے ہمیشہ ایک روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ ادارہ تحریک پاکستان کے لازوال جذبوں اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے افکار کا امین ہے۔ یہاں آکر نہ صرف تحریک قیام پاکستان کی تاریخ ذہن مےں اجاگر ہو جاتی ہے بلکہ استحکام پاکستان کےلئے جدوجہد کے عزم کو بھی تقویت ملتی ہے۔
جناب مجید نظامی کا شمار پاکستان کی ان ہستیوں مےں ہوتا ہے جن کا ذکر پاکستان کی معاشی‘ صحافتی اور سیاسی تاریخ لکھنے والا ہر مورخ ادب اور احترام کے ساتھ کرے گا۔ انہوں نے جہاں ایک طرف پاکستان مےں آمریت کے بدترین ادوار مےں آزادی اظہار کی شمع کو اپنے خون دل سے روشن رکھا‘ وہاں اپنے اشاعتی ادارے اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے پاکستانی قوم خصوصاً نوجوان نسل کی نظریاتی تربیت مےں بے مثال کردار ادا کیا۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اب اس نظریاتی کارواں مےں ان کا نیوز چینل ”وقت نیوز“ بھی شامل ہو چکا ہے۔ مےں نے گذشتہ روز وقت چینل کی دوسری سالگرہ پر اپنا پیغام ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ مجید نظامی کی زندگی کا مقصد پاکستان کو قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے خوابوں کے مطابق مستقبل کے سفر پر گامزن رکھنا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا اسلامی تشخص محفوظ بنانے کےلئے وجود مےں لایا گیا تھا لیکن بانی پاکستان کے مطابق اس آزاد وطن کے قیام کا اہم مقصد یہ تھا کہ یہاں رہنے والوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے بہتر مواقع میسر آسکیں۔ قائداعظم نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ان کے پاکستان مےں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے گا اور غریب لوگ روزمرہ کی بنیادی ضروریات کو ترسیں گے۔
بابائے قوم نے حصول پاکستان کی جنگ آئین اور قانون کے ہتھیاروں سے جیتی تھی۔ اگر ہم نے بھی ملک مےں آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ہوتا تو کسی طالع آزما کو بندوق کے زور پر آئین پاکستان کی بے حرمتی کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر سمجھنے والے آمروں نے قائداعظمؒ کے پاکستان کو انتشار و افتراق کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قوم کو بدترین دہشت گردی، بدعنوانی اور توانائی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ مجھے اس تلخ حقیقت کے برملا اعتراف مےں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ قائداعظمؒ کے ذہن مےں ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا جو تصور تھا ابھی ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔
مےں نے ماضی مےں کئی بار اپنی تقاریر مےں یہ کہا ہے کہ پاکستان کی 62 سالہ تاریخ مےں بدقسمتی سے ہمارے دامن مےں کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ہےں، لیکن اس بار مےں ایک زیادہ پرامید اور حوصلہ مند شخص کی حیثیت سے آپ کی خدمت مےں حاضر ہوا ہوں۔ مےں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے افق پر سے اندھیروں کے بادل چھٹ رہے ہےں۔ گذشتہ صرف ایک ماہ کے دوران پاکستانی قوم کو دو خوشخبریاں ایسی ملی ہےں جن کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل پر میرا ایمان پختہ تر ہوگیا ہے۔ ان مےں ایک خوشخبری این ایف سی ایوارڈ کی ہے اور دوسری این آر او کے خاتمے کی۔
جہاں تک این آر او کا تعلق ہے آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ایسے معاشرے کی شکل مےں دیکھنا چاہتے تھے جہاں کرپشن اور بدعنوانی کا دور دور تک نشان نہ ہو۔ پاکستان کے عوام، ان کی نمائندہ پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ نے این آر او کو مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کا اجتماعی ضمیر کرپشن کو کسی صورت برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں۔ مےں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو یہ کہتے ہےں کہ این آر او کے بارے مےں عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد سے جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگی۔ اگر ہماری پارلیمنٹ لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کو جواز فراہم کرنے والے اس کالے قانون کو منظور کر لیتی تو اس کا یہ فیصلہ ہماری سوسائٹی کے رہے سہے اخلاقی ڈھانچے کےلئے زہر قاتل ثابت ہوتا۔
قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہے کہ ہم اپنی آزادی کا کس حد تک تحفظ کر پائے ہےں؟ آپ مجھے یہ بتائیں کہ غیر ملکی امداد اور اغیار کی نظر کرم پر گزر بسر کرنے والی کوئی قوم صحیح معنوں مےں آزاد قوم ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟ مےں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کا جواب صرف اور صرف نفی مےں ہے۔ مےں نے جب این ایف سی ایوارڈ کے موقع پر تینوں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے مزار پر حاضری دی تھی تو وہاں وزیٹرز بک پر ان کا جو شعر لکھا تھا وہ یہی تھا کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز مےں کوتاہی
کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ قوم جس کی نام نہاد اشرافیہ وقت کے حکمرانوں کے ساتھ سازباز کر کے 193 ارب روپے کے قرض شیرمادر سمجھ کر ڈکار گئی اسے کیری لوگر بل کی شکل مےں پانچ برسوں کے عرصے مےں ملنے والے ساڑھے 7 ارب ڈالروں کے لئے اپنی عزت اور غیرت کا سودا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ آج یوم قائداعظمؒ پر پاکستانی عوام کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ وہ قوم اور وطن کے ان لٹیروں سے یہ قرضے واپس لے کر دم لیں گے۔ مےں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قوم کو سپریم کورٹ مےں سٹیٹ بنک کی طرف سے پیش کی جانے والی فہرست کے آئینے مےں ان چہروں کو اچھی طرح پہچان لینا چاہئے جو صرف چند روز پہلے ٹیلی ویژن پر اپنی صفائی مےں جعلی دستاویزیں دکھا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ لوٹے ہوئے قرضوں کی واپسی کےلئے سب سے پہلے جو آوازیں بلند ہوئیں ان مےں اس خاکسار کی آواز بھی شامل تھی۔ مےں سپریم کورٹ کو اس تاریخی فیصلے پر اپنی طرف سے اور پنجاب کے 10 کروڑ عوام کی طرف سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ وہ فیصلے ہےں جو براہ راست عوام کی زندگیوں اور ان کی امنگوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہےں۔ عوام کو دانشوروں کے حلقوں مےں ہونے والی گفتگو اور باریک قانونی نکتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہےں کہ بہت دیر بعد انہیں کوئی ایسی خبر ملی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی گرفت امیروں اور غریبوں کے لئے یکساں ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ عوام کے لوٹے ہوئے اس سرمائے کی واپسی کو روکنا اب ممکن نہیں رہا۔
مےں یہاں جناب مجید نظامی صاحب کی اجازت اور آپ سب لوگوں کی تائید کے ساتھ سپریم کورٹ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ حکومت کو اس امر کا پابند کر دے کہ جب قومی خزانے سے لوٹی ہوئی 193 ارب روپے کی یہ رقم واپس مل جائے تو اسے صرف اور صرف عوام کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔
(25 دسمبر 2009ءقائد اعظم کے یوم ولادت پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب)
مےں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے عہدیداروں خصوصاً جناب مجید نظامی کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے 134 ویں یوم ولادت کی تقریب کے موقع پر اظہار خیال کا موقع عنایت فرمایا۔ مےں آپ سب خواتین و حضرات کو دل کی گہرائیوں سے قائداعظم کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہوں کہ وہ ہمیں قائداعظم کے اصولوں پر چلتے ہوئے پاکستان کے تحفظ اور نگہداشت کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں قائداعظم جیسا دوراندیش اور زیرک راہنما عطا فرمایا۔ اگر برصغیر کے مسلمانوں کو قائداعظم کی قیادت میسر نہ آتی تو پاکستان کبھی معرض وجود مےں نہ آسکتا تھا۔
مجھے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی تقاریب مےں شرکت سے ہمیشہ ایک روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ ادارہ تحریک پاکستان کے لازوال جذبوں اور بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے افکار کا امین ہے۔ یہاں آکر نہ صرف تحریک قیام پاکستان کی تاریخ ذہن مےں اجاگر ہو جاتی ہے بلکہ استحکام پاکستان کےلئے جدوجہد کے عزم کو بھی تقویت ملتی ہے۔
جناب مجید نظامی کا شمار پاکستان کی ان ہستیوں مےں ہوتا ہے جن کا ذکر پاکستان کی معاشی‘ صحافتی اور سیاسی تاریخ لکھنے والا ہر مورخ ادب اور احترام کے ساتھ کرے گا۔ انہوں نے جہاں ایک طرف پاکستان مےں آمریت کے بدترین ادوار مےں آزادی اظہار کی شمع کو اپنے خون دل سے روشن رکھا‘ وہاں اپنے اشاعتی ادارے اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ذریعے پاکستانی قوم خصوصاً نوجوان نسل کی نظریاتی تربیت مےں بے مثال کردار ادا کیا۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اب اس نظریاتی کارواں مےں ان کا نیوز چینل ”وقت نیوز“ بھی شامل ہو چکا ہے۔ مےں نے گذشتہ روز وقت چینل کی دوسری سالگرہ پر اپنا پیغام ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ہے کہ مجید نظامی کی زندگی کا مقصد پاکستان کو قائداعظمؒ اور اقبالؒ کے خوابوں کے مطابق مستقبل کے سفر پر گامزن رکھنا ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا اسلامی تشخص محفوظ بنانے کےلئے وجود مےں لایا گیا تھا لیکن بانی پاکستان کے مطابق اس آزاد وطن کے قیام کا اہم مقصد یہ تھا کہ یہاں رہنے والوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے بہتر مواقع میسر آسکیں۔ قائداعظم نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ان کے پاکستان مےں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا چلا جائے گا اور غریب لوگ روزمرہ کی بنیادی ضروریات کو ترسیں گے۔
بابائے قوم نے حصول پاکستان کی جنگ آئین اور قانون کے ہتھیاروں سے جیتی تھی۔ اگر ہم نے بھی ملک مےں آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا ہوتا تو کسی طالع آزما کو بندوق کے زور پر آئین پاکستان کی بے حرمتی کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالاتر سمجھنے والے آمروں نے قائداعظمؒ کے پاکستان کو انتشار و افتراق کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قوم کو بدترین دہشت گردی، بدعنوانی اور توانائی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ مجھے اس تلخ حقیقت کے برملا اعتراف مےں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ قائداعظمؒ کے ذہن مےں ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا جو تصور تھا ابھی ہم اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔
مےں نے ماضی مےں کئی بار اپنی تقاریر مےں یہ کہا ہے کہ پاکستان کی 62 سالہ تاریخ مےں بدقسمتی سے ہمارے دامن مےں کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ہےں، لیکن اس بار مےں ایک زیادہ پرامید اور حوصلہ مند شخص کی حیثیت سے آپ کی خدمت مےں حاضر ہوا ہوں۔ مےں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان کے افق پر سے اندھیروں کے بادل چھٹ رہے ہےں۔ گذشتہ صرف ایک ماہ کے دوران پاکستانی قوم کو دو خوشخبریاں ایسی ملی ہےں جن کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل پر میرا ایمان پختہ تر ہوگیا ہے۔ ان مےں ایک خوشخبری این ایف سی ایوارڈ کی ہے اور دوسری این آر او کے خاتمے کی۔
جہاں تک این آر او کا تعلق ہے آپ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان کو ایک ایسے معاشرے کی شکل مےں دیکھنا چاہتے تھے جہاں کرپشن اور بدعنوانی کا دور دور تک نشان نہ ہو۔ پاکستان کے عوام، ان کی نمائندہ پارلیمنٹ اور عدالت عظمیٰ نے این آر او کو مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کا اجتماعی ضمیر کرپشن کو کسی صورت برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں۔ مےں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو یہ کہتے ہےں کہ این آر او کے بارے مےں عدلیہ کے فیصلے پر عملدرآمد سے جمہوریت کو کوئی خطرہ ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگی۔ اگر ہماری پارلیمنٹ لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کو جواز فراہم کرنے والے اس کالے قانون کو منظور کر لیتی تو اس کا یہ فیصلہ ہماری سوسائٹی کے رہے سہے اخلاقی ڈھانچے کےلئے زہر قاتل ثابت ہوتا۔
قائداعظمؒ کے یوم پیدائش پر ہمیں یہ جائزہ بھی لینا ہے کہ ہم اپنی آزادی کا کس حد تک تحفظ کر پائے ہےں؟ آپ مجھے یہ بتائیں کہ غیر ملکی امداد اور اغیار کی نظر کرم پر گزر بسر کرنے والی کوئی قوم صحیح معنوں مےں آزاد قوم ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے؟ مےں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کا جواب صرف اور صرف نفی مےں ہے۔ مےں نے جب این ایف سی ایوارڈ کے موقع پر تینوں وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے مزار پر حاضری دی تھی تو وہاں وزیٹرز بک پر ان کا جو شعر لکھا تھا وہ یہی تھا کہ
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز مےں کوتاہی
کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ قوم جس کی نام نہاد اشرافیہ وقت کے حکمرانوں کے ساتھ سازباز کر کے 193 ارب روپے کے قرض شیرمادر سمجھ کر ڈکار گئی اسے کیری لوگر بل کی شکل مےں پانچ برسوں کے عرصے مےں ملنے والے ساڑھے 7 ارب ڈالروں کے لئے اپنی عزت اور غیرت کا سودا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ آج یوم قائداعظمؒ پر پاکستانی عوام کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ وہ قوم اور وطن کے ان لٹیروں سے یہ قرضے واپس لے کر دم لیں گے۔ مےں یہاں کسی کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قوم کو سپریم کورٹ مےں سٹیٹ بنک کی طرف سے پیش کی جانے والی فہرست کے آئینے مےں ان چہروں کو اچھی طرح پہچان لینا چاہئے جو صرف چند روز پہلے ٹیلی ویژن پر اپنی صفائی مےں جعلی دستاویزیں دکھا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ لوٹے ہوئے قرضوں کی واپسی کےلئے سب سے پہلے جو آوازیں بلند ہوئیں ان مےں اس خاکسار کی آواز بھی شامل تھی۔ مےں سپریم کورٹ کو اس تاریخی فیصلے پر اپنی طرف سے اور پنجاب کے 10 کروڑ عوام کی طرف سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ وہ فیصلے ہےں جو براہ راست عوام کی زندگیوں اور ان کی امنگوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہےں۔ عوام کو دانشوروں کے حلقوں مےں ہونے والی گفتگو اور باریک قانونی نکتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہےں کہ بہت دیر بعد انہیں کوئی ایسی خبر ملی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی گرفت امیروں اور غریبوں کے لئے یکساں ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ عوام کے لوٹے ہوئے اس سرمائے کی واپسی کو روکنا اب ممکن نہیں رہا۔
مےں یہاں جناب مجید نظامی صاحب کی اجازت اور آپ سب لوگوں کی تائید کے ساتھ سپریم کورٹ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ حکومت کو اس امر کا پابند کر دے کہ جب قومی خزانے سے لوٹی ہوئی 193 ارب روپے کی یہ رقم واپس مل جائے تو اسے صرف اور صرف عوام کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر صرف کیا جائے۔
(25 دسمبر 2009ءقائد اعظم کے یوم ولادت پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب)