حیرانگی ہے کہ آج سے 25 سال قبل 1984 میں ہانگ کانگ میں قائم کیے گئے ایشین ہیومین رائٹ کمیشن (AHRC) نے NRO سے متعلق حالیہ تاریخی عدالتی فیصلے پر لکھے گئے عاصمہ جہانگیر کے تنقیدی نوٹ کو تقریباً دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا محترمہ چونکہ خود پاکستان میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی علمبردارہیں اس لیے ڈان اخبار میں لکھے گئے انکے اس مضمون پر پاکستان میں بھی بہت تنقید ہوئی ۔ عاصمہ جہانگیر کے خیال میں :۔
٭اگرچہ این آر او کا دفاع بالکل ممکن نہیں تھا پھر بھی عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں جو فیصلہ سنایا ہے اس کے سیاسی مضمرات سے بچنا مشکل ہے
٭عاصمہ جہانگیر کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے کرپشن کا خاتمہ تو شاید نہ ہوسکے لیکن یہ اعلی ترین عدالت کو متنازع ضرور بنا دے گا۔
٭انکے خیال میں یہ ایک ایسا جانبدارانہ فیصلہ ہے جس سے \\\"Winch Hunt\\\" کی بو آتی ہے عاصمہ کے مطابق اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کیلئے انصاف کے مختلف معیار رکھے گئے ہیں۔
٭یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے میں خصوصاً عدلیہ اور انتظامیہ میں تفریق والی لائن ٹوٹتی نظر آتی ہے جس سے عدلیہ انتظامیہ کے دائرے میں مخل ہوتی نظر آتی ہے۔
٭عاصمہ کہتی ہیں کہ عدالت نے پہلے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے NROکو چار ماہ کی زندگی دی اور پھر یہ کہہ کر اس آرڈیننس کو خود رد کر دیا کہ یہ تو آئین سے متصادم ہے۔ اگر واقعی ایسا تھا تو اس کو اسمبلی میں پیش کرنا کیوں ضروری تھا۔
٭عدالت عظمیٰ نے NRO کو رد کرنے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ یہ آئین کے آرٹیکل 62 (F) سے بھی متصادم ہے حالانکہ عاصمہ کیمطابق مذکورہ بالا آرٹیکل ایک آمر ضیاء الحق نے آئین میں ڈلوایا تھا تا کہ ارکان اسمبلی اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کرتے رہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس آرٹیکل کا حوالہ دیکر اس کو دوبارہ زندہ کیا جو عاصمہ جہانگیر کے خیال میں درست نہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے بہت کام کیا ہے۔ ایک قانون دان ہوتے ہوئے عدلیہ کے 17 ججوں کے مشترکہ فیصلے پران کی ایسی بے دریغ یلغارقومی مفادات کے منافی ہے ۔ہر محب وطن پاکستانی یہ جانتا ہے کہ عدالتوں کو متنازع بنانے سے دہشت گردی کے خون میں لت پت ، پہلے سے کمزور پاکستانی ریاست کا شیرازہ بکھر سکتا ہے چونکہ کسی بھی ملک کی آزادی کا ضامن اس کا عدالتی نظام ہی ہوتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہوائی حملوں سے گھبرائے ہوئے برطانوی عوام کو چرچل نے یہ کہہ کر سہارا دیا تھا کہ اگر عدل کا نظام چل رہا ہے تو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہم نے بھی اپنے نظام عدل کو مضبوط کرنا ہے۔ NRO کے سلسلے میں چند اہم حقائق یہ ہیں:۔
٭پاکستان کے 17 کروڑ عوام میں سے شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو NRO کو انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم تصور نہ کرتا ہو چونکہ اس آرڈیننس کے تحت ایک آمر نے اپنی کرسی بچانے کیلئے کچھ لوگوں کے ایک مخصوص مدت میں کیے گئے ریاست کیخلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جس کو عوام نے مسترد کر دیا ۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ بھی مانتی ہیں کہ جمہوری سسٹم کو داؤ پر لگا کر بھی NRO ختم کرنا ضروری تھا اور چونکہ اس فیصلے سے مستفید ہونے والے کچھ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر اب بھی فائز ہیں اس لیے اسکے سیاسی مضمرات تو ضرورہونگے لیکن یہ کہنا کہ اس میں عدالت کا اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا بھی ہو سکتا ہے بہت بڑی زیادتی ہے ۔ دراصل یہ عدالتی فیصلہ پوری پاکستانی قوم کی امنگوں کا آئینہ دار ہے۔
٭اس سے کرپشن کرنیوالوں کی ضرور حوصلہ شکنی ہوگی جس کا واضح ثبوت ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل پاکستان کے چیئرمین سید عادل جیلانی کا یہ بیان ہے:۔
\\\"As the court\\\'s decision dealt a death blow to the licence-to-continue corruption ordinance late Wednesday, the following day TIP received calls from six departments requesting time and advice on eradication of corruption.\\\" Transparency International.
یعنی کرپشن کی کھلی چھٹی دینے والے آرڈیننس کے خاتمے کے ساتھ ہی اگلے دن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو چھ محکموں نے ٹیلی فون کر کے درخواست کی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے آپ ہماری مدد فرمائیں۔
٭قرضے معاف کروانیوالے اور مہران بینک جیسے اور بہت سے ، برسوں سے التوا میں پڑے ہوے، کرپشن کے مقدمات سے پہلے NRO کو فوری طور پر سننا اس لیے ضروری تھا کہ قتل و غارت اور اربوں روپے کی سنگین کرپشن میں ملوث ملزمان میں سے کچھ اب پھر حکومتی تجوریوںکے نگاہ بان ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن کارپوریشنوں میں اربوں کی کرپشن اور سینکڑوں ایکڑ زمین ہتھیانے کے مقدمات سامنے آ رہے ہیں اور ریاض لال جی جیسے کچھ ملزمان، ایک اطلاع کیمطابق، ملک سے بھاگ چکے ہیں جس سے مزید شکوک جنم لے رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی مقدمات میں مزید تاخیر ہونی چاہیے۔ ایک اعلی عدالتی کمیشن بنا کر ہر مقدمہ غور سے سنا جائے اور انصاف پر مبنی فوری فیصلے کیے جائیں۔ شیخ ریشید کی ضمنی انتخابات سے متعلق پٹییشن کا فیصلہ جلد آ جائیگا جو کافی حد تک واضح ہے پتہ نہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس کیس میں ’’ آبیل مجھے مار‘‘ ولی پالیسی کس بصیرت کے تحت اپنائی ہے۔
٭…ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ سیاسی بھائی یہ کہہ کر شاباش لینا چاہتے ہیں کہ ان پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ان پر تو صرف قتل اور اقدام قتل کے فوجداری مقدمات ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ یہ کہا جائے کہ ایک آدمی کی جیب سے رقم اڑا لے جانیوالا شخص اس کو قتل کرنیوالے شخص سے بڑا مجرم ہے اللہ کرے کہ قتل کے سارے ملزمان بے گناہ ثابت ہوںلیکن اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ درجنوں لوگوں کے قتل میں کوئی لوگ تو ملوث تھے۔12؍مئی 2007 کو بھی قتل وغارت ہوئی جس کی ابھی تک ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی ‘ اس لیے یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عورتیں بیوہ ہوئی ہیں اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔ غنوہ بھٹو اور فاطمہ بھٹو کے گھر کا چراغ بھی گل ہو گیا اس کیس میں مقتول ایک وزیر اعظم کا بیٹا اور دوسری برسراقتدار وزیراعظم کا بھائی تھا آخر کار اس قتل کا کون ذمہ دار کون تھا۔ خالد شہنشاہ کے قتل کا کیا ہوا۔ منور سہروردی کا قاتل کون تھا، بے نظیر بھٹو کی جان کس نے لی؟ ایم کیو ایم(متحدہ)، ایم کیو ایم حقیقی اور پیپلز پارٹی کے سینکڑوں مقتولین کے ورثاء کو کیا جواب دیا جائے اور حکیم سعید کا قاتل کہاں سے ڈھونڈا جائے۔
٭آئین کی شق 62(F) کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ آئین میں ایک آمر نے ڈلوائی تھی ، غلط ہو گا چونکہ اس آمر کے حکومت سے چلے جانے کے بعد ساری جمہوری حکومتوں نے بھی اس کو جوں کا توں رکھا اس لیے عدالت اس کا حوالہ دینے میں حق بجانب ہے چونکہ وہ آئین کا حصہ ہے۔ اگر یہ آرٹیکل غلط ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 248 کے متعلق کیا خیال ہے جو صدر کو Blank immunity دیتا ہے ۔ کیا یہ آرٹیکل آئین کے آرٹیکل 227 سے متصادم نہیں جو کہتا ہے کہ سارے قوانین قرآن و سنت کیمطابق بنائے جائینگے؟ کیا اسلام میں خلیفہ کو ہر طرح کے جرم کی مکمل چھوٹ کا کوئی تصور ہے؟ اور پھر یہ چھوٹ تو دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت میں بھی نہیں۔ امریکی چوٹی کے دو سابق صدور نکسن اور کلنٹن کیخلاف عدالت کے ذریعے Criminal investigation شروع ہو گئی تھی اسکے بعد صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسکے علاوہ اٹلی کی عدالت عظمیٰ نے بھی حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم Silvio Birlusconi کی ایمیونیٹی کو ختم کر کے اس کیخلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھول دیئے ہیں۔
قارئین! ماضی کی یہ ساری باتیں بہت اہم ہیں لیکن یہ پاکستان کے مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ۔ اس لیے کرپشن کے مقدمات کے معاملات عدالتوں پر چھوڑ دئیے جائیں اور ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ ہماری پوری قوم کا دھیان اب پاکستان کے مستقبل پر مرکوز ہونا چاہیے ۔ ہم نے سوچنا ہے کہ ملک کو ان گھمبیر حالات سے نکال کر آگے ترقی کی راہ پر گامزن کیسے کیا جائے۔ آج کل جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور جس طرح عدلیہ کو بدنام کرنے کی مہم شروع ہو چکی ہے اس سے پاکستان پیچھے تو پھسل سکتا ہے لیکن آگے نہیں جا سکتا۔ اب ہمیں قائد اعظم کے پاکستان کو بچانے کیلئے مندرجہ ذیل اندرونی اور بیرونی محاذوں پر یکسوئی سے لڑنا چاہیے:۔
٭اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلئے پوری پاکستانی قوم ایک ہو جائے اور حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی مکمل مدد کی جائے۔ ملک کے اندر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے اور CIA سمیت سارے بیرونی ایجنٹوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور اپنی بندرگاہیںاور ہوائی اڈے خالی کروا لیے جائیں۔ عدالتیں انصاف کے پرچار اور کرپشن کے خاتمے کی مہم کو جاری رکھیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے آپکو گندے انڈوں سے پاک کر لیں اور اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوری طرز عمل کو اپنائیں۔
٭بیرونی محاذ پر امریکہ، روس، چین ، ایران، ہندوستان اور افغانستان کیساتھ ہمارے مذاکرات پیشہ ور سفیروں کی مدد سے شروع کیے جائیں۔ افغانستان کیساتھ مذاکرات میں افغان حکومت،طالبان وار لارڈز ، حقانی اور حکمت یار گروپ سب شامل ہوں ۔ امریکہ پر زور دیا جائے کہ افغانستان سے فوج کا انخلا کرے اور مسئلے کے حل کیلئے سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔ 27 ؍اگست 1947 کو قائد اعظم نے قوم کے نام ایک پیغام میں جو کچھ کہا تھا وہ آج بھی لاگو ہے ۔ انہوں نے کہا:۔
’’ ہم اپنے مستقبل کی طرف خود اعتمادی سے صرف اس صورت میں دیکھ سکتے ہیں اگر ہم آرام سے نہ بیٹھ جائیں اور نہ اپنی طاقت کو اپنے اندرونی خلفشار کی نظر کریں۔ ہمارے اندر ضبط اور اتحاد کی جو ضرورت آج ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ پاکستان سے متعلق ہمارے خوابوں کی تعبیر صرف اسی صورت میں ممکن ہو گی جب ہم اجتماعی سعی کریں اور منزل کے حصول کیلئے ہمیں یقین کامل ہو‘‘۔
٭اگرچہ این آر او کا دفاع بالکل ممکن نہیں تھا پھر بھی عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں جو فیصلہ سنایا ہے اس کے سیاسی مضمرات سے بچنا مشکل ہے
٭عاصمہ جہانگیر کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے کرپشن کا خاتمہ تو شاید نہ ہوسکے لیکن یہ اعلی ترین عدالت کو متنازع ضرور بنا دے گا۔
٭انکے خیال میں یہ ایک ایسا جانبدارانہ فیصلہ ہے جس سے \\\"Winch Hunt\\\" کی بو آتی ہے عاصمہ کے مطابق اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں کیلئے انصاف کے مختلف معیار رکھے گئے ہیں۔
٭یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے میں خصوصاً عدلیہ اور انتظامیہ میں تفریق والی لائن ٹوٹتی نظر آتی ہے جس سے عدلیہ انتظامیہ کے دائرے میں مخل ہوتی نظر آتی ہے۔
٭عاصمہ کہتی ہیں کہ عدالت نے پہلے اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے NROکو چار ماہ کی زندگی دی اور پھر یہ کہہ کر اس آرڈیننس کو خود رد کر دیا کہ یہ تو آئین سے متصادم ہے۔ اگر واقعی ایسا تھا تو اس کو اسمبلی میں پیش کرنا کیوں ضروری تھا۔
٭عدالت عظمیٰ نے NRO کو رد کرنے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ یہ آئین کے آرٹیکل 62 (F) سے بھی متصادم ہے حالانکہ عاصمہ کیمطابق مذکورہ بالا آرٹیکل ایک آمر ضیاء الحق نے آئین میں ڈلوایا تھا تا کہ ارکان اسمبلی اپنے آپکو غیر محفوظ تصور کرتے رہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اس آرٹیکل کا حوالہ دیکر اس کو دوبارہ زندہ کیا جو عاصمہ جہانگیر کے خیال میں درست نہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے پاکستان میں انسانی حقوق کیلئے بہت کام کیا ہے۔ ایک قانون دان ہوتے ہوئے عدلیہ کے 17 ججوں کے مشترکہ فیصلے پران کی ایسی بے دریغ یلغارقومی مفادات کے منافی ہے ۔ہر محب وطن پاکستانی یہ جانتا ہے کہ عدالتوں کو متنازع بنانے سے دہشت گردی کے خون میں لت پت ، پہلے سے کمزور پاکستانی ریاست کا شیرازہ بکھر سکتا ہے چونکہ کسی بھی ملک کی آزادی کا ضامن اس کا عدالتی نظام ہی ہوتا ہے۔دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہوائی حملوں سے گھبرائے ہوئے برطانوی عوام کو چرچل نے یہ کہہ کر سہارا دیا تھا کہ اگر عدل کا نظام چل رہا ہے تو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ہم نے بھی اپنے نظام عدل کو مضبوط کرنا ہے۔ NRO کے سلسلے میں چند اہم حقائق یہ ہیں:۔
٭پاکستان کے 17 کروڑ عوام میں سے شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو NRO کو انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم تصور نہ کرتا ہو چونکہ اس آرڈیننس کے تحت ایک آمر نے اپنی کرسی بچانے کیلئے کچھ لوگوں کے ایک مخصوص مدت میں کیے گئے ریاست کیخلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جس کو عوام نے مسترد کر دیا ۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ بھی مانتی ہیں کہ جمہوری سسٹم کو داؤ پر لگا کر بھی NRO ختم کرنا ضروری تھا اور چونکہ اس فیصلے سے مستفید ہونے والے کچھ لوگ بڑے بڑے عہدوں پر اب بھی فائز ہیں اس لیے اسکے سیاسی مضمرات تو ضرورہونگے لیکن یہ کہنا کہ اس میں عدالت کا اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا بھی ہو سکتا ہے بہت بڑی زیادتی ہے ۔ دراصل یہ عدالتی فیصلہ پوری پاکستانی قوم کی امنگوں کا آئینہ دار ہے۔
٭اس سے کرپشن کرنیوالوں کی ضرور حوصلہ شکنی ہوگی جس کا واضح ثبوت ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل پاکستان کے چیئرمین سید عادل جیلانی کا یہ بیان ہے:۔
\\\"As the court\\\'s decision dealt a death blow to the licence-to-continue corruption ordinance late Wednesday, the following day TIP received calls from six departments requesting time and advice on eradication of corruption.\\\" Transparency International.
یعنی کرپشن کی کھلی چھٹی دینے والے آرڈیننس کے خاتمے کے ساتھ ہی اگلے دن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو چھ محکموں نے ٹیلی فون کر کے درخواست کی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے آپ ہماری مدد فرمائیں۔
٭قرضے معاف کروانیوالے اور مہران بینک جیسے اور بہت سے ، برسوں سے التوا میں پڑے ہوے، کرپشن کے مقدمات سے پہلے NRO کو فوری طور پر سننا اس لیے ضروری تھا کہ قتل و غارت اور اربوں روپے کی سنگین کرپشن میں ملوث ملزمان میں سے کچھ اب پھر حکومتی تجوریوںکے نگاہ بان ہیں یہی وجہ ہے کہ آئے دن کارپوریشنوں میں اربوں کی کرپشن اور سینکڑوں ایکڑ زمین ہتھیانے کے مقدمات سامنے آ رہے ہیں اور ریاض لال جی جیسے کچھ ملزمان، ایک اطلاع کیمطابق، ملک سے بھاگ چکے ہیں جس سے مزید شکوک جنم لے رہے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی مقدمات میں مزید تاخیر ہونی چاہیے۔ ایک اعلی عدالتی کمیشن بنا کر ہر مقدمہ غور سے سنا جائے اور انصاف پر مبنی فوری فیصلے کیے جائیں۔ شیخ ریشید کی ضمنی انتخابات سے متعلق پٹییشن کا فیصلہ جلد آ جائیگا جو کافی حد تک واضح ہے پتہ نہیں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس کیس میں ’’ آبیل مجھے مار‘‘ ولی پالیسی کس بصیرت کے تحت اپنائی ہے۔
٭…ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ سیاسی بھائی یہ کہہ کر شاباش لینا چاہتے ہیں کہ ان پر کرپشن کا تو کوئی الزام نہیں ان پر تو صرف قتل اور اقدام قتل کے فوجداری مقدمات ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ یہ کہا جائے کہ ایک آدمی کی جیب سے رقم اڑا لے جانیوالا شخص اس کو قتل کرنیوالے شخص سے بڑا مجرم ہے اللہ کرے کہ قتل کے سارے ملزمان بے گناہ ثابت ہوںلیکن اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ درجنوں لوگوں کے قتل میں کوئی لوگ تو ملوث تھے۔12؍مئی 2007 کو بھی قتل وغارت ہوئی جس کی ابھی تک ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی ‘ اس لیے یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ عورتیں بیوہ ہوئی ہیں اور بچے یتیم ہوئے ہیں۔ غنوہ بھٹو اور فاطمہ بھٹو کے گھر کا چراغ بھی گل ہو گیا اس کیس میں مقتول ایک وزیر اعظم کا بیٹا اور دوسری برسراقتدار وزیراعظم کا بھائی تھا آخر کار اس قتل کا کون ذمہ دار کون تھا۔ خالد شہنشاہ کے قتل کا کیا ہوا۔ منور سہروردی کا قاتل کون تھا، بے نظیر بھٹو کی جان کس نے لی؟ ایم کیو ایم(متحدہ)، ایم کیو ایم حقیقی اور پیپلز پارٹی کے سینکڑوں مقتولین کے ورثاء کو کیا جواب دیا جائے اور حکیم سعید کا قاتل کہاں سے ڈھونڈا جائے۔
٭آئین کی شق 62(F) کو اس لیے نظر انداز کرنا کہ وہ آئین میں ایک آمر نے ڈلوائی تھی ، غلط ہو گا چونکہ اس آمر کے حکومت سے چلے جانے کے بعد ساری جمہوری حکومتوں نے بھی اس کو جوں کا توں رکھا اس لیے عدالت اس کا حوالہ دینے میں حق بجانب ہے چونکہ وہ آئین کا حصہ ہے۔ اگر یہ آرٹیکل غلط ہے تو پھر آئین کے آرٹیکل 248 کے متعلق کیا خیال ہے جو صدر کو Blank immunity دیتا ہے ۔ کیا یہ آرٹیکل آئین کے آرٹیکل 227 سے متصادم نہیں جو کہتا ہے کہ سارے قوانین قرآن و سنت کیمطابق بنائے جائینگے؟ کیا اسلام میں خلیفہ کو ہر طرح کے جرم کی مکمل چھوٹ کا کوئی تصور ہے؟ اور پھر یہ چھوٹ تو دنیا کی مضبوط ترین جمہوریت میں بھی نہیں۔ امریکی چوٹی کے دو سابق صدور نکسن اور کلنٹن کیخلاف عدالت کے ذریعے Criminal investigation شروع ہو گئی تھی اسکے بعد صدر نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اسکے علاوہ اٹلی کی عدالت عظمیٰ نے بھی حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم Silvio Birlusconi کی ایمیونیٹی کو ختم کر کے اس کیخلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھول دیئے ہیں۔
قارئین! ماضی کی یہ ساری باتیں بہت اہم ہیں لیکن یہ پاکستان کے مستقبل سے زیادہ اہم نہیں ۔ اس لیے کرپشن کے مقدمات کے معاملات عدالتوں پر چھوڑ دئیے جائیں اور ان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔ ہماری پوری قوم کا دھیان اب پاکستان کے مستقبل پر مرکوز ہونا چاہیے ۔ ہم نے سوچنا ہے کہ ملک کو ان گھمبیر حالات سے نکال کر آگے ترقی کی راہ پر گامزن کیسے کیا جائے۔ آج کل جو کچھ ہم کر رہے ہیں اور جس طرح عدلیہ کو بدنام کرنے کی مہم شروع ہو چکی ہے اس سے پاکستان پیچھے تو پھسل سکتا ہے لیکن آگے نہیں جا سکتا۔ اب ہمیں قائد اعظم کے پاکستان کو بچانے کیلئے مندرجہ ذیل اندرونی اور بیرونی محاذوں پر یکسوئی سے لڑنا چاہیے:۔
٭اندرونی محاذ پر دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلئے پوری پاکستانی قوم ایک ہو جائے اور حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی مکمل مدد کی جائے۔ ملک کے اندر مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جائے اور CIA سمیت سارے بیرونی ایجنٹوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور اپنی بندرگاہیںاور ہوائی اڈے خالی کروا لیے جائیں۔ عدالتیں انصاف کے پرچار اور کرپشن کے خاتمے کی مہم کو جاری رکھیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے آپکو گندے انڈوں سے پاک کر لیں اور اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوری طرز عمل کو اپنائیں۔
٭بیرونی محاذ پر امریکہ، روس، چین ، ایران، ہندوستان اور افغانستان کیساتھ ہمارے مذاکرات پیشہ ور سفیروں کی مدد سے شروع کیے جائیں۔ افغانستان کیساتھ مذاکرات میں افغان حکومت،طالبان وار لارڈز ، حقانی اور حکمت یار گروپ سب شامل ہوں ۔ امریکہ پر زور دیا جائے کہ افغانستان سے فوج کا انخلا کرے اور مسئلے کے حل کیلئے سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔ 27 ؍اگست 1947 کو قائد اعظم نے قوم کے نام ایک پیغام میں جو کچھ کہا تھا وہ آج بھی لاگو ہے ۔ انہوں نے کہا:۔
’’ ہم اپنے مستقبل کی طرف خود اعتمادی سے صرف اس صورت میں دیکھ سکتے ہیں اگر ہم آرام سے نہ بیٹھ جائیں اور نہ اپنی طاقت کو اپنے اندرونی خلفشار کی نظر کریں۔ ہمارے اندر ضبط اور اتحاد کی جو ضرورت آج ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ پاکستان سے متعلق ہمارے خوابوں کی تعبیر صرف اسی صورت میں ممکن ہو گی جب ہم اجتماعی سعی کریں اور منزل کے حصول کیلئے ہمیں یقین کامل ہو‘‘۔