مقبوضہ کشمیر پربھارتی ورکنگ گروپ کی سفارشات بھارت اب کشمیری عوام کا استصواب کا حق تسلیم کرلے
بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے قائم کردہ ورکنگ گروپ نے سفارش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو 1953ء سے پہلے والی پوزیشن پر خودمختاری دیکر 60 سال پرانا یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ منموہن سنگھ نے مرکزی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کے مابین تعلقات کے بارے میں جسٹس (ر) صغیر احمد کی سربراہی میں یہ ورکنگ گروپ قائم کیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس کے بارے میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو موجودہ شکل میں برقرار رکھنے یا اسے ختم کرنے کا معاملہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ رپورٹ مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو بھی پیش کردی گئی ہے جن کے بقول ورکنگ گروپ کی یہ رپورٹ انکی جماعت نیشنل کانفرنس کی جانب سے خودمختاری کے مطالبہ کو تقویت دیتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارتی ہٹ دھرمی سے ہی پیدا ہوا ہے‘ ورنہ 1947ء میں ہی تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق حیدرآباد دکن‘ جوناگڑھ‘ مناوادر کی طرح ریاست کشمیر کے عوام کو بھی یہ حق دیدیا جاتا کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے‘ یا بھارت کے ساتھ تو یہ معاملہ تقسیم ہند کا ایجنڈہ مکمل ہونے کی صورت میں اسی وقت طے ہو جاتا اور تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک پرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر اپنی اپنی آزاد اور خودمختار حیثیت میں ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو چکے ہوتے۔ مگر مکار ہندو بنیاء لیڈر شپ کو جس نے تقسیم ہند کو اور پاکستان کو اسکی آزاد اور خودمختار حیثیت میں دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا‘ یہ دھڑکا لاحق ہوا کہ رائے شماری میں کشمیری عوام کا ووٹ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں جائیگا۔ چنانچہ انہوں نے بزور کشمیر پر اپنا تسلط جمالیا اور پھر پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر گئے جس نے یکے بعد دیگرے اپنی دو قراردادوں کے ذریعہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو رائے شماری کا اہتمام کرنے کیلئے کہا مگر شاطر ہندو بنیاء اپنے ہی کیس میں یو این جنرل اسمبلی کے فیصلہ پر عملدرآمد سے منکر ہو گیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج داخل کرکے اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط بنا لیا اور پھر آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا طولانی سلسلہ شروع کر دیا۔ پھر کشمیر کو دنیا سے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ تسلیم کرانے کیلئے 1953ء میں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے اسکی دفعہ 370 کے تحت اسے ایک بھارتی ریاست کا سٹیٹس دے دیا گیا۔ اسی بنیاد پر آج تک بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ برسر پیکار ہے‘ اس پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے‘ 1971ء میں ایک گھنائونی سازش کے تحت مشرقی پاکستان کو پاکستان کے وجود سے کاٹ چکا ہے اور اب وہ جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کا ناطقہ تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہو چکا ہے۔ جس کے تحت سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے پہلے بگلیہار ڈیم کا پانی کا سٹوریج وسیع کیا اور پھر کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریائوں پر 62 سے زائد ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرکے اس نے پاکستان کے حصے کا پانی بھی اپنے تصرف میں لانا شروع کردیا‘ جس کا واحد مقصد پاکستان کی زرخیز دھرتی کو ریگستان میں تبدیل کرکے اسے ایتھوپیا‘ صومالیہ کے انجام سے دوچار کرنا اور اسکے عوام کو بھوکا پیاسا مارنا ہے تاکہ وہ ایک کمزور پاکستان کو آسانی کے ساتھ ہڑپ کرکے اکھنڈ بھارت کے ناپاک منصوبے کی تکمیل کر سکے۔
بانی ٔ پاکستان قائداعظمؒ نے اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کہ اس کے بغیر پاکستان کے وجود میں زندگی کی لہر نہیں دوڑ سکتی۔ جب تقسیم ہند کے ایجنڈے میں آزاد ہونے والے ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ تسلیم کیا گیا تو پھر اس لفظ کو ادھورا رکھ کر تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا قاف کشمیر ہی سے منسوب ہے‘ اس لئے یہ لفظ پاکستان کے ساتھ جڑے گا تو پاکستان کا وجود مکمل ہو گا چنانچہ اسی اصول اور ضرورت کی بنیاد پر پاکستان کشمیر پر اپنا کلیم رکھتا ہے جو پاکستان کا دیرینہ اور اصولی مؤقف بھی ہے جبکہ کشمیری عوام کو استصواب کا حق دیکر یہ تنازعہ مستقل طور پر اور ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت اب تک اس راہ پر نہیں آرہا اور کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان کیساتھ برسر پیکار رہنا اس نے اپنے معمولات کا حصہ بنایا ہوا ہے‘ توپاکستان پر بھارت کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے دبائو ڈالنے والے امریکہ اور یورپ کو پہلے بھارت کو تو یو این قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے استصواب کی راہ پر لانا چاہئے‘ اس کے بعد استصواب کے طریق کار اور بائونڈری کے تعین کے معاملات پر ضرور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے۔
اب بھارتی وزیراعظم کے اپنے قائم کردہ ورکنگ گروپ نے انہیں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کی 1953ء سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے اور کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے مستقبل کا کشمیری عوام سے فیصلہ کرانے کی راہ دکھائی ہے تو انہیں اپنے قائم کردہ اس گروپ کی سفارشات کا ہی احترام کرنا چاہئے جو کشمیری عوام کا استصواب کا حق تسلیم کرانے کیلئے یو این قراردادوں سے ہی مطابقت رکھتی ہیں۔ یقیناً اپنے مستقبل کا تعین کشمیری عوام نے استصواب کے ذریعے خود کرنا ہے جن کا یہ حق اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے‘ اس لئے مکار ہندو بنیاء کو اپنے ہی ورکنگ گروپ کی سفارشات کو پیش نظر رکھ کر کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ دینی چاہئے‘ اس دیرینہ مسئلہ کے کشمیری عوام کی امنگوں کیمطابق حل کی راہ پر آنا چاہئے اور علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت فراہم کرنی چاہئے۔ استصواب کے عمل میں کشمیری عوام جو فیصلہ بھی کرینگے‘ وہ پاکستان کو قابل قبول ہو گا مگر بھارتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اسکی یا اسکے ایماء پر کسی تیسری طاقت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل ٹھونسنے کی کوشش کی جائیگی تو یہ کشمیری عوام اور پاکستان کو کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر مذاکرات سے بدکنے والے بھارت سے اب اسکے ساتھ دوستی کے غم میں مبتلا ہمارے حکمرانوں کو بھی مایوسی ہوئی ہے اور دفتر خارجہ کی جانب سے بھارت کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی ترک کرکے حقائق کو تسلیم کرے۔ اس پر بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ ورکنگ گروپ کی سفارشات نے کشمیر پر ہمارے دیرینہ اور اصولی مؤقف کو مزید تقویت پہنچائی ہے اس لئے بھارت کو بدکنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے یو این قراردادوں کیمطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر آجانا چاہئے اسی سے علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت مل سکتی ہے اور دونوں ممالک کے عوام اپنی ترقی و خوشحالی کی منزل پا سکتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب !
پاکستان کے عوام سب جانتے ہیں!
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں میری حکومت ہے‘ شریک چیئرمین صرف پارٹی چلاتے ہیں‘ سبحان اللہ! ججوں کو میں نے بحال کیا ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نہیں۔ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا اس حوالے سے فوج کا کوئی دبائو نہیں تھا۔ ججوں کی بحالی میں فوج کا کوئی کردار نہیں میں نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ ججوں کو بحال کرینگے۔ دنیا کچھ بھی کہے ججز ہم نے بحال کئے تھے میں نے اور صدر زرداری نے ججز کو بحال کرنے کا فیصلہ کرکے جنرل کیانی کو آگاہ کر دیا تھا۔ صدر زرداری نہ چاہتے تو ججز کبھی بحال نہ ہوتے پیپلز پارٹی کیساتھ فوج کے تعلقات پہلی بار بہتر ہوئے ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جب قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کی تھی اس وقت انہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی گھروں میں نظربندی اور قید سے رہائی کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے ان ججوں کو اس وقت بحال کرنے کا حکم جاری نہیں کیا تھا۔ اگر انہوں نے اسی روز ججوں کی بحالی کا حکم جاری کر دیا ہوتا تو آج اعلیٰ عدلیہ کی صورتحال مختلف ہوتی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جو موقف جس اصرار کے ساتھ بیان کیا ہے وہ محل نظر ہے۔ اسکے علاوہ عدلیہ کو احتساب کرنے اور ملک و قوم کا اربوں روپیہ ہضم کرنیوالے افراد کو کٹہرے میں لانے سے بھی دور کرنے کیلئے عملی حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے حامی قانونی، سیاسی اور سماجی حلقے عدالتوں پر چیخ و چلا رہے ہیں اور فاضل عدالتوں کو \\\"Bully\\\" کیا جا رہا ہے آئین اور قانون کے احترام کے تقاضے تو یہ ہیں کہ جن لوگوں کا احتساب مطلوب ہے ان کو انکے سرکاری عہدوں سے فارغ کرکے عدالت کے رحم و کرم اور آئندہ ہونیوالی تحقیقات کے نتائج پر چھوڑ دیا جاتا۔ جو لوگ اس عمل میں بے گناہ ثابت ہوئے انہیں دوبارہ حکومت میں لے لیا جاتا۔ سوئس اکائونٹس موجود ہیں جن کے نام پر ہیں وہ اس کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں اور ’سرے محل‘ بھی موجود ہے اسکی ملکیت سے انکار کرنیوالے خود ہی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ انکی ملکیت ہے۔ اسی طرح فرانس اور سپین میں موجود املاک اور بنک اکائونٹس کا بھی پاکستان کے ہر شہری کو علم ہے کہ یہ کن لوگوں کی املاک ہیں۔ اگر یہ سب لوگ قوم کو اعتماد میں لیکر یہ وضاحت فرمانے کے قابل ہیں کہ وہ یہ ثابت کریں تو ان املاک کیلئے انکے پاس سرمایہ کہاں سے آیا؟ یا پھر وہ ان تمام املاک کو اور اکائونٹس کو بحق حکومت پاکستان سرنڈر کر دیں۔ قوم سے معافی طلب کریں تو یقیناً فاضل عدالتیں بھی انکے بارے میں اپنے موقف کو نرم کر سکتی ہیں۔ بیرون ملک جا کر اپنی غیر قانونی املاک کے مقدمات بھی لڑے جا رہے ہیں اور اپنے آپکو معصوم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ آخر اسکی منطق کیا ہے؟ وزیراعظم خود جانتے ہیں کہ اگر ججوں کو انہوں نے بحال کیا ہوتا تو رائے ونڈ سے قافلہ مریدکے تک نہ جاتا اور وہاں اس قافلے کو ٹھہرا کر جن لیڈروں نے مذاکرات کئے تھے ان میں وزیراعظم کا نام نہ تھا‘ اس لئے آپ سے پوری قوم کی گزارش ہے کہ آپ اپنا کریڈٹ لینے کے ماحول کو عدالتوں کیلئے قابل قبول بنائیے کیونکہ عوام سب جانتے ہیں۔ جو لوگ بھی قومی دولت کے خرد برد، رشوت ستانی، کمیشن اور کک بیکس اور عدالتوں میں وکالت کے نام پر بھاری فیسیں وصول کرنے میں ملوث ہیں ان سب کو حکومت کے ’’سایہ عاطفت‘‘ سے باہر نکال دیں تاکہ یہ تحقیق و تفتیش کے عمل پر اثرانداز نہ ہو سکیں اور پاکستان کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنائیں اسے پاکستان کے 17 کروڑ عوام کی حکومت سمجھیں۔ آپ نے آئندہ بھی عوام کے سامنے جانا ہے اور آج کا حساب بھی آج ہی دینا ہے۔ جمہوریت عوام کیلئے ہوتی ہے صرف آپکی پارٹی اور آپکے لیڈروں کیلئے نہیں۔
شاہراہ فاطمہ جناح… عدلیہ کے
احکامات پر عملدرآمد کرائیں
چیف جسٹس لاہور کورٹ مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف نے بدھ کے روز سی سی پی او آفس کے سامنے شاہراہ فاطمہ جناح پر سڑک پر دیوار کی غیرقانونی تعمیر روکنے کا حکم دیتے ہوئے زیر تعمیر دیوار کے خاتمے اور شاہراہ فاطمہ جناح پر دو طرفہ ٹریفک کی بحالی کے احکامات جاری کئے تھے مگر پولیس حکام نے ان احکامات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور شاہراہ فاطمہ جناح پر زیر تعمیر دیوار کو گرایا نہیں گیا۔ پولیس نے سڑک کا کچھ حصہ یکطرفہ طور پر کھولا تھا اور وہاں سے بھی لوگوں کو لوہے کے بیریئر لگا کر ایک قطار کی شکل میں گزارا جاتا ہے۔ فیصل چوک سے شاہراہ فاطمہ جناح آنیوالے تمام راستے پولیس نے بیریئر لگا کر بدستور بند رکھے ہیں جبکہ سی سی پی او دفتر کے سامنے زیر تعمیر دیوار پر لوہے کے بلاکس اور لکڑی کے بالوں کی شٹرنگ لگی ہوئی ہے اور زیر تعمیر دیوار لوہے کے سریوں‘ سیمنٹ اور کنکریٹ کی دیوار کو مضبوطی کیساتھ پانی بھی لگایا گیا۔ آج پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ جن کے پاس وسائل ہیں‘ وہ حفاظتی اقدامات بڑھ چڑھ کر رہے ہیں جن کی دسترس میں قومی خزانہ ہے‘ وہ اس کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں‘ کوئی بلٹ پروف گاڑیاں منگوا رہا ہے تو سرکاری دفاتر اور گھروں کو قلعوں میں تبدیل کررہا ہے۔ عوام اور عام ملازم کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سڑک پر کھڑے پولیس اہلکار کے پاس مناسب اسلحہ ہے نہ مناسب حفاظتی لباس۔ ویسے تو جرنیل تک جی ایچ کیو تک میں موجودگی میںبھی محفوظ نہیں تاہم دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ سڑکوں پر چوکوں‘ چوراہوں اور اہم مقامات کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکار اور عوام ہی بنتے ہیں۔ سی سی پی او آفس‘ تھانہ سول لائن اور اس سے ملحقہ دفاتر کے گرد پہلے ہی حلقہ نما دیوار ہے‘ اب اسکی دیوار کے اندر اور باہر دیواریں بن رہی ہیں‘ بزدلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘ اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ اپنے دفتر کے اندر جتنی بھی دیواریں چنوالیں‘ لیکن دفتر کے باہر سڑک کے عین درمیان دیوار کی تعمیر کا کوئی جواز نہیں‘ کئی مہینوں سے شارع فاطمہ جناح کو نوگو ایریا بنایا ہوا ہے۔ کبھی کبھی یکطرفہ ٹریفک کھول دی جاتی ہے اور لارنس روڈ تو مستقلاً بند کر دی گئی ہے جس کے باعث سارا بوجھ مزنگ روڈ پر آگیا ہے۔ جو خود اپنا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی‘ اسے کیوں نہیں کھولا جاتا؟ سڑکوں کی بندش اور رکاوٹ سے ایک طرف ٹریفک کا مسئلہ بری طرح پیدا ہوا ہے‘ دوسری طرف ان علاقوں میں کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ انتظامیہ سو جائے تو لوگوں کی نظریں عدلیہ پر لگ جاتی ہیں‘ عدالتی احکامات بھی غیرموثر بنا دیئے جائیں تو لوگ کیا کریں؟ سی سی پی او نے عدالت کو تعاون کا یقین دلایا تھا‘ عدلیہ خود آکر دیکھ لے‘ انہوں نے کہاں تک تعاون کیا‘ لوگ بدستور عذاب میں مبتلا ہیں‘ چیف جسٹس ہائیکورٹ سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے شاہراہ فاطمہ جناح اصل حالت میں لانے‘ دوطرفہ ٹریفک بحال کرانے اور لارنس روڈ کھولنے کا اہتمام کرائیںگے۔
یہ حقیقت ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارتی ہٹ دھرمی سے ہی پیدا ہوا ہے‘ ورنہ 1947ء میں ہی تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق حیدرآباد دکن‘ جوناگڑھ‘ مناوادر کی طرح ریاست کشمیر کے عوام کو بھی یہ حق دیدیا جاتا کہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے‘ یا بھارت کے ساتھ تو یہ معاملہ تقسیم ہند کا ایجنڈہ مکمل ہونے کی صورت میں اسی وقت طے ہو جاتا اور تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک پرامن بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر اپنی اپنی آزاد اور خودمختار حیثیت میں ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو چکے ہوتے۔ مگر مکار ہندو بنیاء لیڈر شپ کو جس نے تقسیم ہند کو اور پاکستان کو اسکی آزاد اور خودمختار حیثیت میں دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا‘ یہ دھڑکا لاحق ہوا کہ رائے شماری میں کشمیری عوام کا ووٹ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں جائیگا۔ چنانچہ انہوں نے بزور کشمیر پر اپنا تسلط جمالیا اور پھر پہلے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو خود کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے کر گئے جس نے یکے بعد دیگرے اپنی دو قراردادوں کے ذریعہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو رائے شماری کا اہتمام کرنے کیلئے کہا مگر شاطر ہندو بنیاء اپنے ہی کیس میں یو این جنرل اسمبلی کے فیصلہ پر عملدرآمد سے منکر ہو گیا اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج داخل کرکے اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط بنا لیا اور پھر آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کا طولانی سلسلہ شروع کر دیا۔ پھر کشمیر کو دنیا سے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ تسلیم کرانے کیلئے 1953ء میں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے اسکی دفعہ 370 کے تحت اسے ایک بھارتی ریاست کا سٹیٹس دے دیا گیا۔ اسی بنیاد پر آج تک بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ برسر پیکار ہے‘ اس پر تین جنگیں مسلط کر چکا ہے‘ 1971ء میں ایک گھنائونی سازش کے تحت مشرقی پاکستان کو پاکستان کے وجود سے کاٹ چکا ہے اور اب وہ جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کا ناطقہ تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہو چکا ہے۔ جس کے تحت سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے پہلے بگلیہار ڈیم کا پانی کا سٹوریج وسیع کیا اور پھر کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریائوں پر 62 سے زائد ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کرکے اس نے پاکستان کے حصے کا پانی بھی اپنے تصرف میں لانا شروع کردیا‘ جس کا واحد مقصد پاکستان کی زرخیز دھرتی کو ریگستان میں تبدیل کرکے اسے ایتھوپیا‘ صومالیہ کے انجام سے دوچار کرنا اور اسکے عوام کو بھوکا پیاسا مارنا ہے تاکہ وہ ایک کمزور پاکستان کو آسانی کے ساتھ ہڑپ کرکے اکھنڈ بھارت کے ناپاک منصوبے کی تکمیل کر سکے۔
بانی ٔ پاکستان قائداعظمؒ نے اسی تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کہ اس کے بغیر پاکستان کے وجود میں زندگی کی لہر نہیں دوڑ سکتی۔ جب تقسیم ہند کے ایجنڈے میں آزاد ہونے والے ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ تسلیم کیا گیا تو پھر اس لفظ کو ادھورا رکھ کر تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان کا قاف کشمیر ہی سے منسوب ہے‘ اس لئے یہ لفظ پاکستان کے ساتھ جڑے گا تو پاکستان کا وجود مکمل ہو گا چنانچہ اسی اصول اور ضرورت کی بنیاد پر پاکستان کشمیر پر اپنا کلیم رکھتا ہے جو پاکستان کا دیرینہ اور اصولی مؤقف بھی ہے جبکہ کشمیری عوام کو استصواب کا حق دیکر یہ تنازعہ مستقل طور پر اور ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت اب تک اس راہ پر نہیں آرہا اور کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان کیساتھ برسر پیکار رہنا اس نے اپنے معمولات کا حصہ بنایا ہوا ہے‘ توپاکستان پر بھارت کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے دبائو ڈالنے والے امریکہ اور یورپ کو پہلے بھارت کو تو یو این قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے استصواب کی راہ پر لانا چاہئے‘ اس کے بعد استصواب کے طریق کار اور بائونڈری کے تعین کے معاملات پر ضرور مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے۔
اب بھارتی وزیراعظم کے اپنے قائم کردہ ورکنگ گروپ نے انہیں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی خاطر مقبوضہ کشمیر کی 1953ء سے پہلے والی پوزیشن بحال کرنے اور کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے مستقبل کا کشمیری عوام سے فیصلہ کرانے کی راہ دکھائی ہے تو انہیں اپنے قائم کردہ اس گروپ کی سفارشات کا ہی احترام کرنا چاہئے جو کشمیری عوام کا استصواب کا حق تسلیم کرانے کیلئے یو این قراردادوں سے ہی مطابقت رکھتی ہیں۔ یقیناً اپنے مستقبل کا تعین کشمیری عوام نے استصواب کے ذریعے خود کرنا ہے جن کا یہ حق اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے‘ اس لئے مکار ہندو بنیاء کو اپنے ہی ورکنگ گروپ کی سفارشات کو پیش نظر رکھ کر کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ کی رٹ چھوڑ دینی چاہئے‘ اس دیرینہ مسئلہ کے کشمیری عوام کی امنگوں کیمطابق حل کی راہ پر آنا چاہئے اور علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت فراہم کرنی چاہئے۔ استصواب کے عمل میں کشمیری عوام جو فیصلہ بھی کرینگے‘ وہ پاکستان کو قابل قبول ہو گا مگر بھارتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اسکی یا اسکے ایماء پر کسی تیسری طاقت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل ٹھونسنے کی کوشش کی جائیگی تو یہ کشمیری عوام اور پاکستان کو کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر مذاکرات سے بدکنے والے بھارت سے اب اسکے ساتھ دوستی کے غم میں مبتلا ہمارے حکمرانوں کو بھی مایوسی ہوئی ہے اور دفتر خارجہ کی جانب سے بھارت کو باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی ترک کرکے حقائق کو تسلیم کرے۔ اس پر بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے جبکہ ورکنگ گروپ کی سفارشات نے کشمیر پر ہمارے دیرینہ اور اصولی مؤقف کو مزید تقویت پہنچائی ہے اس لئے بھارت کو بدکنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے یو این قراردادوں کیمطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر آجانا چاہئے اسی سے علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت مل سکتی ہے اور دونوں ممالک کے عوام اپنی ترقی و خوشحالی کی منزل پا سکتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب !
پاکستان کے عوام سب جانتے ہیں!
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان میں میری حکومت ہے‘ شریک چیئرمین صرف پارٹی چلاتے ہیں‘ سبحان اللہ! ججوں کو میں نے بحال کیا ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے نہیں۔ یہ میرا اپنا فیصلہ تھا اس حوالے سے فوج کا کوئی دبائو نہیں تھا۔ ججوں کی بحالی میں فوج کا کوئی کردار نہیں میں نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ ججوں کو بحال کرینگے۔ دنیا کچھ بھی کہے ججز ہم نے بحال کئے تھے میں نے اور صدر زرداری نے ججز کو بحال کرنے کا فیصلہ کرکے جنرل کیانی کو آگاہ کر دیا تھا۔ صدر زرداری نہ چاہتے تو ججز کبھی بحال نہ ہوتے پیپلز پارٹی کیساتھ فوج کے تعلقات پہلی بار بہتر ہوئے ہیں۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جب قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کی تھی اس وقت انہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کی گھروں میں نظربندی اور قید سے رہائی کا اعلان کیا تھا مگر انہوں نے ان ججوں کو اس وقت بحال کرنے کا حکم جاری نہیں کیا تھا۔ اگر انہوں نے اسی روز ججوں کی بحالی کا حکم جاری کر دیا ہوتا تو آج اعلیٰ عدلیہ کی صورتحال مختلف ہوتی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں جو موقف جس اصرار کے ساتھ بیان کیا ہے وہ محل نظر ہے۔ اسکے علاوہ عدلیہ کو احتساب کرنے اور ملک و قوم کا اربوں روپیہ ہضم کرنیوالے افراد کو کٹہرے میں لانے سے بھی دور کرنے کیلئے عملی حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے حامی قانونی، سیاسی اور سماجی حلقے عدالتوں پر چیخ و چلا رہے ہیں اور فاضل عدالتوں کو \\\"Bully\\\" کیا جا رہا ہے آئین اور قانون کے احترام کے تقاضے تو یہ ہیں کہ جن لوگوں کا احتساب مطلوب ہے ان کو انکے سرکاری عہدوں سے فارغ کرکے عدالت کے رحم و کرم اور آئندہ ہونیوالی تحقیقات کے نتائج پر چھوڑ دیا جاتا۔ جو لوگ اس عمل میں بے گناہ ثابت ہوئے انہیں دوبارہ حکومت میں لے لیا جاتا۔ سوئس اکائونٹس موجود ہیں جن کے نام پر ہیں وہ اس کا دفاع بھی کرتے رہے ہیں اور ’سرے محل‘ بھی موجود ہے اسکی ملکیت سے انکار کرنیوالے خود ہی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ انکی ملکیت ہے۔ اسی طرح فرانس اور سپین میں موجود املاک اور بنک اکائونٹس کا بھی پاکستان کے ہر شہری کو علم ہے کہ یہ کن لوگوں کی املاک ہیں۔ اگر یہ سب لوگ قوم کو اعتماد میں لیکر یہ وضاحت فرمانے کے قابل ہیں کہ وہ یہ ثابت کریں تو ان املاک کیلئے انکے پاس سرمایہ کہاں سے آیا؟ یا پھر وہ ان تمام املاک کو اور اکائونٹس کو بحق حکومت پاکستان سرنڈر کر دیں۔ قوم سے معافی طلب کریں تو یقیناً فاضل عدالتیں بھی انکے بارے میں اپنے موقف کو نرم کر سکتی ہیں۔ بیرون ملک جا کر اپنی غیر قانونی املاک کے مقدمات بھی لڑے جا رہے ہیں اور اپنے آپکو معصوم بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ آخر اسکی منطق کیا ہے؟ وزیراعظم خود جانتے ہیں کہ اگر ججوں کو انہوں نے بحال کیا ہوتا تو رائے ونڈ سے قافلہ مریدکے تک نہ جاتا اور وہاں اس قافلے کو ٹھہرا کر جن لیڈروں نے مذاکرات کئے تھے ان میں وزیراعظم کا نام نہ تھا‘ اس لئے آپ سے پوری قوم کی گزارش ہے کہ آپ اپنا کریڈٹ لینے کے ماحول کو عدالتوں کیلئے قابل قبول بنائیے کیونکہ عوام سب جانتے ہیں۔ جو لوگ بھی قومی دولت کے خرد برد، رشوت ستانی، کمیشن اور کک بیکس اور عدالتوں میں وکالت کے نام پر بھاری فیسیں وصول کرنے میں ملوث ہیں ان سب کو حکومت کے ’’سایہ عاطفت‘‘ سے باہر نکال دیں تاکہ یہ تحقیق و تفتیش کے عمل پر اثرانداز نہ ہو سکیں اور پاکستان کی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حکومت نہ بنائیں اسے پاکستان کے 17 کروڑ عوام کی حکومت سمجھیں۔ آپ نے آئندہ بھی عوام کے سامنے جانا ہے اور آج کا حساب بھی آج ہی دینا ہے۔ جمہوریت عوام کیلئے ہوتی ہے صرف آپکی پارٹی اور آپکے لیڈروں کیلئے نہیں۔
شاہراہ فاطمہ جناح… عدلیہ کے
احکامات پر عملدرآمد کرائیں
چیف جسٹس لاہور کورٹ مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف نے بدھ کے روز سی سی پی او آفس کے سامنے شاہراہ فاطمہ جناح پر سڑک پر دیوار کی غیرقانونی تعمیر روکنے کا حکم دیتے ہوئے زیر تعمیر دیوار کے خاتمے اور شاہراہ فاطمہ جناح پر دو طرفہ ٹریفک کی بحالی کے احکامات جاری کئے تھے مگر پولیس حکام نے ان احکامات کی کوئی پرواہ نہیں کی اور شاہراہ فاطمہ جناح پر زیر تعمیر دیوار کو گرایا نہیں گیا۔ پولیس نے سڑک کا کچھ حصہ یکطرفہ طور پر کھولا تھا اور وہاں سے بھی لوگوں کو لوہے کے بیریئر لگا کر ایک قطار کی شکل میں گزارا جاتا ہے۔ فیصل چوک سے شاہراہ فاطمہ جناح آنیوالے تمام راستے پولیس نے بیریئر لگا کر بدستور بند رکھے ہیں جبکہ سی سی پی او دفتر کے سامنے زیر تعمیر دیوار پر لوہے کے بلاکس اور لکڑی کے بالوں کی شٹرنگ لگی ہوئی ہے اور زیر تعمیر دیوار لوہے کے سریوں‘ سیمنٹ اور کنکریٹ کی دیوار کو مضبوطی کیساتھ پانی بھی لگایا گیا۔ آج پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے‘ جن کے پاس وسائل ہیں‘ وہ حفاظتی اقدامات بڑھ چڑھ کر رہے ہیں جن کی دسترس میں قومی خزانہ ہے‘ وہ اس کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں‘ کوئی بلٹ پروف گاڑیاں منگوا رہا ہے تو سرکاری دفاتر اور گھروں کو قلعوں میں تبدیل کررہا ہے۔ عوام اور عام ملازم کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سڑک پر کھڑے پولیس اہلکار کے پاس مناسب اسلحہ ہے نہ مناسب حفاظتی لباس۔ ویسے تو جرنیل تک جی ایچ کیو تک میں موجودگی میںبھی محفوظ نہیں تاہم دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ سڑکوں پر چوکوں‘ چوراہوں اور اہم مقامات کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکار اور عوام ہی بنتے ہیں۔ سی سی پی او آفس‘ تھانہ سول لائن اور اس سے ملحقہ دفاتر کے گرد پہلے ہی حلقہ نما دیوار ہے‘ اب اسکی دیوار کے اندر اور باہر دیواریں بن رہی ہیں‘ بزدلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‘ اس پر بھی کسی کو اعتراض نہیں۔ اپنے دفتر کے اندر جتنی بھی دیواریں چنوالیں‘ لیکن دفتر کے باہر سڑک کے عین درمیان دیوار کی تعمیر کا کوئی جواز نہیں‘ کئی مہینوں سے شارع فاطمہ جناح کو نوگو ایریا بنایا ہوا ہے۔ کبھی کبھی یکطرفہ ٹریفک کھول دی جاتی ہے اور لارنس روڈ تو مستقلاً بند کر دی گئی ہے جس کے باعث سارا بوجھ مزنگ روڈ پر آگیا ہے۔ جو خود اپنا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی‘ اسے کیوں نہیں کھولا جاتا؟ سڑکوں کی بندش اور رکاوٹ سے ایک طرف ٹریفک کا مسئلہ بری طرح پیدا ہوا ہے‘ دوسری طرف ان علاقوں میں کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ انتظامیہ سو جائے تو لوگوں کی نظریں عدلیہ پر لگ جاتی ہیں‘ عدالتی احکامات بھی غیرموثر بنا دیئے جائیں تو لوگ کیا کریں؟ سی سی پی او نے عدالت کو تعاون کا یقین دلایا تھا‘ عدلیہ خود آکر دیکھ لے‘ انہوں نے کہاں تک تعاون کیا‘ لوگ بدستور عذاب میں مبتلا ہیں‘ چیف جسٹس ہائیکورٹ سے لوگ توقع رکھتے ہیں کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے شاہراہ فاطمہ جناح اصل حالت میں لانے‘ دوطرفہ ٹریفک بحال کرانے اور لارنس روڈ کھولنے کا اہتمام کرائیںگے۔