بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے‘ ہم جنگ نہیں چاہتے‘ جبکہ بھارتی وزیر خارجہ مکھرجی نے کہا‘ پڑوسی ملک جنگی جنون پیدا نہ کرے۔
آخر من موہن سنگھ کا پارہ بھی اتر گیا اور مکھرجی تو جنگ سے ہی مُکر گئے‘ مکار دشمن کا کوئی پتہ نہیں‘ کیونکہ وہ کبھی دیدہ دلیری سے حملہ نہیں کر سکتا‘ صرف شب خون مار سکتا ہے‘ اس لئے پاکستان کو الرٹ رہنا ہوگا۔
من موہن سنگھ دانشمند ہیں‘ انہوں نے جب پاکستانی طیاروں کی دھاڑنے کی آواز سرحد کے قریب سے سنی ہو گی تو مکھرجی کو بلا کر اسکے منہ پر ٹیپ لگا دی ہو گی اور خود بیان دے دیا ہو گا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے‘ آپ کیا چاہتے ہیں‘ نہ صلح نہ جنگ‘ بالآخر باالفاظ دیگر من موہن جی نے یہ کہا ہے کہ ہمیں کوئی ثبوت ہی نہیں ملے اور اس کا ہمیں پہلے سے پتہ تھا۔ بس ایک پتہ پھینکنا تھا سو پھینک دیا‘ یا پھر اپنی فطرت کیمطابق کسی رات کے اندھیرے میں کام دکھائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
ایک عشائیے کے موقع پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے کہا ہے‘ بااختیار گورنر ہوں‘ پنجاب حکومت ٹھیکے پر نہیں دی۔
گورنر پنجاب واقعتاً گورنر پنجاب ہیں‘ انہوں نے ہرگز پنجاب حکومت ٹھیکے پر نہیں دی کہ وہ اس میں مداخلت بھی نہ کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ وہ حکومت سانجھی سمجھیں اور گورنر صاحب اگر کوئی ہدایت یا تجویز دیں تو اس کو مان لیا کریں۔
گورنر پنجاب دو تین روز وزیر اعلیٰ کیساتھ میٹھا بول کر دیکھیں کہ اس کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ میٹھے بول میں جادو ہے‘ وزیر اعلیٰ صاحب بھی کوئی ایسا بیان نہ دیں‘ جس سے نازک مزاج گورنر پر منفی اثر پڑے بلکہ ایک بار جی کڑا کرکے کہہ دیں کہ پنجاب کے اصل حکمران تو گورنر ہیں‘ میں تو بس خادم اعلیٰ ہوں اور ایک عشائیہ ایسا بھی ہونا چاہئے کہ جس میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کی کرسی ساتھ ساتھ ہو۔
٭٭٭٭٭٭
اخبارات میں وہ تصویر نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے‘ جس میں بش اپنے خاندان سمیت وائٹ ہائوس چھوڑ کر کیمپ ڈیوڈ جا رہے ہیں۔
عراق والوں نے جوتے مار کر نکالا‘ امریکیوں نے اوبامہ کو ووٹ دے کر بش کو وائٹ ہائوس سے نکالا‘ بہرحال ان کا حال وہی تھا کہ…؎
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
جب وہ رخصت ہو کر جا رہے تھے تو پیچھے سے اوبامہ نے آواز دی…؎
تھوڑی دیر ہور ٹھہر جا او جتیاں کھان والیا
ایک خونخوار امریکی صدر کتنی انسانی جانیں لیکر صدارت کی کرسی سے بصد رسوائی اترا۔ اس نے اپنے دور میں امریکیوں کیلئے سوائے نفرت کے اور کچھ بھی حاصل نہ کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے اسکے جبڑے رنگے ہوئے ہیں‘ اس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ کر دنیا کو دہشت گردوں سے بھر دیا۔ اس نے ہر امریکی کو یہ پیغام دیا ہے کہ میں نے تو نائن الیون کا بدلہ لے لیا‘ اب تم جہاں جائو گے نفرت کے سوا کچھ نہیں پائو گے۔ وہ سب کچھ بھول کر بھی یہ گیت گائیں گے…؎
میں بھول گیا رے ہر بات
مگر نہیں بھولا جوتیوں کا وار
٭٭٭٭٭٭
علی سلیم عرف بیگم نوازش علی نے بھارت میں ایک پروگرام بیگم کی ریکارڈنگ کے بعد وطن آکر کہا کہ فنکار اور کھلاڑی پاک بھارت کشیدگی کم کر سکتے ہیں۔
ایک مرد ہے جسے علی سلیم کہیں یا بیگم نوازش علی کہیں‘ ہم تو سمجھتے ہیں کہ علی سلیم جب بیگم نوازش علی شاہ کے روپ میں ہوتے ہیں تو وہ مسز علی سلیم ہو جاتے ہیں‘ یہ ہے ایک شخصیت کے دو الگ الگ روپ۔ دونوں کی تصویریں ساتھ ساتھ رکھیں تو ایک مر اور دوسرا اس کی بیوی لگے۔ علی سلیم چاہیں تو اپنے زنانہ روپ سے پیار کر سکتے ہیں‘ کیونکہ وہ اپنے بیگم کے روپ میں اتنے دلکش دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے کئی انکے پرستاروں کو ان سے عشق کرتے دیکھا۔ یہ وہ فنکار ہے کہ ممکن ہے قیامت کے روز اسے حوروں میں بھرتی کرکے جنت بھیج دیا جائے۔
ایک زمانہ تھا کہ فلم انڈسٹری کو خواتین دستیاب نہیں ہوتی تھیں‘ اگر علی سلیم اس وقت ہوتے تو ان پر کتنا رش ہوتا۔ مجبور ہو کر فلمساز خواجہ سرائوں کو ہیروئن بنا کر پیش کرتے تھے‘ یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ علی سلیم جنگ کی کیفیت میں بھارت پہنچے اور انکی بے پناہ پذیرائی ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علی سلیم بڑی اداکارہ ہیں‘ وہ جب ساڑھی میں اپنا میک اپ کرتا ہے تو اس پر دل آہی جاتا ہے۔ خاص کر جب وہ اپنی مردانہ آواز میں اور زنانہ روپ میں بولتا ہے تو دو آتشہ لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
پارلیمانی سیکرٹری حیدرعلی شاہ نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہا‘ پارلیمانی سیکرٹری ہوں‘ گاڑیاں نہیں بناتا‘ ان ریمارکس پر قہقہے بلند ہو گئے۔
سیکرٹری صاحب نے ایوان کو تو کشتِ زعفران بنا دیا مگر یہ بات غلط نہیں کہ سیکرٹری حضرات گاڑیاں نہیں بناتے‘ ضروری نہیں کہ گاڑی بنانے سے مراد لوہار یا مکینک ہو‘ بڑے بڑے افسران بھی اپنے محکموں میں گاڑیاں بناتے ہیں۔ ایک گاڑی ان کیلئے‘ ایک بیگم صاحبہ کیلئے‘ ایک بچوں کو لانے کیلئے اور اس کے علاوہ محکمے میں سینکڑوں گاڑیاں‘ کیا پھر بھی یہ غلط ہے کہ سیکرٹری گاڑیاں نہیں بناتے؟
آخر من موہن سنگھ کا پارہ بھی اتر گیا اور مکھرجی تو جنگ سے ہی مُکر گئے‘ مکار دشمن کا کوئی پتہ نہیں‘ کیونکہ وہ کبھی دیدہ دلیری سے حملہ نہیں کر سکتا‘ صرف شب خون مار سکتا ہے‘ اس لئے پاکستان کو الرٹ رہنا ہوگا۔
من موہن سنگھ دانشمند ہیں‘ انہوں نے جب پاکستانی طیاروں کی دھاڑنے کی آواز سرحد کے قریب سے سنی ہو گی تو مکھرجی کو بلا کر اسکے منہ پر ٹیپ لگا دی ہو گی اور خود بیان دے دیا ہو گا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے‘ آپ کیا چاہتے ہیں‘ نہ صلح نہ جنگ‘ بالآخر باالفاظ دیگر من موہن جی نے یہ کہا ہے کہ ہمیں کوئی ثبوت ہی نہیں ملے اور اس کا ہمیں پہلے سے پتہ تھا۔ بس ایک پتہ پھینکنا تھا سو پھینک دیا‘ یا پھر اپنی فطرت کیمطابق کسی رات کے اندھیرے میں کام دکھائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
ایک عشائیے کے موقع پر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے کہا ہے‘ بااختیار گورنر ہوں‘ پنجاب حکومت ٹھیکے پر نہیں دی۔
گورنر پنجاب واقعتاً گورنر پنجاب ہیں‘ انہوں نے ہرگز پنجاب حکومت ٹھیکے پر نہیں دی کہ وہ اس میں مداخلت بھی نہ کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ وہ حکومت سانجھی سمجھیں اور گورنر صاحب اگر کوئی ہدایت یا تجویز دیں تو اس کو مان لیا کریں۔
گورنر پنجاب دو تین روز وزیر اعلیٰ کیساتھ میٹھا بول کر دیکھیں کہ اس کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ میٹھے بول میں جادو ہے‘ وزیر اعلیٰ صاحب بھی کوئی ایسا بیان نہ دیں‘ جس سے نازک مزاج گورنر پر منفی اثر پڑے بلکہ ایک بار جی کڑا کرکے کہہ دیں کہ پنجاب کے اصل حکمران تو گورنر ہیں‘ میں تو بس خادم اعلیٰ ہوں اور ایک عشائیہ ایسا بھی ہونا چاہئے کہ جس میں وزیر اعلیٰ اور گورنر کی کرسی ساتھ ساتھ ہو۔
٭٭٭٭٭٭
اخبارات میں وہ تصویر نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے‘ جس میں بش اپنے خاندان سمیت وائٹ ہائوس چھوڑ کر کیمپ ڈیوڈ جا رہے ہیں۔
عراق والوں نے جوتے مار کر نکالا‘ امریکیوں نے اوبامہ کو ووٹ دے کر بش کو وائٹ ہائوس سے نکالا‘ بہرحال ان کا حال وہی تھا کہ…؎
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
جب وہ رخصت ہو کر جا رہے تھے تو پیچھے سے اوبامہ نے آواز دی…؎
تھوڑی دیر ہور ٹھہر جا او جتیاں کھان والیا
ایک خونخوار امریکی صدر کتنی انسانی جانیں لیکر صدارت کی کرسی سے بصد رسوائی اترا۔ اس نے اپنے دور میں امریکیوں کیلئے سوائے نفرت کے اور کچھ بھی حاصل نہ کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے اسکے جبڑے رنگے ہوئے ہیں‘ اس نے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ کر دنیا کو دہشت گردوں سے بھر دیا۔ اس نے ہر امریکی کو یہ پیغام دیا ہے کہ میں نے تو نائن الیون کا بدلہ لے لیا‘ اب تم جہاں جائو گے نفرت کے سوا کچھ نہیں پائو گے۔ وہ سب کچھ بھول کر بھی یہ گیت گائیں گے…؎
میں بھول گیا رے ہر بات
مگر نہیں بھولا جوتیوں کا وار
٭٭٭٭٭٭
علی سلیم عرف بیگم نوازش علی نے بھارت میں ایک پروگرام بیگم کی ریکارڈنگ کے بعد وطن آکر کہا کہ فنکار اور کھلاڑی پاک بھارت کشیدگی کم کر سکتے ہیں۔
ایک مرد ہے جسے علی سلیم کہیں یا بیگم نوازش علی کہیں‘ ہم تو سمجھتے ہیں کہ علی سلیم جب بیگم نوازش علی شاہ کے روپ میں ہوتے ہیں تو وہ مسز علی سلیم ہو جاتے ہیں‘ یہ ہے ایک شخصیت کے دو الگ الگ روپ۔ دونوں کی تصویریں ساتھ ساتھ رکھیں تو ایک مر اور دوسرا اس کی بیوی لگے۔ علی سلیم چاہیں تو اپنے زنانہ روپ سے پیار کر سکتے ہیں‘ کیونکہ وہ اپنے بیگم کے روپ میں اتنے دلکش دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے کئی انکے پرستاروں کو ان سے عشق کرتے دیکھا۔ یہ وہ فنکار ہے کہ ممکن ہے قیامت کے روز اسے حوروں میں بھرتی کرکے جنت بھیج دیا جائے۔
ایک زمانہ تھا کہ فلم انڈسٹری کو خواتین دستیاب نہیں ہوتی تھیں‘ اگر علی سلیم اس وقت ہوتے تو ان پر کتنا رش ہوتا۔ مجبور ہو کر فلمساز خواجہ سرائوں کو ہیروئن بنا کر پیش کرتے تھے‘ یہ بڑے کمال کی بات ہے کہ علی سلیم جنگ کی کیفیت میں بھارت پہنچے اور انکی بے پناہ پذیرائی ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علی سلیم بڑی اداکارہ ہیں‘ وہ جب ساڑھی میں اپنا میک اپ کرتا ہے تو اس پر دل آہی جاتا ہے۔ خاص کر جب وہ اپنی مردانہ آواز میں اور زنانہ روپ میں بولتا ہے تو دو آتشہ لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
پارلیمانی سیکرٹری حیدرعلی شاہ نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہا‘ پارلیمانی سیکرٹری ہوں‘ گاڑیاں نہیں بناتا‘ ان ریمارکس پر قہقہے بلند ہو گئے۔
سیکرٹری صاحب نے ایوان کو تو کشتِ زعفران بنا دیا مگر یہ بات غلط نہیں کہ سیکرٹری حضرات گاڑیاں نہیں بناتے‘ ضروری نہیں کہ گاڑی بنانے سے مراد لوہار یا مکینک ہو‘ بڑے بڑے افسران بھی اپنے محکموں میں گاڑیاں بناتے ہیں۔ ایک گاڑی ان کیلئے‘ ایک بیگم صاحبہ کیلئے‘ ایک بچوں کو لانے کیلئے اور اس کے علاوہ محکمے میں سینکڑوں گاڑیاں‘ کیا پھر بھی یہ غلط ہے کہ سیکرٹری گاڑیاں نہیں بناتے؟