پلاٹ مقابلہ پلاٹ پر حکومت کی تحقیقات
میاں غفار احمد
mian.ghaffar@yahoo.com
آئندہ جنرل الیکشن میں جزو کو کل سمجھیں اور کشمیر الیکشن کے نتائج کو پاکستان کے الیکشن 2023ء کے نتائج کے تناظر میں دیکھیں تو مسلم لیگ ن کا تیسرا نمبر ہی نظر آرہا ہے ۔ اور مسلم لیگ ن سے ش میں تبدیل ہوتی ہوئی بھی دکھائی دے رہی ہے کہ سیاست میں اگلا کردار شہباز شریف کا تو نظر آرہا ہے مگر رہا نواز شریف کاسوال تو وہ بیک گراؤنڈ میوزک بھی نہیں بجاسکیں گے ۔ ویسے بھی مریم نواز کا معاملہ یوں ہے کہ ان کے غصے، جذباتی پن اور شدت پسندی کے فیصلے میاں نواز شریف کو لے ڈوبنے کیلئے کافی ہیں ۔ جہاں تک امیدواروں کی بات ہے وہ ابھی تک وہ ٹاس ہی کھیل رہے ہیں کہ آئندہ ٹکٹ کس پارٹی کا لیا جائے۔ جنوبی پنجاب میں آئندہ کی انتخابی سیاست کے حوالے سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن یا ش کا ٹکٹ شاید سب سے ارزاں ہوگا۔
حکومت نے ایک سروے شروع کروا رکھا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی جن حلقوں سے الیکشن ہاری اس کی وجوہات کیا تھیں اور آئندہ الیکشن میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے ۔ جنوبی پنجاب کی حد تک تو میںمکمل اور مصدقہ معلومات کی روشنی میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ قومی اسمبلی کی 11 نشستیں پی ٹی آئی صرف ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے ہاری اور دلچسپ امر یہ رہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم کرنے والے اسحٰق خاکوانی از خود بھی ہار گئے اور ٹکٹوں کی غلط کا تقسیم کا خمیازہ انہیں خود بھی بھگتنا پڑگیا۔انہوں نے اپنے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں ٹکٹس رکھ لیں اور وہ بھی شاہ محمود قریشی کی طرح وزارتِ اعلیٰ کے اُمیدوار تھے مگر پتلون کی آرزو میں لنگوٹی سے بھی محروم ہوگئے ۔مجھے یاد ہے کہ ابدالی روڈ سے ملحقہ طارق روڈ پر ان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کے اُمیدوار سارا سارا دن انتظار میںکھڑے رہتے تھے اور شدت کی گرمی میں انہیں پانی پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ویسے بھی اندھا جب ریوڑیاں بانٹنے پر آتا ہے تو اپنوں کی خوشبو سونگھ کر انہیں ہی نوازتا ہے۔ انہوں نے بوریوالا سے پہلے نذیر جٹ کو ٹکٹ دی پھر واپس لے لی ، پھر اس کی بیٹی کو دی ، پھر واپس ہوئی اور نذیر جٹ آزاد کھڑے ہو کر اسحاق خاکوانی کو دونوںسیٹوں سے آؤٹ کرگئے ۔اس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کا خواب لیکر انتخابی میدان میں اُترنے والے اسحٰق خاکوانی پارلیمنٹ تک بھی نہ پہنچ سکے ۔
جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور مجوزہ دارالحکومت میں ایرانی تیل ، خشک دودھ اور میوہ جات کی سمگلنگ کے حوالے سے بہت شور ہے کہ نبی بخش نامی ایک سمگلر اپنے کارندوں کو ملتان کے کسٹم ہاؤس بھیجتا ہے اور اس کا مال پکڑے جانے کی کوشش پر ناراض ہوکرانسپکٹر وقاص کواس کے دفتر میں تھپڑ مارے جاتے ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے کسٹم انٹی سمگلنگ میں تعینات مذکورہ انسپکٹر تھپڑ کھا کر بھی وہیں تعینات ہیں اور افسران نے کارروائی کی بجائے نبی بخش سے صلح کرلی ہے ۔ہو ایوں کہ لاہور کے ایک صاحب حیثیت خاندان سے تعلق رکھنے والے عمر سجاد نامی اسسٹنٹ کمشنر نے نبی بخش کا مال پکڑا مگر انہیں اتنے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے سارے کا سارا مال چھوڑ دیا مگر مال چھڑوا کر بھی نبی بخش گروپ کی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے عمر سجاد کی گاڑی روک کر ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور کسٹم افسران جواباً کچھ بھی نہ کرسکے ۔کسٹم کے ملتان کلکٹریٹ کو حقیقی سونے کی چڑیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ کراچی ، کوئٹہ اور تافتان سے آنے والا سمگلنگ کا سامان اسی کی حدود سے گزر کر جاتا ہے ۔ دنیا پور سے لیکر کچا کھوہ تک سینکڑوں ایسے احاطے ہیں جو سمگلنگ کے مال کے گڑھ ہیں مگر کسی کواُن پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ۔اس وقت ملتان کلکٹریٹ تین انتہائی بااثر سمگلرز کے کنٹرول میں ہے جن میں نبی بخش کے علاوہ صادق اچکزئی اور عقیل خان کے نام شامل ہیں اورپورا ایف بی آر ان کے سامنے بے بس ہے کہ چیئرمین ایف بی آر سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں ان میں سے ایک بااثر کے خلاف کارروائی کی اپیل کرتے ہیں مگر کارروائی ندارد۔
جنوبی پنجاب میں سرکاری ادارے اس حد تک بے بس ہوچکے ہیں کہ ان سے غلہ منڈی ملتان ہی قابو میں نہیں آرہی اور فوڈ اتھارٹی کے اہلکاروں نے چار مرتبہ مار کھانے کے بعد اب غلہ منڈی کانام اسرائیل رکھ دیا ہے ۔ کیونکہ جس طرح اسرائیل جانے کیلئے کسی پاکستانی کا ویزہ نہیں لگتا اسی طرح اب فوڈ اتھارٹی نے بھی غلہ منڈی کو مکمل بائی پاس کردیا ہے اورغلہ منڈی کی مارکٹائی کا سارا غصہ ریسٹورنٹ مالکان پر نکالا جارہا ہے ۔حالانکہ ملتان کی غلہ منڈی میں سو فیصد جعلی کالی اور لال مرچ، جعلی مصالحہ جات اور مردار جانوروں کی چربی سے بنے ہوئے کوکنگ آئل سمیت ہر دو نمبر چیز کی بھرمار ہے مگر ان کیخلاف توکارروائی نہیں ہورہی اور تھوک کا سارے کا سارا نزلہ پرچون پر نکالا جارہا ہے ۔
ایک طرف میاں نواز شریف پر پلاٹوں کی بندر بانٹ کے کیسز دوبارہ کھل گئے ہیں اور پنجاب بھر میں انہوں نے رہائشی، کمرشل اور زرعی اراضی کو جس طرح اپنی سیاست چمکانے کیلئے بیدردی سے الاٹمنٹس کیں اس پر ریکارڈ کی حالیہ طلبی کم از کم دسویں بار ہورہی ہے کیونکہ ریکارڈ طلب ہوتا ہے اورساتھ ہی خاموشی چھا جاتی ہے ۔ توجہ طلب امر یہ ہے ایک طرف موجودہ حکومت نواز شریف کے خلاف ریکارڈ طلب کررہی ہے اور دوسری طرف اسی حکومت کی وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے پلاٹوں کی بندر بانٹ کے حوالے سے وزیراعظم پورٹل پر کی گئی شکایات کارروائی کے مراحل میں ہیں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین پلاٹوں کی بندر بانٹ پر وزارتِ ہاؤسنگ پر پورے زور سے برس رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے موجودہ چیئرمین اور مسلم لیگی رہنما رانا تنویر کو اپنے قائد میاں نواز شریف کی کرپشن یاد نہیں ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛