مقبوضہ کشمیر میں امن فوج ہی بھارت کا دست قاتل روک سکتی ہے
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے فون پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کا مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کا اعادہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوئٹریس نے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، وہ اس سے پہلے بھی یہ پیشکش کر چکے ہیں۔ سیکرٹری جنرل گذشتہ روز پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلیفون پر بات چیت کر رہے تھے۔ وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل کو گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا اور سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدامات سے ایک انسانی المیہ رونما ہو رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل سے اپنی گفتگو کے بارے میں ایک نیوز کانفرنس میں وزیر خارجہ نے بتایا کہ میں نے سیکرٹری جنرل کو آگاہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی پابندیوں کا تیسرا ہفتہ شروع ہے، مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے، کشمیری کھانے پینے کی اشیاء سے محروم ہیں اور انہیں ادویات بھی نہیں مل رہیں۔ ان کی نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ کرفیو ختم کرانے کیلئے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے۔ وزیر خارجہ نے سیکرٹری جنرل سے یہ درخواست بھی کی کہ وہ فوری طور پر اس خطے کا دورہ کریں۔ آزاد کشمیر کے عوام ان کے دورے کے منتظر ہیں اور انھیں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر کے بھی حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کو خطے میں جنگ اور تصادم کو روکنے کیلئے بروقت اقدام کرنا چاہیے ورنہ اس خطے کا امن تہہ و بالا ہو گا اور حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ میں نے سیکرٹری جنرل کو آگاہ کیا کہ ہمارے خدشات ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ایک اور تصادم کو جنم دے گا۔ میں نے سیکرٹری جنرل کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ بھارت نے کشمیریوں پر کلسٹر ایمونیشن استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جوکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی تشویشناک صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
پاکستان کی طرف سے مقبوضہ وادی میں بھارت کے جارحانہ عزائم اور ہولناک اقدامات سے انسانی المیہ جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے دنیا کو بھارتی شب خون اور بڑھتی بربریت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ گو بھارتی پابندیوں کے باعث مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ سے زائد مہلک اسلحہ سے لیس سفاک فورسز کے بہیمانہ مظالم پوری طرح سامنے نہیں آ رہے تاہم جو بھی کسی نہ کسی طور پر منظرنامے پر آ رہے ہیں وہ بھیانک اور انسانی بحران کو جنم دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جزئیات کے ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوئٹرس کو آگاہ کرتے ہوئے ان کو اقوامِ متحدہ کی ذمہ داریاں بھی یاد دلائی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس کا ادراک ہے جس کے پانچ مستقل ممبران سمیت 15 کے پندرہ ارکان نے مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ، اس اجلاس کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونیوالے بیان میں واضح کہا گیا تھا کہ شملہ معاہدے اور اعلان لاہور جن میں ایسے تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا، کے باوجود مسئلہ کشمیر بدستور اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ مزید براں مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہو گا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں 70 سال سے زائد عرصہ سے اقوام متحدہ کی طرف سے منظور کی گئیں، ان پر شروع ہی میں عمل ہو جاتا تو بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے بے دردی سے خون بہانے کا سلسلہ وہیں رُک جاتا، کشمیری آزادی کی امید پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے تھے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر کے آزادی مانگنے والوں سے ان کی ریاست بھی چھیننے کی سازش کی گئی ہے۔ کشمیری اسے کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان کو خاموش کرانے کے لیے بھارتی فورسز ظلم و جبر کا ہر حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔ کشمیریوں کی خاموشی کا مطلب بھارت کو وادی میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے فری ہینڈ دینا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف کشمیریوں بلکہ پاکستان اور انسانیت کی رمق بھی رکھنے والی عالمی برادری کے لیے ناقابل قبول ہے۔
بھارت کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے اقدام کیخلاف کشمیری بھارتی ظلم و ستم کو خاطر میں لائے بغیر جدوجہد نہ صرف جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا، ان کی تحریک کو نئی مہمیز ملی ہے۔ برہان مظفر وانی کی 2016 ء میں المناک شہادت کے بعد تحریک آزادی کو کشمیری جس بلند سطح پر لے گئے اسے اس سے نیچے نہیں آنے دیا اور اب اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود مظاہرے ہوئے، فورسز کی طرف سے نہتے مظاہرین پر فائر کھول دیا گیا، جس سے ایک خاتوں شہید ہو گئی، بھارتی فورسز نے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ راہول گاندھی صورت حال کا جائزہ لینے سری نگر گئے تو ان کو ائیر پورٹ سے واپس کر دیا گیا، راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کچھ چھپا رہی ہے، حالات انتہائی سنگین ہیں۔ راہول گاندھی کا اندازہ درست ہے۔ مودی سرکار کشمیریوں کے عزم و ارادے اور تحریک کے سامنے بے بس ہے۔ یہ اسی بے بسی کا اظہار ہے کہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ کر کے مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا ، اس سے بھی مطلوبہ نتائج نہ آ سکے تو صدر راج نافذ کر دیا مگر وہ تجربہ بھی بے سود رہا۔ بادی النظر میں اب کشمیریوں کی نسل کشی کی سازش ہو رہی ہے ، اس خطرے کی نشاندہی جینو سائیڈ واچ عالمی تنظیم نے بھی کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے کردار ادا کرنے کی بار بار اپیل کی گئی ہے۔ بھارت کشمیریوں کی نسل کشی سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی مس ایڈونچر کر سکتا ہے، کوئی ڈرامہ رچا سکتا ہے، آزاد کشمیر میں کوئی کارروائی کر سکتا ہے اس سے بھی دنیا کو پاکستان نے آگاہ کر دیا ہے۔
پاکستان کی فعال و متحرک سفارتکاری سے مسئلہ کشمیر کی اہمیت دنیا پر واضح ہو رہی ہے۔ عالمی برادری کو اس صرفِ نظر کئے ہوئے المیہ کی سمجھ آ رہی ہے۔ پوری دنیا کشمیریوں کی آواز میں آواز ملا رہی ہے۔ کشمیر ایشو اس شدت کے ساتھ ماضی میں کبھی عالمی منظرنامے پر نمایاں نہیں ہوا تھا۔ یہ ’’کریڈٹ ‘‘بھی مودی سرکار کی حماقت کو جاتا ہے۔ آج مودی حکومت عالمی برادری کے دبائو میں ہے اس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اقدام سنبھالے نہیں سنبھل رہا جو اسے واپس لینا ہی پڑے گا۔ بھارت یہ اقدام واپس لیتا تو بھی کشمیر ایشو جس بلند سطح پر پہنچ گیا وہاں سے یہ مزید آگے جا سکتا ہے اس کے ریورس ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ سرِ دست کشمیریوں کی مشکلات اور مصائب میں اضافہ ہوا ہے تاہم ان کی آزادی کی تنزلی خود بھارتی حکومت کی بیوقوفی ، لاابالی پن اور جلد بازی نے مزید قریب کر دی ہے۔ پاکستان کی طرف سے جس طرح مسئلہ کشمیر کو اٹھایا گیا ہے اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ اور بااثر ممالک پر مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے پر مسلسل زور دیتے رہنا چاہئے۔
اقوام متحدہ کو بھی اپنی قراردادوں پر عمل کے حوالے سے خود احساس ہونا چاہئے کیا وہ آخری کشمیری کی شہادت کی منتظر ہے۔ اس کی طرف محض اپنی قراردادوں کے بدستور ایجنڈے پر ہونے دعویٰ ہی نہیں عملی اقدام بھی ہونے چاہئیں۔ سیکرٹری جنرل کو اب تک مقبوضہ وادی میں خود آنا چاہئے تھا۔ وہ حالات کا جائزہ لیتے اور سلامتی کونسل کو صورت سے آگاہ کرتے۔ وہ آج جی سیون ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے فرانس میں ہیں مودی بھی وہیں ہیں، گوئٹرس نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوامِ متحد ہ کی قراردادیں ہیں جن سے بھارت راہِ فرار اختیار کرتا رہا ہے۔ گوئٹرس اس کانفرنس کومسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کے حوالے استعمال کریں۔ مودی آمادہ نہیں ہوتے تو اس کانفرنس میں بھارت کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ گوئٹرس کو فوری طور پر کشمیر کا دورہ کرنا چاہئے وہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر دونوں میں جا کر صورتحال کا جائزہ لیں امن و امان کی صورت حال کا موازنہ بھی کر لیں۔
بھارت صورتحال کو بگاڑ کی انتہائی سطح پر لے گیا ہے، وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ مہلک اور کلسٹر بموں کمیائی ہتھیاروں جیسا ممنوعہ اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے پاکستان کی طرف سے اس حوالے سے بھی متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں کئی جرنیلوں کو جنگی جرائم میں سزائے موت دی گئی تھی۔ عالمی عدالت میں لے جانے کے لیے یہ کیس فِٹ ہے جس کا پاکستان کی طرف سے فیصلہ بھی کیا گیا ہے اس میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل جب کرائے گی تب کرائے گی۔ عالمی عدالت میں کیس جائے گا تو فیصلہ بھی فوری طور پر متوقع نہیں ہے۔ اس دوران کشمیری بھارت کی دستبرد اور اس کے بے رحم پنجوں سے محفوظ نہیں ہونگے، ان کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر اقوام متحدہ کی امن فوج مقبوضہ وادی میں تعینات کی جائے۔ یہ امن فوج ہی بھارتی سفاک سپاہ کا دست قاتل روک سکتی ہے۔اس حوالے سے سابق وزر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو خط لکھا ہے، پاکستان کی طرف سے اس پر زور دینا چاہئے۔