پیر ‘ 24 ؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 26 ؍ اگست 2019 ء
متحدہ عرب امارات کی طرف مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ پر سماجی حلقوں کی تنقید
بیروت سے تعلق رکھنے انسانی حقوق کی تنظیم کی رکن سما حدید نے امارات کی طرف سے مودی کو ایوارڈ ملنے پر جو کہا وہ جملہ عربوں کی ارب پتی طبیعت اور مزاج کی سو فیصد عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ۔ ’’خلیجی ممالک نے انسانی حقوق کو اقتصادی فوائد پر قربان کر دیا‘‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس پر علامہ نے کہا خوب کہا ہے۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
افسوس کے عربوں کو سنبھالنے والا کوئی مرد قلندر ہے ہی نہیں اسلئے …ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘
ابھی پچھلے دنوں مودی نے فرانس میں بھارتیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کی چھترول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت گاندھی گو تم رام اور کرشنا کی سرزمین ہے یہاں کسی عارضی چیز کی گنجائش نہیں۔‘‘ کیا مجال ہے جو کسی عرب یا غیر عرب اسلامی ملک کی دینی حمیت پھڑکی ہو۔ ویسے بھی عرب امارات اب مکمل بھارتی سوچ فلسفے اور فکر کی چنگل میں آ چکا ہے عملاً وہاں بھارتی لابی چھائی ہوئی ہے۔ جن کی آبادی مقامی عربوں سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے تو مودی نے نہایت شاطرانہ انداز میں شیخ محمد زید النیہان کا کشمیر پر بھارتی اقدامات کی حمایت پر شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ یہ وہ منظر تھا جس پر اسلامی اخوۃ اور امہ کی وحدت تادیر آنسو بہاتے رہیں گے۔ دنیا بھر میں غیر مسلم اقوام تک بھارتی وزیر اعظم مودی کو کشمیر دشمن اور بھارت میں مسلم دشمن پالیسیوں پر ملامت کر رہی ہے اور ہمارے برادر عرب ممالک اسے اپنا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دے رہے ہیں۔ شاید یہ ایوارڈ اسی مسلم کش پالیسیوں کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔ البتہ نام امارات سے تعلقات میں بہتری کا دیا گیا ہے…
٭٭٭٭٭
میئر کراچی وسیم اختر نے فیصل واوڈا کو ان گائیڈڈ میزائل قرار دیدیا
آج کل ملک میں کراچی پر سیاست خوب چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحاد ایم کیو ایم میں بھی اس مسئلہ پر ٹھن گئی ہے۔ تحریک انصاف کو اس میدان میں چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف سندھ حکومت ہے تو وسری طرف اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اب خود اس کی اتحادی ایم کیو ایم بھی اس جنگ میں کود پڑی ہے۔ کراچی کے بلدیاتی ادارے زیادہ تر ایم کیو ایم کے کنٹرول میں ہیں میئر بھی کراچی کا ایم کیو ایم سے تعلق رکھتا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزرا کراچی میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے چکر میں جو ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کی قیادت گورنر سندھ اور وفاقی وزیرعلی زیدی کر رہے ہیں۔ اب فیصل واوڈا نے کراچی کے میئر اور ایم کیو ایم کی طویل عرصہ سے کراچی پر حکومت کے باوجود کراچی کی ابتر صورتحال کا جو رونا رویا ہے ا س پرمیئر کراچی کو جلال آ گیا ہے اور انہوں نے وزیر اعظم سے شکایت کر دی کہ وہ ان گائیڈڈ میزائل کو کنٹرول کریں۔ وسیم اختر نے فیصل واوڈا کو سستی شہرت حاصل کرنے کا شوقین بھی کہا ہے۔ اب بھلا کیا کوئی کراچی کے مسائل پر بات بھی نہ کرے۔ وسیم اختر اور سندھ حکومت خود کراچی کی حالت بہتر کیوں نہیں بنا سکے 11برس سے وہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور کچھ نہیں تو یہاں سے کچرا ہی صاف کرا کے وہ حملہ آوروں کے منہ بند کر سکتے تھے۔ ان سے تو یہ بھی نہیں ہو سکا۔ تو اب گلہ کیسا…
٭٭٭٭٭
فضل الرحمن نے اسلام آباد کی طرف پیشقدمی کی تو لوگ خود ہی روک لیں گے۔ وزیر داخلہ
یہی بات ’سو سنار دی تے اک لوہار دی‘ والی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے چند روز قبل جہانگیر ترین جو پی ٹی آئی حکومت کے حقیقی مفکر ترجمان اور تھنک ٹینک ہیں نے بھی کہی تھی کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کو اٹک کے پل سے ہی منتشر کر دیا جائے گا۔انکا حشر ویسا ہی ہو گا جیسا سینٹ میں ہوا تھا ۔اب وزیر داخلہ نے یہ مسئلہ حکومت کے کاندھوں سے اتار کر عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا ہے کہ وہ خودہی ان سے نمٹ لیں گے۔ ویسے تو یہ قبل از وقت دور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ فی الحال ہر طرف شانتی ہی شانتی ہے۔ اپوزیشن والوں کو اپنی گرفتاریوں کے خوف سے بچائو کے ٹھکانوں کی تلاش ہے۔ گرفتار رہنما ئے نے قوم عدالتوں میں اے سی، فریج ٹی وی طلب کرتے پھر رہے ہیں بھلا ایسے مخالفانہ موسم میں جب کوئی سایہ دور دور تک نظر نہیں آتااسلام آباد پر چڑھائی کا قبل از وقت طوفان کھڑا کرنے کا فائدہ کیا ہے۔ حکومت آرام سے اپنی اننگ کھیلے یہ کوئی ٹی ٹونٹی کا میچ نہیں کہ جلد بازی سے کام خراب کیا جائے۔ جب اسلام آباد لانگ مارچ یا لاک ڈائون کی نوبت آئے گی تب دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔ فی الحال پوری قوم کی توجہ کشمیر پر ہے۔ حکومت بھی اسی طرف توجہ مرکوز رکھے۔ اپوزیشن والے بھی حالت کی نزاکت دیکھتے ہوئے اسلام آباد کے کریک ڈائون لاک ڈائون ، یا لانگ مارچ کے حوالے سے پروگرام پر نظرثانی کرتے ہوئے کشمیر لانگ مارچ جیسے پروگرام بنائیں بیرون ملک اپنے اداروں کو متحرک کریں تو عوام پر ان کا اچھا امیج جائے گا۔ ’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘‘ آگے سب کی اپنی مرضی ہے…
٭٭٭٭٭
کفایت شعاری کے نام پر نئی ملازمتوں پر پابندی
لیجئے جناب! ایک طرف حکومت دن رات ایک کروڑ نئی نوکریوں کی فراہمی کے دعوے کرتی پھرتی ہے دوسری طرف کفایت شعاری کے نام پر ملک بھر میں نئی ملازمتوں پر پابندی کا نقارہ بجایا جا رہا ہے جو بے روزگاروں پر کسی خودکش حملے سے کم نہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف حکومت ارکان اسمبلی اور دیگر حکومتی اداروں کی مراعاتوں میں تنخواہوں میں من مانا یا منہ مانگا اضافہ کرتی پھرتی ہے اس وقت کسی کو کفایت شعاری یاد نہیں رہتی۔ جہاں کہیں عوام کو ذرا سا فائدہ ہوتا نظر آتا ہے حکمرانوں کے دلوں میں سوئی ہوئی کفایت شعاری کی محبت اچانک انگڑائی لے کر جاگ اٹھتی ہے۔ خدا خدا کر کے بے روزگاروں کو امید بندھی تھی سرکاری نوکریوں سے پابندی اٹھی تھی مگر اے آرزو بسا کہ خاک شد! اب پھر حکومت نے ان کے ارمانوں کی نگری میں آگ لگا دی ہے جو لوگ روزگار کے آسرے پر موجود حکومت کو لائے تھے وہ اب پھٹیں گے نہیں تو کیا منہ بند کر کے روئیں گے۔ کہاں گئیں وہ ایک کروڑ نوکریاں جن کی آس پر بے روزگاروں نے تبدیلی کو ناممکن سے ممکن کر دکھایا تھا۔ خدارا حکمران کفایت شعاری کے نام پر ایسے فیصلے کرنے کی بجائے عوام کو روزگار کی فراہمی ممکن بنائیں۔ ورنہ ان بے چاروں کی آہیں کہیں کوئی اور رنگ نہ لے آئیں۔
٭٭٭٭٭