غلط بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے : نواز شریف، نااہلی کیس سے متعلق وکلا کے سامنے 12سوالات رکھ دیئے
لاہور (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ میں بہت عرصے سے عوام اور جمہوریت کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 70 سال سے کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، اگرنوازشریف بُرا ہے تو کیا باقی اٹھارہ وزرائے اعظم بھی نواز شریف تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سوراخ کو بند کرنا ہے جس سے بار بار جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کو ڈسا جاتا ہے۔ ہم نے فیصلہ پر فی الفور عمل کیا لیکن اس غلط فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔ مولوی تمیز الدین سے لیکر ظفر علی شاہ کیس تک بہت سے فیصلے آئے جنہیں عوام نے تسلیم نہیں کیا‘ حالیہ فیصلہ کو بھی برے فیصلوں والی الماری میں ڈال دیا گیا ۔ پانامہ پر فیصلہ عوام کی پراپرٹی بن چکا جس پر عوامی رائے دی جا رہی ہے اور دی جاتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے جس ڈائیلاگ کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم بیماری کی نہ صرف تشخیص کریں بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کریں تاکہ آئین پاکستان کی جانب سے عوام کو دیئے جانے والے ووٹ کے تقدس اور اس سے ملنے والے اختیار کے استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میری جدوجہد یا تبدیلی خواہش یا انقلاب کی آرزو کا حاصل یہی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ ان کے ووٹ کا تقدس بحال کیا جائے ، ووٹ کی بیحرمتی کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اور ووٹ کی بے حرمتی کی وجہ سے ہی قوموں کی برادری میں ایک تماشا بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ معاملہ جو قومی ڈائیلاگ کا مرکزی موضوع ہونا چاہئے۔ انہوںنے وکلائ، دانشوروں، اساتذہ، محنت کشوں اور دیگر تمام طبقات زندگی سے اپیل کی کہ وہ اس ڈائیلاگ کا حصہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ان تمام طبقات سے مکالمے کا آغاز کرے گی۔ وکلاءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ میں اپنی بحالی نہیں عوام کے حق حاکمیت کی بحالی چاہتا ہوں۔ پاکستان اور وکلاءکا رشتہ تحریک آزادی اور وطن عزیز میں جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی تحریک کا مقصد نہ صرف ججوں اور عدلیہ کو بحال کروانا بلکہ آئین کی سربلندی اور عوام کو انصاف کی فراہمی تھا اور وکلاءاس تحریک کا ہمیشہ ہراول دستہ رہے- انہوں نے کہا کہ آج بھی آپ پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے- علامہ اقبال کی فکر اور قائداعظم کے پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور عدلیہ کی آزادی کے لئے کردار ادا کریں- انہوں نے کہا کہ پانامہ میں شامل سینکڑوں لوگوں میں میرا نام تک نہ تھا- جب معاملہ سامنے آیا تو میں نے عدالت عظمیٰ سے کمشن بنانے کے لئے کہا ، کئی ہفتہ تک مجھے جواب نہ ملا- انہوں نے کہا کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی مگر وہاں بھی کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا- اصل مسئلہ یہ تھا کہ معاملہ کو سڑکوں و چوک چوراہوں میں لا کر ایسی صورتحال پیدا کی جائے جس سے بحران پیدا ہو جائے- انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی تو عدالت نے اسے بے معنی قرار دیا پھر اسلام آباد دھرنے، لاک ڈا¶ن اعلان ہوا تو اسی پٹیشن پر سماعت شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیصلہ 20 اپریل اور دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا - ان فیصلوں کے بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں لیکن چند سوالات ایسے ہیں جو ماہرین قانون کو نہیں عام شہری کو بھی پریشان کرتے ہیں ، پہلا سوال کیا آج تک کبھی ایسا ہوا ہے کہ وٹس ایپ پر پوری تفتیشی ٹیم کا انتخاب کیا گیا ہو؟ - دوسرا سوال کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ہے ؟ - تیسرا سوال ، یہ کہ کیا قومی سلامی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملہ کی تحقیق کیلئے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ہو؟- چوتھا سوال ، کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین ججز نے ایسی جے آئی ٹی کی نگرانی کی- پانچواں سوال، کیا کسی پٹیشنر نے دبئی کمپنی اور میری تنخواہ کی بنیاد پر میری نا اہلی کی استدعا کی تھی- چھٹا سوال ، کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قوانین کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کر نے کے لئے کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے - ساتواں سوال کیا ہماری 70 سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں چار فیصلے سامنے آئے ہوں ؟، آٹھواں سوال ، کیا کبھی وہ جج صاحبان پھر سے حتمی فیصلے والے بنچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلے دے چکے ہوں ؟ نواں سوال، کیا ان جج صاحبان کو بھی جے آئی ٹی کی بنیاد پر فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور سماعت میں بھی شامل نہیں ہوئے- دسواں سوال، کیا پوری عدالت تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی کارروائی کے لئے بھی ایسے جج کو نگران مقرر کیا گیا ہو جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو؟ گیارہواں سوال، کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ کا جج آزاد فیصلہ کر سکتا ہے اور کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کے حصول کے مطابق ہے،؟ آخری سوال کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کے لئے عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے - انہوں نے کہا کہ وکلاءسے بہتر کون جانتا ہے کہ ضابطہ فوجداری کیلئے رجوع کیلئے مجاز عدالت 22A،22B ضابطہ فوجداری کے تحت ایک اختیار ایک ایڈیشنل جج کا ہے، یہاں براہ راست عدالت عظمی سے رجوع کیا گیا ، یہ نیب طریقہ کار کے تحت ریفرنس فائل سے پہلے شکایت، اس کی تصدیق ، انکوائری اور پھر تفتیشی مراحل کا پورا ہونا لازم ہے۔ ایک شہری یہ معاملہ عدالت عظمی کے سامنے حل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی قانون سے پوچھ رہا ہے ہم نے ریویو پٹیشن میں ان سوالات کو بھی اٹھایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ غلط بنیادوں پر غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے۔ ایسے فیصلہ پر عملدرآمد کیا اورکوئی لمحہ ضائع کئے بغیر میں عہدہ سے الگ ہو گیا۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس غلط فیصلے کو تسلیم بھی کر لیںاور اس غلط اور افسوسناک فیصلے کو آئندہ کیلئے نظیر بنا دیں۔ ایسے فیصلوں پر عملدرآمد کے باوجود انہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری تاریخ میں بہت سے فیصلے موجود ہیں جن پر عملدرآمد تو ہوا لیکن انہیں عزت اور توقیر نہیں ملی- مولوی تمیزالدین سے لیکر ظفر علی شاہ کیس تک بہت سے فیصلے موجود ہیں جن میں عوام نے انہیں رد کر دیا اور اس پر اپنا ردعمل دیا- انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بھی پبلک پراپرٹی ہے۔ جسے برے فیصلوں والی الماری میں ڈال دیا گیا ہے اور جو بے توقیر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ اللہ اور عوام پر چھوڑ دیا ہے لیکن اس فیصلہ سے ملک کی خوشحالی اور ترقی کے سفر پر برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے اثرات آئین پر بھی پڑے ہیں اور عوامی نمائندوں کے سر پر ایک مستقل تلوار بھی لٹکا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین عوام کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے، صدیوں سے مسلمہ اصول ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ ہوتے ہوئے دکھائی بھی دینا چاہیے۔ بد قسمتی سے پانامہ کیس کے دوران کسی مرحلے پر بھی انصاف ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلے خود عدلیہ کے وقار اور ساکھ پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ انصاف کی حکمرانی کا یہی حال ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس پر عوام کے اعتماد کا کیا حال ہو گا - انہوں نے کہا کہ ہماری 70 سال کی تاریخ میں آئین و قانون کی بالادستی سوالیہ نشان بنا رہا - انہوں نے کہا کہ 1970 میں پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے لیکن جب ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملک دو لخت ہو گیا- انہوں نے کہا کہ ملک میں 23 سال تک ڈکٹیٹروں نے براہ راست حکومت کی اور اسطرح ہر ڈکٹیٹر کو ساڑھے آٹھ سال جبکہ منتخب وزرائے اعظم کو صرف دوسال اوسطا حکومت کرنے کا موقع ملا - دستور میں آئین کو توڑنے کو جرم قرار دیا گیا لیکن آرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی آئین شکن کا ٹرائل نہیں کیا گیا- انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پہلے اقتدار سے نکالا گیا اور پھر پھانسی پر چڑھا دیا گیا- بے نظیر بھٹو کو دوبار اقتدار ملا مگر انہیں دونوں بار فارغ اور پھر قتل کر دیا گیا- انہوں نے کہا کہ مجھے پہلی بار اقتدار ملا تو 58 ٹو بی کے ذریعے، دوسری بار ڈکٹیٹر نے شب خون مار کر اٹک قلعہ میں ڈال دیا اور ہائی جیکر قرار دیا اور پھر جلا وطن کر دیا گیا اور پھر تیسری بار قوم نے منتخب کیا تو عدالت نے عدالتی فیصلہ کے ذریعے مجرم قرار دے کر نا اہل کر دیا گیا - جرم یہ قرار دیا گیا کہ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی۔ مجھے طعنہ دیا جاتا ہے کہ میری کسی سے نہیں بنتی۔ مجھ میں کوئی خامی ہو گی کیا جو باقی اٹھارہ وزرائے اعظم آئے کیا وہ بھی نواز شریف تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سوراخ کو بند کرنا ہو گا جہاں سے بار بار جمہوریت اور عوامی نمائندوں کو ڈسا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کو بار بار پامال کرنے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ آئین کے تقاضوں کے برعکس ہماری عدالتیں آمروں کے اقدامات کو شرف قبولیت بخشتی رہیں۔ انہوں نے نہ صرف انہیں آئین میں من پسند ترامیم کرنے کا اختیار دیا بلکہ اس کا حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دیتی رہیں۔ جج صاحبان نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے ان آمروں کی شخصی وفاداری کا حلف اٹھایا۔ طاقت اور عدالت کے اس گٹھ جوڑ نے ملک و قوم اور آمریت کو شکنجے میں جکڑے رکھا اور دوسری طرف سیاستدان بھی اس گٹھ جوڑ کا نشانہ بنتے ہوئے پھانسیوں پر چڑھتے، جیلوں میں سڑتے اور ملک بدر ہوتے رہے مگر کوئی بھی آئین شکن آج تک سزا نہیں پا سکا۔ انہوں نے کہا کہ میں جس ڈائیلاگ یا مکالمے کی بات کر رہا ہوں اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم بیماری کی نہ صرف تشخیص کریں بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کریں تا کہ آئین پاکستان کی جانب سے عوام کو دیئے جانے والے ووٹ کے تقدس اور اس سے ملنے والے اختیار کے استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ میری جدوجہد یا تبدیلی خواہش یا انقلاب کی آرزو کا حاصل یہی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے- ان کے ووٹ کا تقدس بحال کیا جائے، ووٹ کی بحرمتی کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اور ووٹ کی بے حرمتی کی وجہ سے ہی قوموں کی برادری میں ایک تماشا بنے ہوئے ہیں - یہ ہے وہ معاملہ جو قومی ڈائیلاگ کا مرکزی موضوع ہونا چاہیے- انہوںنے وکلائ، دانشوروں، اساتذہ ، محنت کشوں اور دیگر تمام طبقات زندگی سے اپیل کی کہ وہ اس ڈائیلاگ کا حصہ بنیں - انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ان تمام طبقات سے مکالمے کا آغاز کرے گی۔ میں اپنی بحالی نہیں عوام کے حق حاکمیت کی بحالی چاہتا ہوں۔