امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوب ایشیاءکے لئے تازہ پالیسی نے میرے ان تمام خدشات اور پیشن گوئیوں کو درست ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ نہ کبھی ہمارا دوست تھا، نہ ہے اور ہی آئندہ کبھی ہو گا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے ہمیشہ زمینی حقائق کے برعکس فیصلے کئے ہیں اور اپنا جھکاﺅ امریکہ و بھارت تک رکھا ہے جس کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ یہ امریکی خوشنودی ہی تھی کہ ہم بغیر سوچے سمجھے افغان جنگ میں کود پڑے اور روس کی مخالفت مول لی۔ یہ امریکی ایماءہی تھی کہ ہم پاک ایران گیس پائپ لائن سے علیحدہ ہوئے اور یہ امریکی دباﺅ ہی تھا کہ ہم بلاخوف و خطر نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں شامل ہوئے اور بدلے میں دہشت گردی کو اپنے ملک کے ہر شہر و گاﺅں میں دعوت دی۔ کتنے دکھ و افسوس کی بات ہے کہ امریکی صدر کہتے ہیں کہ پاکستان ہم سے اربوں ڈالرز لے کر ہمارے دشمن کو پناہ دیتا ہے مگر اصل حقائق یہ کہتے ہیں کہ اس نام نہاد امریکی دہشت گردی کی جنگ میں ناصرف ہماری معیشت کو 130ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا ہے بلکہ ہمارے ملک کے اسی ہزار سے زیادہ بے گنا ہ شہریوں، فوجی جوانوں، بوڑھے اور خواتین و بچے بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں مگراس کے بدلے میں ہمیں امریکہ سے صرف ڈومور کا مطالبہ ہی ملا۔ اس لئے واقعات اور حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سے پاک امریکہ تعلقات کی ابتداءہوئی ہے جب سے اب تک پاکستان کو امریکہ سے صرف نام نہاد وعدے اور دھوکے ہی ملی ہیں۔ اگر ہم معاشی طور پر امریکہ سے تعلقات کا جائزہ لیں تو اس شعبے میں بھی امریکہ نے ہم سے کبھی بھی دوستی نہیں نبھائی بلکہ تقریباً گذشتہ پندرہ سالوں سے اپنے تاجروں وصنعتکاروں کو سفری ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے کہ پاکستان کا سفر نہ کیا جائے جبکہ پاکستانی تاجروں و صنعتکاروں کے تمام تر مطالبات اور خواہشات کے باوجود اپنی منڈیوں تک پاکستانی تاجروں و صنعتکاروںکو رسائی نہیں دے رہا اور پاکستانی تاجروں و صنعتکاروں کو امریکی ویزوں کے حصول میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ کے لئے پاکستانی برآمدات میں کمی آرہی ہے جیسا کہ مالی سال 2005-2006 میں امریکہ کے لئے پاکستان کی برآمدات 3.69ارب ڈالرز تھیں جو اب گیارہ سال کے بعدبھی مالی سال 2016-2017میں 3.68ارب ڈالرز رہی ہیں یعنی برآمدات بلحاظ رقم تو برابر رہی ہیں مگربرآمدی اشیاءکی تعداد و حجم میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے مگر یہ بھی ایک اچنبھے کی بات ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ سے ہماری درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مالی سال 2003-2004میں جو درآمدات 974ملین ڈالرز تھیں وہ مالی سال 2016-17میں 2101ملین ڈالرز ہوگئی ہیں یعنی برآمدات میں تو بلحاظ رقم وحجم کمی ہوئی ہے مگر درآمدات میں بلحاظ رقم وحجم دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ مرکزی بینک کے ان اعدادوشمار سے باآسانی ثابت ہوتا کہ امریکہ کے ان دعوﺅں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا دوست سمجھتا ہے اور پاکستان سے اپنے تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے جبکہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر، قونصلر جنرل اور دیگر ارباب اختیار پاکستان سے تعلقات بالخصوص تجارتی تعلقات بڑھانے کی خالی خولی پینگیں بھی بڑھاتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ بھارت سے اپنے تجارتی تعلقات میں مسلسل اضافہ کئے جا رہا ہے جس کا ثبوت یہ اعداد و شمار ہیں کہ سال 2002میںامریکہ کے لئے بھارتی برآمدات 11.82ارب ڈالرز تھیں جومالی سال 2016-17میں 75فیصد اضافے کے بعد46.95ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔اس کے علاوہ جس امریکی محبت میں ہم نے روس سے مخاصمت مول لی تھی وہی ملک روس ہم سے تجارتی بڑھائے جارہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ مالی سال 2003-2004میں روس کے لئے ہماری برآمدات صرف 21.3ملین ڈالرز تھیں جومالی سال 2016-17میں 131ملین ڈالرز ہوچکی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پچھلے تین چار سالوں میں سی پیک کی صورت میں چین ہمارے بہت قریب آیا ہے، روس سے بھی وہ سرد مہری نہ رہی ہے اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے ہمارے معاشی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے خصوصاً مسلم دوست ملک ترکی سے معاشی وسیاسی تعلقات بتدریج بڑھے ہیں جس میں اضافے کے بے پناہ مواقع موجودہ ہیں مگر ایران کے ساتھ ہم اس حد تک نہیں بڑھے ہیں جس کی انتہائی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں آر سی ڈی کی طرز پر پاک ایران اور ترکی کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا کیونکہ ہم اپنی معیشت کو زیادہ مضبوط اسی صورت میں کرسکتے ہیں جب ہم اپنے قریبی ممالک سے معاشی تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں چین، روس، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستیں اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے شراکت داری میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی بنیادی پالیسیاں حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے قومی مفاد میں بنانی چاہیے۔یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور علاقائی ممالک سے تعلقات بڑھانے چاہیے مگر اس میں بھی اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اب اگر ہم قریبی علاقائی وپڑوسی ممالک سے تجارت کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کا ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی ومعاشی تعلقات کیوں نہ استوار کئے جائیں؟تو جہاں تک اپنے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات کی بات ہے تو زمینی حقائق اور اعدادوشمار کے مطابق یہاں ملکی وقومی مفاد کے پہلو سے صرف نظر کیا گیا اور بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستان کے برعکس بھارت کا زیادہ مفاد نظر آتا ہے جیسا کہ مرکزی بینک کے اعدادوشمارکے مطابق مالی سال 2004-2005 میں پاکستان کی بھارت کے لئے برآمدات1904.4ملین ڈالرز اور درآمدات485.6ملین ڈالرز تھیں یعنی پاکستان کو 295.6ملین ڈالرز کے تجارتی خسارے کا سامنا رہاتھا۔ مگر اس کے بعد بھی ناقص پالیسیوں اور بھارتی نوازی کا سلسلہ جاری ہے بالخصوص موجودہ ارباب اختیار نے ملکی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تعلقات اور تجارتی ومعاشی تعاون کی ہر ممکن کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مالی سال 2004-2005کے مقابلے میں اب مالی سال 2016-2017میں بھارت کے ساتھ پاکستان کی برآمدات 53فیصد اضافے کے بعد408ملین ڈالرز اور درآمدات 71فیصد اضافے کے بعد 1688ملین ڈالرز رہی ہیں جبکہ تجارتی خسارہ 77فیصد اضافے کے بعد 1280ملین ڈالرز ہوچکا ہے۔اس لئے اب نئی امریکی دھمکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیںاپنے صحیح دوست و دشمن کا ادراک کرلینا چاہیے اور اسی کے مطابق اپنی سیاسی و معاشی پالیسیاں بنانی چاہیے اور مزید کسی کی بھی دھونس، دھمکی یا دباﺅ کو خاطر میں لائے بغیر اپنے ملک کے زمینی حقائق اور حقیقی وسائل کو استعمال میں لاکر اپنے ملک کی پالیسیاں بنانی چاہیے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے وسائل کو استعمال میں لانے کے بجائے بیرونی امداد، بھیک اور قرضوں پر انحصار کرتے ہیں اور اسی وجہ سے بیرونی طاقتوں کو ہم پر دباﺅ ڈالنے اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع ملتا ہے۔اس لئے اب ہمارے نئے وزیراعظم اورنئی کابینہ بالخصوص وزارت تجارت کے ارباب اختیارکواپنی پوری توجہ قرضوں اور بھیک پر انحصار کی پالیسیوں سے ہٹا کر پاکستان کے زمینی حقائق اور اصل وسائل پر رکھنی چاہیے کیونکہ اگر پاکستان معاشی واقتصادی طور پر خودمختار اور آزاد ملک ہوگا تو کسی بھی بیرونی طاقت کو ہم پر اپنی من مانی کرنی کی جرا¿ت نہیں ہو گی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024