الوداع میڈم فاؤ
ڈاکٹر رتھ فاؤ جو 10 اگست کو انتقال کر گئی تھیں انہیں قومی اعزاز کے ساتھ اس کے تابوت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر گورا قبرستان کراچی میں دفن کر دیا گیا آخری رسومات میں پاکستانی افواج کے تینوں سربراہ چیف آف آرمی سٹاف‘ صدر پاکستان‘ گورنر سندھ‘ وزیراعلیٰ سندھ‘ صوبائی کابینہ کے اراکین موجود رہے سرکاری اعزز کے ساتھ تدفین ڈاکٹر رتھ فاؤ کے کام کو قومی سطح پر سراہا جانا ہے اسی لئے قوم پرچم سرنگوں رکھنے کی ہدایت کی گئی ۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ اکتیس سال کی عمر میں 1962ء میں پاکستان آئیں۔ میڈیکل کی تعلیم 1950ء میں مکمل کی اس طرح پاکستان میں جذام کی انتہائی تکلیف دہ بیماری میں پاکستانیوں کی مدد کے لئے آیئں اور پھر اپنی پوری زندگی ایسے مریضوں کے لئے وقف کر دی اور شادی بھی نہیں کی۔ سال 1979ء میں حکومت پاکستان نے جذام پر اسے ایڈوائزر بنایا بعدازاں 1988ء میں پاکستانی شہریت دے دی گی ڈاکٹررتھ فاؤ کی محنت شاقہ کی وجہ سے ورلڈ پبلتھ آرگنائزیشن نے 1996ء میں جذام پاک علاقہ قرار دے دیا ان قومی خدمات کے جواب میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ ہلال‘ ستارہ قائداعظم اور دیگر اعزازات سے نوازا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ 1929ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں دوسری جنگ عظیم میں ان کا گھر گر گیا لیکن بہن بھائیوں نے اپنی تعلیم مکمل کی 1950ء میں ڈاکٹر کی تعلیم مکمل کی اس دوران ایشیائی ممالک میں جذام کی بیماری عام ہو گئی خصوصاً پاکستان اور افغانستان میں زیادہ آبادی متاثر ہوئی محترمہ نے افغانستان مںی بھی کام کیا لیکن 1962 میں پاکستان میں آئیں تو یہیں کی ہو کے رہ گئیں۔ سال 1963 میں میکلوڈ روڈ نزد سٹی ریلوے اسٹیشن کراچی میں اپنا پہلا جذام سنٹر کھولا اور ایسے مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔
پاکستان کو جب جذام سے پاک علاقہ قرار دے دیا گیا تو انہوں نے ٹی بی اور آنکھوں سے متعلق بیماریوں پر کام شروع کر دیا اور مرتے دم تک انسانیت کی خدمت کی اور اسی پاکستانی زمین میں دفن ہونا پسند کیا اسی لئے آج ڈاکٹر فاؤ کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے کوڑھ کے صحت مند مریض بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف کراچی میں نہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی دورے کئے وہ ضلع ڈیرہ غازی ان کی تحصیل تونسہ میں بھی آئیں اور مریضوں کا علاج کیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کا احسان کوئی بھی پاکستانی نہیں اتار سکتا وہ ہمیشہ ان لوگوں کے دلوں میں رہے گی جن لوگوں یا جن کے عزیز و اقارب کا علاج کیا ہے جذام جسے کوڑھ کی بیماری بھی کہا جاتا ہے وہ مریض ان کے گھر اور والے سمجھتے تھے کہ اب یہ کبھی صحت مند نہیں ہو سکتا کیونکہ اس مریض کا جسم اتنا زخموں سے چور ہو جاتا تھا کہ اس کی پٹی کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور اتنی بدبو ہو جاتی کہ مریض کو گھر میں رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا تھا اہل خانہ اﷲ کی رضا سمجھتے ہوئے گھر سے دور ویرانوں میں چھوڑ آتے تاکہ وہ جلد مر سکیں ایسے حالات میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کا پاکستان آنا ایسے تھا جیسے ان گھروں میں خوشیاں لوٹ آئی ہوں اس نے ایسے مریضوں کو نہ صرف مرہم پٹی کی اور اپنے پاس رکھ کر ان کا علاج کیا جنہیں اپنوں نے چھوڑا فاؤ نے انہیں اپنا لیا۔ ایسے مریض جنہیں دور ویران میں عارضی رہائش گاہوں میں منتقل کر دیا جاتا وہ بھی مخیر لوگوں نے تعمیر کرا رکھی تھیں ایسے مریضوں کے اہل خانہ اپنا منہ لپیٹ کر دیوار سے کھانا اندر پھینک دیتے ان کوڑھی احاطوں میں وہ مٹی میں اٹی روٹیاں اٹھا کر کھا لیتے اور آخر کار مریض سسک سسک کر جان دے دیتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ساٹھ ہزار جذام کے مریضوں کو زندگی دی محترمہ فاؤ نے ایک جذام سنٹر سے ابتدا کی اور اسے ہسپتال کا درجہ دیدیا بعدازاں 170 جذام سنٹر بنائے جن کے نتیجے میں اس خطرناک مرض کا خاتمہ یقینی ہو سکا۔ میڈم فاؤ انسانیت کا قطب مینار تھیں اور غریبوں کا درد بانٹنے والی یہ خاتون دس اگست کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئی اور انیس اگست کو پورے اعزاز کے ساتھ انہیں توپوں کی سلامی کے ساتھ دفن کر دیا گیا اس سے پہلے پاکستان کی اہم شخصیت عبدالستار ایدھی کو بھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے پاکستان کے اعلیٰ عہدے داران نے پورے اعزازات کے ساتھ سپردخاک کیا ہے اورآج پاکستانی مدر ٹریسا کو بھی سپردخاک کر دیا گیا۔ الوداع فاؤ‘ الوداع