عید قربان اور گرانی
عید الالضحیٰ اس عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے جو حضرت ابراہیم ؑنے اللہ کی راہ میں پیش کی اللہ رب العزت کو اپنے خلیل کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک مسلمانوں کیلئے لازم قرار دے دیا کہ دس ذوالحج کو اس قربانی کی یاد میں جانور ذبح کئے جائیں قربانی ہر صاحب استطاعت پر لازم ہے جس کا ایک حصہ اہل خانہ،دوسرا عزیزواقارب اور تیسرا غربا ء و مساکین کیلئے وقف کیا جاتا ہے یوں خوشی اور مسرت کے ان لمحات میں سب ہی اپنے مسلمان بہن بھا ئیوں کو شریک کر کے اخوت ومحبت کی مثال قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں بڑی عید میں سب سے اہم کام سنت ابراہیمی ؑ کی ادائیگی ہی ہے ہر سال پاکستان میں بھی فرزندان توحید لاکھوں جانوردینی جذبے کے تحت قربان کرتے ہیں اس مقصد کیلئے دنبے ،بکرے یا پھر گائے،بیل اور اونٹ میں حصہ ڈالا جاتا ہے ۔ اسلام دین فطرت بھی ہے جس میں مذہبی امور کی انجام دہی سے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیںقربانی اللہ کی راہ میں کی جاتی ہے اس طرح یہ عمل خالق حقیقی کی خوشنودی کے حصول کا باعث بن جاتا ہے کیونکہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے گناہوں کی معافی کی نوید دی گئی ہے دوسری طرف دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ کہ گوشت کی تقسیم کے عمل سے اپنے پرائے سبھی لطف اندوز ہو جاتے ہیں اور یہ سب کام بخوشی سر انجام پانے کی وجہ سے حقیقی خوشی کے حصول کا باعث بھی ہے کیونکہ سچی مسرتوں کا راز دوسروں کو خوش کرنے میں ہی مضمر ہے لیکن موجودہ دور کی کمر توڑ مہنگائی نے اس مذہبی تہوار کی خوشیوں پر بھی اپنا بھرپور وارکرنے کی کوشش کی ہے عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مویشی منڈیاں سج جاتی ہیں جہاں اعلی نسل کے جانور بڑے اہتمام سے لا ئے جاتے ہیںان جانوروں کی سال بھر خصوصی نگہداشت کی جاتی ہے ان کی سج دھج دیکھ کربچے بڑے سبھی کھینچے چلے آتے ہیںہر ایک کی خواہش ہو تی ہے کہ اسکا جانور سب سے خوبصورت اور صحت مند ہولیکن جیسے ہی وہ انکی قیمت سنتے ہیں تو سوچنے اور بالآخر ارادہ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں وجہ ہے ان کے آسمان سے باتیں کرتے نرخ ْ۔آج سے کچھ عرصہ قبل دنبہ اور بکرا تقریبا عام آدمی کی پہنچ میں تھارفتہ رفتہ اس رحجان میں کمی آتی گئی اور لوگوں نے حصہ ڈالنے سے ہی فریضہ کی ادئیگی کو نسبتا آسان گردانا لیکن امسال اگر مویشی منڈی پر نگاہ دوڑائی جائے توحصہ ڈالنا بھی عوام کیلئے ناممکن ہوتا جا رہا ہے اب بکرے کی قیمت کم از کم پینتیس سے چالیس ہزار تک ہے جبکہ بڑا جانور ایک لاکھ سے سوا لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے ان حالات میں قربانی کی خواہش محض خواب و خیال ہی معلوم ہوتی دکھائی دیتی ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ متذکرہ ریٹ عام جسامت کے حامل جانوروں کے ہیں جبکہ اعلی نسل کے جانوروں کوتو محض دور سے ہی دیکھ کر دل بہلایا جا سکتا ہے قربانی کے جانوروں کے اس قدر مہنگے نرح کیوں ہیں اس حوالے سے جب مالکان سے بات کی جائے انکا موقف کچھ یوں ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور عام جانور نہیں ہوتا اس کی پرورش خصوصی انداز سے کی جاتی ہے انکی خوراک وغیر ہ پر کافی اخراجات آتے ہیں یہی نہیںاس محنت کے بعد منڈی میں بحفاظت لانے اور یہاں ان کے چارے کا بندوبست اور اپنے قیام وطعام کا تخمینہ بھی کافی بڑھ جاتا ہے مزید براں چارہ مہنگا بھی ہے ان حالات میںبھی ہماری ڈیمانڈ اس سے کم ہی ہوتی ہے جن مشکلات اور اخراجات سے گزر کر ہم رزق کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بیوپاری حضرات کا شکوہ بجا ہے حکومت کی اولین ذمہ داری عوام کو سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ضروریات زندگی تک آسان رسائی یقینی بنانا ہے اس مقصد کیلئے مہنگائی کنٹرول کرنے اورہمہ وقت اور دور رس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہماری اشرافیہ کے نزدیک یہ سب باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کے ستر سال گزرنے کے باوجود کسی بھی حکومت کی نیند عوام کی زندگیوں کو فکر معاش سے بے فکر کرنے کی سوچ میں خراب نہیں ہوئی اور تا دم تحریر اس کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی معصوم عوام ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت کرنے پرا ور بعض ازاں خریدنے پر مجبور ہیںسوال یہ ہے کہ کیا کوئی عمر بن عبدالعزیز کے نقش قدم پر چلنے کا سوچے گاجنہوں نے اپنی حکومت کو حکومت نہیں عوامی فلاح وبہبود اور خلق خدا کی خدمت کا اہم فریضہ سمجھا؟