مجھے یاد ہے
مجھے یاد ہے بچبن کے زمانے میں گائوں کی تپتی ہوئی دوپہر کو کسی مداری کی ڈُگڈُی کی آواز سن کر ہم سب بچے تماشا دیکھنے گھروں سے نکل آتے۔ مداری کسی کھلی جگہ پر بیٹھا ایک ہی وقت میں ڈُگڈُی بجانے اور سٹیج سجانے میں مصروف ہوتا۔ اس کے پاس بندر، بکرا، سانپ ، ریچھ ان میں سے کوئی ایک یا دو ہوتے۔ جس کے کرتب دکھا کر وہ بچوں کو محظوظ کرتا۔ جب بہت سے بچے اس کے گرد جمع ہو جاتے تو وہ کسی ایک بچے کو رضاکارانہ طور پر آنے کو کہتا۔ ہم سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے کہ کون آگے جاتا ہے۔ پھر اچانک ایک سکول سے بھاگا ہو ا آوارہ کھلنڈرا ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے ہوئے مسخرہ سا بچہ جس کے گھر میں اُس کی تربیت کرنے والا کوئی نہ تھا، پیلے پیلے دانت نکالتا ہوا مداری گر کے سامنے جا بیٹھتا جو فوراََ اندازہ لگا لیتا کہ بچہ تجربہ کار ہے اور وہ اُسے اپنے کھیل میں استعمال کر سکتا ہے۔ پھر تالیوں کی گونج میں کھیل شروع ہوتا ۔بچے جمورے ! واہ واہ! جو کہوں کا کرو گے! کرے گا۔ بولو لڑو گے! لڑوں گا۔ مرو گے ! مروں گا۔ بچے جمورے ! واہ واہ! پھر مداری گر بندر، بکرے ، ریچھ اور اس بچے کی مدد سے دیر تک تماشا لگائے رکھتا۔ کھیل ختم ہونے کے قریب آتا تو مداری گر اپنے یا بندر کے پیٹ پر ہاتھ مار کر اپنا اصل مقصد سمجھاتا۔ اشارہ پاتے ہی بچے اپنے گھروں کو دوڑتے اور حسبِ توفیق آٹا، گندم یا پیسے لا کر مداری کی جھولی میں ڈال دیتے ۔ وہ سب کچھ سمیٹ کر تھیلا کاندھے پر ڈالے ایک ہاتھ میں پٹاری اور دوسرے ہاتھ میں بندر اوربکرے کی ڈور لیے اپنی راہ لیتا اور بچہ جمورا! اپنے ساتھیوں کی لعن طعن، طنز و مزاح اور تعریف و تنقید کے کلمات کی بوچھاڑ میں کسی تھڑے پر جا بیٹھتا۔ قارئین سابق وزیرِ اعظم کی نا اہلی کے بعد نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہونا تھا۔ یہ جاننے کے باوجود بھی کہ مسلم لیگ نون کو قطعی اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے اُنہی کا امیدوار کامیاب ہو گا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اپنی جماعت سے امیدوار مقابلے میں کھڑے کیے لیکن تحریکِ انصاف نے اپنی جماعت کی بجائے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو اپنا امیدوار نامزد کیا حالانکہ ماضی میں خان صاحب شیخ صاحب کے بارے میں جو کچھ فرما چکے تھے اُس کے بعد اُنہیں اپنا امیدوار بنانے کی گنجائش نہ تھی ۔ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ اُنہوں نے ماضی کی سب باتیں بھلا دیں ۔ یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ اب اس معیار پر پہنچ چکے تھے کہ اُن کی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزدگی ہو سکتی تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قائد ِ ایوان کے انتخاب کے وقت موصوف خود بھی اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کیوں نہیں آئے وجہ یہ تھی کہ اُنہیں مسلم لیگ نون کے امیدوار کی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی اور وہ شیخ صاحب کا تماشا بنانا چاہتے تھے ورنہ اُن کے پاس امیدواروں کی کمی نہ تھی اور نہ ہی تحریک ِ انصاف کی جیت یقینی ہونے کی صورت میں خان صاحب اپنے سوا پارٹی کے کسی اور شخص کو قائدِ ایوان کے امیدوار کے لیے کھڑا کرنے کا اُن میں حوصلہ ہے۔ تحریک ِ انصاف کو اگر اپنی کامیابی کی ذرا بھر بھی امید ہوتی تو وہ شیخ صاحب کو اپنا امیدوار نامزد نہ ہونے دیتے۔ کیونکہ خان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے لوگ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پھل پکنے پر اُن کے حصے میں صرف گٹھلیاں ہی آئیں اور نہ ہی عوامی مسلم لیگ کوئی ایسی جماعت ہے جس کے تعاون کے بغیر تحریکِ انصاف کا گزارہ مشکل ہے چنانچہ اگر شیخ صاحب امیدوار نامزد کیے گئے تواس کا مقصد اُنہیں مکھن لگانا اور ہوا بھرنا تھا تا کہ وہ سابقہ روایات کے مطابق کپتان کے جلسوں میں " بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ" کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور لوگوں کو محظوظ کریں۔ دوسری طرف شیخ صاحب منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ سیاست کی بیسیوں بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ کئی سیاسی قائدین کے دستِ شفقت کی سعادت حاصل کر چکے ہیں وہ دوسروں کے متعلق پیشن گوئیاں کرنے کے ماہر ہیں اور کرتے بھی رہتے ہیں۔ قارئین کالج کے زمانے میں ہم چند دوست سیالکوٹ ریلوے روڈ پر بیٹھے ایک نجومی کے پاس رُکے ۔ میرا ایک دوست اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر نجومی سے اپنی قسمت کا حال پوچھنے لگا۔ نجومی صاحب بڑے انماک سے اُس کی آئندہ زندگی ، شادی کا وقت ، بچوں کی تعداد ، بیرون ملک سفر اور اُس کی تعلیم ، صحت اور دولت کے متعلق بتانے لگے کہ اچانک اُس کڑکے نے اپنا دوسرا ہاتھ نجومی کے مُنہ پر دے مارا وہ انتہائی برہم ہو کر بولا یہ کیا بدتمیزی ہے؟ لڑکا بولا میری تو آئندہ بیس تیس سال کی زندگی کا حال تمیں معلوم ہے لیکن اپنے متعلق تمیں اتنا بھی معلوم نہ تھا کہ چند لمحوں بعد تمھارے مُنہ پر تھپڑ آنے والا تھا ۔ قارئین دوسروں سے متعلق پیشنگوئیاں کرنے والے پنڈی کے نجومی کو سیالکوٹ کے نجومی کی طرح اپنے متعلق یہ علم نہ تھا کہ اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے لیے نامزد کرنے والا خود بھی اُنہیں ووٹ نہیں دے گا۔ قارئین آئندہ عام انتخابات قریب ہیں ۔ کیا نتائج نکلیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ بالفرض تحریکِ انصاف تنہا یا اپنی حلیف جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ جاتی ہے تو کیا پھر خان صاحب شیخ صاحب کو ہی اپنی جماعت کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے لیے نامزد کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے اور اگر ایسا نہیں کرتے تو قارئین ذرا سوچیے گذشتہ سالوں میں تحریکِ انصاف کے چیئر مین اور دیگر قائدین کے نزدیک شیخ رشید کی حیثیت کیا رہی ہے؟ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے نہیں تو زیرِ نظر کالم کی اولین سطور کا دوبارہ مطالعہ کیجیے ۔