اہل قیادت سے نا اہل قیادت تک
ایک روز ہلاکو خان اپنے وزراء سے کہنے لگا کہ’’ شکر ہے میں نے ظلم نہیں کیا ہلاکو خان کے منہ سے جملہ سن کر سب وزیر حیران رہ گئے۔اسی حیرت میں ایک وزیر اٹھا اور کہنے لگاکہ اگر حضور جان کی امان پائوں تو عرض کروں‘‘ہلاکو خان نے اجازت دی تو وزیر بولا آج تک جو ہم آپ کے حکم پر انسانوں کا قتل عام کر تے تھے ۔اور انسانوں کو قتل کر کے کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے کیا یہ سب ظلم نہیں تھااپنے وزیر کی یہ باتیں سن کر ہلاکو خان بولانہیںظلم نہیںبلکہ وہ حکمرانی کا تقاضا تھاظلم تو یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی نا اہل کو ایسے عہدے پر مسلط کر دیں ۔’’جس کا وہ اہل نہ ہو‘‘۔قائد اعظم محمد علی جناح کا نام آج تاریخ عالم میں اپنی پوری شان و شوکت اور آب و تاب کے ساتھ سنہری حروف میں جگمگا رہا ہے ۔اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی اصول پسندی۔ دیانت داری۔ اور خلوص نیت کے ساتھ مسلمانان برصغیر کو ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں متحد کیا۔ اور دنیا کے نقشے پر ایک ملک پاکستان بنانے میں کامیاب ہو گئے۔قائد اعظم کے سچے اور بلند کردار ہی کی وجہ سے عوام نے ان پر اندھا اعتماد کیا ۔انہیں دل و جان اور جذبوں کے تحفے پیش کئے۔ ان کے فرمودات پر عمل کیا اور بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ قائد اعظم اپنے قول و علم یک اتنے سچے اور پکے تھے انہوں نے قوم کو جو خواب دکھایا وہ پورا کر کے دکھایا ۔ اور جدوجہد کی راہ کی میں اپنی صحت، زندگی مال و دولت سب کچھ قوم پر نچھاور کر دیا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان اور ان کے دیگر فقاء سیاست، اقتدار اور دنیا سے رخصتی کے بعد پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہی اقتدار کے ذریعے دولت سازی،لوٹ مار،اقربا پروری،خوش آمدنوازی،میرٹ کا فقدان اور سیاسی نفسانفسی کا ایک ایسا طوفان برپا ہوا جو ساری اخلاقی قانونی اور معاشرتی قدروں کو بہا کر لے گیا۔ گزشتہ 70 (ستر برسوں)میں قانون اصول اور سچائی کا اس قدر قتل عام کیا گیا کہ ساری قوم اس رنگ میں رنگ گئی۔ حکمراں طبقے نے لوٹ، کھوٹ۔ قانون و اصول شکنی۔ جھوٹ و فریب اقربا پروری، خوش آمد نوازی کی ایسی ایس مثالیں قائم کیں۔ جو ناقابلِ بیان ہیں۔ نتیجتاًحکمرانوں نے ہماری کئی نسلوں کو اخلاقی گراوٹ کے ایسے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے ۔۔۔ جہاں سے نکلے کے لیے فی الحال کوئی امید کی کرن نظر نہیںآتی۔۔۔کیونکہ جس ملک میں صوبائیت، فرقہ واریت ، لسانیت اور برادریوں کے بنیاد سیاسی جماعتیں بن جائیں اور جن کے منشور کھوکھلے داوئوںاور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ وہاں صرف ملک کی زمین تو نظر آئے گی لیکن قوم نہیں بلکہ قوم ایک منتشر ہجوم نظر آئے گا۔ یہی حال اب ہمارا ہو چکا ہے ۔قائد اعظم نے ایک متحد قوم اور سچ کی بنیاد پر ملک بنایا تھا۔ لیکن اب ملک باقی ہے لیکن قوم ہجوم میں تبدیل ہو کر اپنے اپنے مفادات کے تحت ملک کی جڑوں کھوکھلی کر رہی ہے ۔ ہماری نااہل قیادت نے قائد اعظم کے اصولوں کو پس پشت ڈال کر نظریہ ضرورت جنگل کا قانون ملک میں رائج کر دیا ۔ اور اب ہر فرد سے لے کر ادارہ تک انہیں دو قوانین کے ذریعہ ملک وقومی مفادات اور اپنے ذاتی اقتدار اور ہوسِ زر کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دوڑ میں مصروف ہے۔قیام پاکستان کو ستر برس گزر چکے ہیں 70برس کا عرصہ قوموں کی زندگی میں ایک بڑا عرصہ ہوتا ہے ۔چین ہم سے دو سال بعد آزاد ہوا۔ سنگا پور۔ کوریا اور ملائیشیا نے30سال قبل معاشی ترقی کا آغاز کیا اور یہ تمام اقوام دیکھتے دیکھتے عالمی منڈی میں اپنی معاشی ترقی کا سکہ جما چکی ہیں لیکن گزشتہ گزرے ہوئے ستر برسوں میں پاکستان دنیا میں محض بھکاری بن کر رہ گیا ہے ۔آج چین ترقی کر کے عالمی قوت بن چکا ہے اور اوپر بیان کردہ ممالک ترقی کے ماڈل سمجھے جاتے ہیں ایک اعلیٰ وژن اور اعلیٰ کر دار سے عاری قیادت ملک میں نہ کوئی بڑی تبدیلی لاتی ہے اور نہ ہی قوم کی صلاحیتوں کو ابھار کر سکتی ہے ۔ ہماری نا اہل قیادت کے بیرون ملک اثانوں کی بھر مار کرپشن، قانون اور میرٹ کی پامالی اور دھوکہ دہی پاکستان کی عالمی سطح پر پہچان بن گئے ہیںنا اہل قیادت سے چھٹکارا حاصل کر نے کے لیے ضروری ہے کہ عوام تمام تعصبات سے بلند ہو کر با کر دار لوگوں کا انتخاب کریں اور ملکی و قومی مفادات پر اپنے ذاتی مفاد کو قربان کر تے ہوئے آنے والی آئندہ نسلوں کو ایک بہتر اور خوشحال پاکستان ان کے حوالے کریں۔ تاکہ تاریخ اقوام عالم میں ہمارے ملک و قوم کا نام بھی سنہری الفاظ میں لکھا جا سکے۔