عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
ذرّے میں اتنی توفیق کہاں کہ سو رج کی صفات کو بیان کرسکے اسے اپنی کم مائیگی کا احساس برابر رہتاہے۔ یہ بیسویں صدی کے اول عشرہ کا قصہ ہے ، جب اما م المسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی ؒ غو ث الا عظم کے فکر و فلسفہ کے بڑے مبلّغ اور دین حق کے علمبردار صو فیاء و اتقیاء کے سالار بن کے آئے اور ایک نا بکار کی لایعنی پکار پر مضطرب ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
بر صغیر میں سوسالہ بر طانوی عہد میں ایک بھید ہنود اور فرنگی پر کھلاتھا۔کہ اگر مسلمانوںکے چودہ سو سالہ اجماعی عقیدہ ’’ختم نبوت ‘‘کوٹھیس پہنچا دی جائے یااس کاکوئی متبادل پیش کر دیاجائے تو اس قو م کاشیرازہ بکھر جائے گا۔ حالانکہ یہ نکتہ ان کی سمجھ سے بالا تر تھا کہ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوںکے رگ وریشے میں شامل ہے۔ کوئی مسلمان خواء کتنی ہی ذہنی پستی میں مبتلاہوجائے اللہ کے محبوب اورنبی آخر الزماں ؐکی عظمت سے منحرف نہیںہو سکتے۔
دشمنان اسلام کی عیّارانہ سیاست نے ایک فاتر العقل شخص ڈھونڈ نکالا جو اس مکر و ہ کھیل میں انکا آلہ کار بن سکتاتھا ۔ اسکا نام مرزا غلام احمد تھا وہ برٹش انڈیا میں صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپور کے موضع قادیان میں 1839ء میںپیداہواتھا ۔اس کے والد کانام غلام مرتضیٰ تھا اور اس کا سمر قندی مغل گھرانے سے تعلق تھا ۔ا س کے آبا و اجداد حنفی المذہب مسلمان تھے خود مرزاقادیانی بھی اوائل عمر میں ان کے نقشِ قدم پر چلتا تھا ۔ شروع شروع میں مرزاقادیانی کو باوجود پڑھنے کے جب دسترس نہ ہوئی تو سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ملازم ہوگیا ۔بعد میں ازلی بد بختی کے بنا پر مرزا قادیانی نے دشمنانِ اسلام کے اشارے پرکئی پینترے بدلے کبھی تو عیسیٰ بننے کی کوشش کبھی امام مہدی بننے کاخیال با لا ٓخر اس کے ایک معاون ریاست جموں کشمیر میںطبیب کے عہدہ پر فائز حکیم نور الدین نے اسے دعویٰء نبوّت کرنے کا مشورہ دیا ۔ جس پر اخبار میں اشتہار کے ذریعے خود ساختہ نبوت کا دعویٰ بھی کردیا گیا۔
ادھر جیسا کہ ما مو ر من الرسول اما م المسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانیؒ فرماتے ہیں آنحضرت ؐنے مجھے عالم رؤیا میں مرزا قادیانی کی تردید کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ یہ شخص میری احادیث کو تاویل کی قینچی سے کتر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو ۔ دریںاثناء مرزاقادیانی اپنی گمراہ کن خواہشات کے بحر ظلمات میںاتنی دورنکل گیاکہ صرف اپنے غلط مذہب کے پرچار پر بس نہ کیا بلکہ ایک اشتہار کے ذریعے حضرت پیر سید مہر علی شاہ ؒکو مناظرہ اور مقابلہ کا چیلنج کردیا اپنی کوتاہ بینی کے مطابق شرائط رکھ کر اشتہار میں لکھوادیا کہ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ در حقیقت خداتعالیٰ کے راست باز بندے ہیں ۔ان کے ساتھ تین طرح سے خداکی تائید ہوتی ہے (۱)ان کے اور ان کے غیر میں ایک فرق رکھاجاتا ہے (۲)ان کو علم معارف قرآن دیاجاتاہے (۳)ان کی دعائیں مقبول ہوجاتی ہیں ۔
چناچہ لاہو رمیںصادق اور کاذب کے پرکھنے کیلئے جلسہ عام رکھاجائے اور اس طرح مجھ سے مباحثہ کریں۔قرعہ اندازی سے قرآن شریف کی کچھ سورت نکالیں اوراس میںسے چالیس آیات یا ساری سورت لے کر فریقین یعنی قبلہ عالم پیرمہر علی شاہ ؒاورمرزاقادیانی اول تو یہ دعا کریں یا الہٰی ہم دونوںمیںسے جو شخص تیرے نزدیک سچا ہے اس کو اس جلسہ میں فصیح بلیغ عر بی میں اس سورت کے حقائق اور معارف بیان کرنے کی اپنی طرف سے ایک روحانی قوت عطافرما۔اور روح القدس سے اس کی مدد کر وغیرہ وغیرہ
اس طویل اشتہار کے جواب میں جناب حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی ؒ کی طرف سے ایک تجویز دی گئی تھی کہ بہتر ہوگا تحریری بات سے پہلے ایک تقریری بحث یا مناظرہ کرلیا جائے جس کو مرزاقادیانی نے ماننے سے انکار کردیا تو با لآخر حضرت قبلہ عالم پیر سید مہر علی شاہ گیلانیؒ25اگست کو مرزا قادیانی کی مجوزہ شرائط تسلیم کرتے ہوئے تحریری مباحثہ کیلئے لاہور تشریف لے گئے جب نثار ان احمد مجتبیٰؐ نکلتے ہیںتو ایک زمانہ ان کے ساتھ نکلتاہے۔پوری کائنات ان کے ساتھ چل پڑی ۔افق شفق سے ان کی تائید ہوئی ۔عالم اسلام کے تمام علماء و مذہبی دانشور آپکی قیادت میں سب ساتھ ہو لیے ۔جو آپکو ایک جلوس کی صورت میںلے جانا چاہتے تھے مگر آپ نے پسند نہ فرمایا اور لاہور ریلوے اسٹیشن کے باہر تشریف فرماہوکر دو گھنٹے تک عام لوگوںسے مصافحہ فر ماتے رہے۔ آپ کے قیام کا انتظام پہلے برکت محمڈن ہال میں کیا گیا تھا جہاںآپ نے عقیدہ ختم نبوت کی حقانیت پر عالم اسلام کے نامور علماء پر علمی موتی نچھاور فرمائے ۔25 اگست کے اس چمکتے ہوئے دن کو مخلوق خدا اکھٹی ہو رہی تھی ۔پولیس نے 25اگست اور 26اگست کو دونوںاطراف کے نمائندوں کیلئے مثالی حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے ۔آپ کے وہبی علوم کا سمندر جوش میںتھا چاروںطرف ایک ولولہ تھا ایک جذبہ تھا ۔میدان مناظرہ میں مخلوق خداسمیت مرزاقادیانی کا انتظار کرتے رہے ۔ مگر قادیاانی نے نہ آنا تھا نہ آیا۔علماء نے میدان مناظرہ بادشاہی مسجد لاہور میں آپ کے زیر قیادت ختم نبوت کی یہی تفسیر ممبر پر کھڑے ہوکربیان کی کہ محمدؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔آپ ؐکے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہے نہ ہونا ہے ۔اس مسلّمہ عقیدہ کا انکار کرنے والا دائر ہ اسلام سے خارج ہے ۔اور آپ کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کی شکست کاکھلم کھلا اعلان کردیا گیا۔
25اگست 1900ء کوآپ نے مامور من الرّسول مجدّ د دین و ملت کے منصب پر فائز ہو کر’’ کفر ملت واحدہ ‘‘ کو رہتی دنیاتک یہ پیغام دے دیا ۔کہ عقید ہ ختم نبوت اسلام کی شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور کوئی ناعاقبت اندیش اس کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔آپ کے اس عظیم کارنامے سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اولیاء اللہ اور علماء اسلام میںسے حضور ؐ کی نگاہ انتخاب نے اما م المسلمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانیؒ کو اس فتنہ کی سرکو بی کیلئے چن لیا تھا (مہر منیر کے صفحہ نمبر 230) ۔ اس معرکہ میںتمامی اسلامی فرقوںکے رہنما سنی ،اہلحدیث،دیوبندی ،اہل قرآن کے علاوہ شیعہ مجتہد ین نے بھی ردّ قادیانیت کے محاذپر حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی ؒ کو اپنا سربراہ تسلیم کیا ۔بالکل وہی صورت حال پیداہوگئی جو پاکستان کے وجود میںآنے کے وقت کفر کے مقابلہ میں اسلامی سیاسی پلیٹ فارم پر پیداہوئی تھی ۔جس طرح ہنودو فرنگیوں نے سر زمین فلسطین کے ٹکڑے کرکے یہودیوں کے لیے ایک وطن اسرائیل کے نام سے بنایا ۔اور آج تک یہودیوںکو شہ دے کر عربوںسے اپنی شرائط منوارہے ہیں۔برصغیر کے جمیع مسلمانوںکے بارے میںبھی ان کے ناپاک عظائم یہی تھے ۔جن کی تکمیل کیلئے مرزاقادیانی جیسے کذّاب کو انہوںنے چن لیاتھا لیکن مشیّت ایزدی نے اپنے محبوب بندے حضرت سید پیر مہر علی شاہ گیلانی ؒ کے وجود مسعود کی برکت سے قادیانیت کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔آپ کے بعد آپ کے عظیم فرزند دلبند سیّدغلام محی الدّین المعروف حضرت بابو جی ؒ نے آپ کے ا س عظیم مشن کو جاری رکھا ۔1935ء کی تاریخ کو پرزور انداز سے قادیانیّت کے خلاف چلاتے رہے ۔جن کے بارے میں شورش کاشمیری اپنی کتاب (تحریک ختم نبوت صفحہ نمبر 60)پرلکھتے ہیں کہ حضرت بابو جیؒ اس وقت کے مقتد رین ملک غلام محمد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم اور میاں مشتاق احمد گورمانی وزیر داخلہ سے بھی ملے ۔انہیں مسلمانوں کے جذبات اور مسئلہ ختم نبوّت کی اہمیت سے آگاہ کیا ۔اور اسیران تحریک کی مشکلات پر توجہ دلائی ۔ آپ کے روحانی تصر فات کا فیضان تھا کہ راقم کا قلب مضبوط ہوگیا۔جب جون 1974 ء کا فیصلہ کن دور شروع ہوا تو حضرت بابو جی ؒ مر ض الموت کے نرغے میں تھے لیکن آپ کے معمول میںکوئی فرق نہ آیا تھا ۔آپ کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اللہ والے اسی طرح ہوتے ہیں۔راقم نے وصال سے چند روز پہلے نیاز حاصل کیا تو فرمایا جدّوجہد کیے جائو نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر خاموش ہوگئے ۔چہرہ مبارک دمک رہا تھا ۔فر ما یا’’اب مسئلہ طے ہو کہ رہے گا نصرت آچکی ہے۔میںحضرت اعلیٰ کے پاس جارہاہوں ۔ان سے عرض کروں گاآپ نے جس پودے کی آبیاری کی وہ پھل لے آیا ہے (تحریک ختم نبوت صفحہ 60شورش کاشمیری)