وقارعباسی
waqar051@gmai.com
بھارت کی انتہاپسند حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کشمیر میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کرڈالا اپنے ہی شہریوں کی لاشیں گرا کر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرکے اس کے پانی کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے بھارت کی یکطرفہ سندھ طاس معاہدے سے روگردانی سے جنوبی ایشیائی خطے میں جنگ کے بادل گہرے ہوگئے ہیں پاکستان کو پانی کے حصول کے لیے اب نہیں کبھی تو نہیں کی صورتحال کا سامنا ہے گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت کی مکارانہ چال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاح بھی محفوظ نہ رہے۔اس خطے میں جنگی حالات روز کامعمول ہیں اور سچ بولنا جرم ہے۔انڈیا نے چونکہ آزادانہ رپورٹنگ نا ممکن بنائی ہوئی ہے۔مقامی صحافت پر قدغن ہے۔انٹرنیٹ معطل ہے۔انڈین میڈیا اکثر نیوز روم کو "وار روم" بنا دیتا ہے۔حالیہ واقعہ میں بھی بغیر ثبوتوں کے "پاکستان کا ہاتھ "بیانیہ بنا دیا گیا جس کے باعث حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نا معلوم افراد کے ایک حملے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پاکستان نے اس واقعہ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نامعلوم حملہ آوروں نے ایک سیاحتی گروپ پر اندھا دھند فائرنگ کی اور آسانی سے فرار ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ 8 لاکھ سے زائد فوجی اہلکاروں کی موجودگی میں ایسا حملہ کیسے ممکن ہوا؟یہ سوال کیوں نہ ہو کہ کیا یہ صرف ایک "واقعہ" ہے یا پھر انڈیا کی اسٹیبلشمنٹ کے اسکرپٹ میں لال رنگ بھرا گیا ہے؟انڈیا کے ماضی کے پردوں میں چھپے فالس فلیگ آپریشنز کا جائزہ لیا جائے تو بیشک یہ واقعہ دو گروپوں کی آپسی دشمنی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب کسی واقعے کو ٹول بنا کر کشمیریوں پر جبر کی راہ نکالی جا رہی ہو۔قبل ازیں پلوامہ حملہ (2019) میں 40 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد فوری طور پر پاکستان پر الزام لیکن بعد میں حقائق تضادات سے بھرے نکلے۔کٹھوعہ اجتماعی زیادتی (2018) کیس میں آٹھ سالہ بچی درندگی کا نشانہ بنا کر مذہبی شناخت کے باعث مقامی مسلمانوں کو رگڑا گیا۔ 2016 میں ایک نوجوان حریت پسند برہان وانی کی شہادت نے پوری وادی کو جلا دیا لیکن بھارتی میڈیا نے اسے "دہشت گرد" قرار دے کر اکھنڈ بھارت کا ڈوھنگ پروان چڑھایا۔اور میڈیا کی رسائی کا خاتمہ تاکہ سچ کو منظرِ عام پر آنے سے روکدیا۔اب 2025 میں پہلگام واقعہ پر واضح نظر آ رہا ہے کہ انڈیا سیاحت کی مقامی معیشت کو کچلنے کیلئے راہ ہموار کر رہا ہے ۔ جس کا ایک مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے پیچھے دھکیلنا بھی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ انڈین سپانسرڈ عسکری گروپ یہ ذمہ داری قبول کر کے الزامات کی راہ ہموار کر دے۔پھر مستقبل میں غیر مقامی افراد کو نشانہ بنایا جائے اور الزام مقامی کشمیریوں پر ڈال دیا جائے۔ کشمیریوں پر ظلم کر کے زمینوں پر قبضے کا جواز پیدا کرنااور کشمیریوں کو بطور دہشت گرد پیش کرنا ،کچھ بھی بعید از قیاس نہیں۔اسی طرح یہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کا حربہ ہو سکتا ہے۔ تاکہ امریکہ کی حمایت حاصل کی جائے۔ برسوں سے حریت قیادت جب قید میں ہے،صحافی، اساتذہ اور عام شہری دباؤ میں ہیں۔یوں کہہ لیجیئے کہ مقبوضہ کشمیر ایک پنجرہ ہے جہاں انسان بند ہیں اور انڈیا اس بھیڑیئے کی طرح ہے جو شکار کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے۔
حریت رہنما عبدالحمید لون نے پہلگام سانحہ پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے ۔کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد میں جاری ایک بیان میں پہلگام میں سیاحوں پر بزدلانہ حملے کو انسانیت سوز اور قابل نفرت فعل قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں پختہ یقین ہے کہ اس گھنائونے واقعے میں بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں جو ہمیشہ تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ حال ہی میں بھارتی پارلیمنٹ سے منظور شدہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج نے مودی حکومت کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہے۔ اپنی اس شرمناک ہزیمت سے توجہ ہٹانے اور عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت ایسی گھنائونی سازشیں رچا رہا ہے۔یہ امر باعث تشویش ہے کہ جب بھی امریکہ سے کوئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھارت کا دورہ کرتا ہے، تو اس طرح کے پرتشدد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ بھارت اس طرح کے حملوں کو جواز بنا کر نہ صرف کشمیریوں کی جائز اور پرامن جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنا چاہتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ چھٹی سنگھ پورہ کا المناک واقعہ آج بھی کشمیریوں کے ذہنوں اور دلوں پر نقش ہے۔ اس واقعے میں بھارتی فوج براہ راست ملوث تھی جس میںسکھ کمیونٹی کے درجنوں بے گناہ افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ اس واقعے کا مقصد بھی کشمیر کی پرامن تحریک کو فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کا رنگ دینا تھا۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزادکشمیر شاخ کے رہنمائوں سید فیض نقشبندی، شمیم شال اوررفیق احمد ڈار نے بھی اپنے الگ الگ بیانات میں پہلگام واقعے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور امن پسند ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی ٹیمیں مقبوضہ جموں وکشمیربھیجیں اور ان ہلاکتوں کی تحقیقات کریں۔حریت رہنماء یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر بھارت دہشت گردی کر رہا ہے، بھارت نے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ توڑا ہے، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا قابل مذمت ہے، بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کا خوفناک پلان تیار کیا، پہلگام واقعہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے کروایا ہے، مودی سرکار بہانہ بنا کر جنگ چھیڑنا چاہتی ہے،بھارتی اقدام سے خطے کے امن کو خطرہ ہے،بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت اقلتیں محفوظ نہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مشعال ملک کا مزیدکہنا تھا کہ پہلگام واقعہ بھارت ایجنسی ’را‘ نے کروایا ہے، اس سے قبل پٹھان کوٹ اوردیگرواقعات بھی انہی ایجنسیزنے کرائے، جعفر ایکسپریس ہو یا گجرات کے واقعات ہوںسب میں بھارت ملوث رہا ہے۔
واقعہ کو جواز بنا کر انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد معطل کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے اس بارے میں غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے سابق ایڈیشنل کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی بنیادی ذمہ داریوں میں کم از کم سال میں ایک مرتبہ دونوں ممالک کے واٹر کمشنرز کا اجلاس ہونا، دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنا اور دونوں اطراف دریاؤں پر جاری پراجیکٹس پر دوسرے ممالک کی معائنہ ٹیموں کے دورے کرنا شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز عموماً مئی کے مہینے میں یہ اجلاس کرتے ہیں اور دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس کی سالانہ رپورٹ یکم جون کو پیش کی جاتی ہے۔ شیراز میمن کے مطابق عملدرآمد کی معطلی کا مطلب یہ ہے یہ اجلاس، معائنہ دورے یا دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کی ڈیٹا شیئرنگ نہیں ہو گی۔انھوں نے کہا انڈیا نے اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا اعلان اب کیا ہے مگرعملاً وہ تقریباً چار برسوں سے اس پر عملدرآمد روک چکا ہے۔ان کے مطابق انڈیا گذشہ چار برس سے ویسے بھی واٹر کمشنرز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا۔
جبکہ دریاؤں میں پانی کا ڈیٹا بھی 30 سے 40 فیصد ہی فراہم کر رہا ہے۔ 'انڈیا صرف 30 سے 40 فیصد ڈیٹا ہی دے رہا ہے باقی پر وہ نِل یا نان آبزروینٹ لکھ کر بھیج رہا ہے۔سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ یہ ڈیٹا شیئرنگ نہ ہونے سے پاکستان کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا 'کیونکہ ہم اپنی طرف دریاؤں پر آلات لگا کر پانی کے بہاؤ کا تخمینہ لگا سکتے ہیں۔'آبی امور کے ماہر ڈاکٹر شعیب نے اس بارے میں غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے اپنے بیان میں عملدرآمد کو معطل کرنے کی تعریف یا تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ اس فیصلے کے تحت کیا کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان کے حصے کے دریاؤں کا 19.84 فیصد پانی پہلے ہی روکتا ہے اور وہ اسے اپنے استعمال کیلئے ذخیرہ کر رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صرف کمشنر کے سالانہ اجلاس، دریاؤں میں پانی کے ڈیٹا شیئرنگ اور دونوں انڈس واٹر کمشنرز کے مابین رابطے میں تعطل کے علاوہ اس معطلی کا کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس، راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم اِن تینوں دریاؤں (سندھ، چناب، جہلم) کے بھی 20 فیصد پانی پر انڈیا کا حق ہے۔