عیشہ پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
آپ کو یاد ہوگا کہ رواں ماہ چند روز قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دنیا بھر سے آئے اوورسیز پاکستانیوں کے اعزاز میں ایک کنونشن کا اہتمام کیا گیا تھا ۔جس سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خصوصی خطاب کیا۔ اس خطاب نے بھارتی میڈیا پر آتش کا کام کیا۔ درا صل آرمی چیف سید عاصم منیر نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا ساتھ ہی ساتھ دو قومی نظریے پر بات کرتے ہوئے اس کی اہمیت اجاگر کیا۔ یہ وہی دو قومی نظریہ ہے جس کی بنیاد میں اکھنڈ بھارت کا نظریہ پاش پاش ہوا اور آج دہائیاں گزر جانے کے باوجود انڈیا اکھنڈ بھارت کے خواب کو تعبیر نہ دے پایا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی عسکری قیادت کی جانب سے کشمیر پر حق جتلانا اور دو قومی نظریہ کی بات کرنا بھارت کو ہضم نہ ہوا۔
اس کے چند روز بعد ہی پہلگام واقعہ ہوا۔ میری اپنی رائے ہے کہ بھارت راج نیتی ہماری عسکری قیادت کے بیان سے تلملا اٹھی تھی جس کے بعد اپنے اندر لگی آگ کو باہر لانے کے لیے پہلگام کا سین بنایا گیا اور ہمیشہ کی طرح منٹوں میں اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا۔ یوں پہلگام کی آڑ میں بھارت نے اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے ساتھ دیگر اقدامات کا اعلان کیا۔ لیکن شاید وہ بھول گیا کہ پاکستان جوابی طور پر اس سے ایک ہاتھ آگے کا جواب دے گا۔ بھارت نے اٹاری بارڈر بند کیا تو پاکستان نے واہگہ بند کردیا۔ بھارت نے پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرکے انہیں بے دخل ہونے کا الٹی میٹم دیا تو پاکستان نے بھی بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کیے اور انہیں ملک نکلنے کا حکم دے دیا۔
بھارت نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی بات کی تو حکومت پاکستان نے اسے جنگ کے آغاز سے مماثلت دے کر مکمل دفاع کا اظہار کیا۔غرض یہ کہ بھارت نے جتنے اقدامات اٹھائے ویسے ہی پاکستان نے بھی وہی اقدامات جوابی طور پر اٹھائے لیکن سود سمیت۔وہ اس طرح کہ پاکستان نے اضافی اقدامات لیے۔ پاکستان نے بھارت کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں ہیں جس سے بھارت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اس کے علاوہ بھارت سے تجارت جو کسی تیسرے ملک کے ذریعے جاری تھی اسے بھی بند کر دیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جب اعلامیہ جاری کیا تو اس میں ایک مرتبہ پھر دو قومی نظریے پر دو ٹوک بیان دیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد سٹیٹ لیول پر پاکستان نے دو قومی نظریے کو اجاگر کر کے اکھنڈ بھارت کی بات کرنے والوں کو واضح جواب دیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں،اس حوالے سے نوائے وقت نے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ایمبیسڈر سہیل محمود سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
سہیل محمود ، بائیسویں گریڈ کے پاکستانی سفارت کار ہیں جو پاکستان کے 30ویں سیکرٹری خارجہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس سے قبل وہ ہندوستان میں بطور ہائی کمشنر تعینات تھے۔انہوں نے خارجہ سروس میں 37 سالہ طویل عرصے تک ذمہ داریاں انجام دیں۔سابق سیکرٹری خارجہ و ایمبیسڈر سہیل محمود سفارتکاری اور اعلیٰ سطح فیصلہ سازی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔وہ 2017-2019 تک بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہے۔ اس سے قبل انہوں نے ترکی میں (17-2015) اور تھائی لینڈ میں (13-2009) کے دوران بطور سفیر خدمات انجام دیں۔ وہ ایڈیشنل سیکرٹری (افغانستان/مغربی ایشیا) اور ڈائریکٹر جنرل (امریکہ) اور ڈائریکٹر جنرل (فارن سیکرٹری آفس) کے طور پر بھی کام کرچکے ہیں۔
ایمبیسڈر سہیل محمود نے ہمارے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے اقدام پر کہا کہ یہ درست ہے کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی بار ہا خلاف ورزی کی ہے یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں جو بھی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں یہاں تک کہ جنگیں بھی ہوئیں لیکن یہ معاہدہ جاری رہا۔اب ہندوستان نے جو قدم اٹھایا ہے اسے پاکستان نے غیرذمہ دارانہ کہا ہے۔اور اسے کسی بھی قانونی جواز سے عاری قرار دیا ہے۔یقینا یہ بات عیاں ہے کہ معاہدے کی شقوں میں یکطرفہ معطلی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان نے ہندوستان کے اس قدم کو سختی سے مسترد کیا ہے اور ساتھ ہی انتباہ بھی کیا ہے کہ اگر بھارت نے پانی روکنے کی یا رخ موڑنے کی کوشش کی تو اسے اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اپنے ایسے قدم پر' جس کا کوئی قانونی جواز نہیں نظر ثانی کرے اور حالات کو مزید خرابی کی جانب جانے سے روکے۔پاکستان نے اپنے موقف کا واضح طریقے سے اظہار کیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ دہلی میں اس پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے۔
پاکستان کی جانب سے شملہ معاہدے اور دیگر معاہدے کی معطلی کے عندیئے پر ایمبیسڈر سہیل محمود نے کہا کہ حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد اس بات کا ذکر کیا ہے کہ پاکستان اپنا حق محفوظ رکھتا ہے تمام دو طرفہ معاہدے معطل کرنے کا۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ آنے والے ہفتوں میں پاکستان صورتحال کا بغور جائزہ لیتا رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں ممالک کے مابین جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور حالات کو مزید خرابی سے بچاتے ہوئے قابل عمل حل تلاش کیے جائیں۔
پہلگام حملے سے متعلق ایمبیسڈر سہیل محمود نے کہا کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ پھر ہندوستان نے بناء کوئی تحقیق کیے واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات کی باقاعدہ تحقیقات کی جائیں اور اگر کسی کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ پیش کیے جائیں۔بھارت کی جانب سے تواتر کیساتھ بے بنیاد اور بلا شواہد الزامات تعلقات میں خرابی کی بڑی وجہ ہیں۔بھارت اپنی انٹیلیجنس کی ناکامی اور ناقص سیکیورٹی کو دیکھے۔ بجائے باہر کی طرف انگلی اٹھانے کے اپنے اندر کی جانب دیکھا جائے۔ ایمبیسڈر سہیل محمود نے دو قومی نظریے اور کشمیر پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بیان پر کہا کہ جہاں تک دو قومی نظریے اور کشمیر کی بات ہے تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کشمیر پر پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ اس موقف کا اعادہ پاکستان کی قیادت تواتر کے ساتھ پچھلے 78 سال سے کر رہی ہے۔نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ کشمیر پر اپنی پالیسی واضح رکھی ہے۔ ہندوستان کے لیے اس میں حیرت کا عنصر نہیں ہونا چاہیے نہ ہی غم وغصہ کا کوئی جواز ہونا چاہیے۔ دو قومی نظریہ مسلمہ حقیقت ہے اور وقتا فوقتا پاکستانی قیادت اور عوام نے اس پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ہم جب جب تحریک پاکستان پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس نظریے نے قیام پاکستان کے لیے کیسے راہ ہموار کیں۔ اس موضوع پر بھارت کا غم و غصہ بالکل بلا جواز ہے۔