اتوار کو یتیموں کا دن تھا،پاکستانی پارلیمنٹ نے اس کو منانے کی باقاعدہ قراداد کے ذریعے منظوری دی۔ یہ دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے مگر صرف نام کی حد تک جبکہ پاکستان میں الخدمت تنظیم اسے مشن اور دینی فریضہ سمجھ کرانجام دے رہی ہے،مسلمانوں کے لیے یتیم کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ نبی آخرالزماںﷺ نے بچپن میں یتیمی کی زندگی گزاری۔مگر الخدمت کے سربراہ عبدالشکور کے مطابق اس تنظیم نے یتیموں کی خدمت کو اپناماٹو اور شعار بنا لیا مگر اسے کسی عبد المطلب اور کسی ابو طالب کی ضرورت ہے جو یتیموںکے لیے سہارا بن سکیں۔
ککے زئی ایسوسی ایشن سے میری رغبت اور محبت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر محمود شوکت سرگرم عمل ہیں انہوں نے اس کے پلیٹ فارم سے گراں قدر فلاحی خدمات انجام دیں جن میں میو ہسپتال میں مریضوں کے لواحقین کے لیئے مہمان خانے کی تعمیر اور اس کا انتظام و انصرام شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے رائیونڈ روڈ پر بننے والے کینسر ہسپتال کے مہمان خانے پر بھی ایک کروڑ خرچ کیا۔ اس ہسپتال میں کینسر کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے اورلواحقین کے لئے رہائش اور کھانا،ککے زئی ایسوسی ایشن کو انسانی خدمات کے شعبے میں ایک صدی ہو چلی ہے۔فلاحی ادارے معاشرے کا حسن ہوتے ہیں جو حکومت کے متبادل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان اداروں کو مجموعی طور پر حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی بلکہ عوام کے تعاون سے یہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ کچھ عرصہ سے کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں فلاحی اداروں کو اپنی کاوشیں جاری رکھنے کے سلسلے میں مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے رفاہی کاموں کا دائرہ کار محدود ہو تا جا رہا ہے۔ فلاحی کاموں میں رضاکارانہ وقت دینے والے افراد اور عطیات دینے والے حضرات، دونوں کی خدمات مجموعی طور پر کم ہوئی ہیں۔ ایسے میں مخیر حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عطیات کے ضمن میں فلاحی اداروں کی سرپرستی کریں۔ میں جن مستحق فلاحی اداروں کو جانتا ہوں، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ان میں سے ایک ہے۔ یہ ادارہ بہت محدود وسائل میں بہت بڑا کام کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں کام کرنے والا بہت بڑا دیہی تعلیمی نیٹ ورک ہے جس کے تحت تقریباً 650 سے زائد سکول کم وسیلہ خاندانوں کے 1 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات کو نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں، بلکہ تعلیمی ضروریات بھی ان کی دہلیز تک پہنچاتے ہوئے ہزاروں مستحق اور یتیم بچوں کی تعلیمی کفالت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ایک جانب 50 ہزار کے لگ بھگ یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت کر رہا ہے اور اس کفالت کے ضمن میں انہیں کورس کی کتب، یونیفارم اور اسٹیشنری اشیاء کی مفت فراہمی کے علاوہ عیدین پر تحائف، فوڈ پیکیج اور سردیوں اور گرمیوں کی مناسبت سے گفٹ پیک بھی مہیا کئے جاتے ہیں۔ دوسری جانب دیہات کے نظرانداز معذور بچوں کیلئے بھی خصوصی کام کر رہا ہے۔ مختلف معذوریوں کے شکار بچوں کو، جنہیں دیگر سکول داخلہ دینے سے انکاری ہوتے ہیں، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ انہیں اپنے سکولوں میں داخلہ دیتا ہے۔ اس ضمن میں ’’انکلوسو ایجوکیشن پروگرام‘‘ غزالی ٹرسٹ کا بہت کامیاب پروگرام ہے جس کے تحت نہ صرف ان بچوں کو تعلیم اور بحالی کے مراحل سے گزارا جا رہا ہے بلکہ ان کے والدین کو بھی بچوں کی بحالی اور تربیت کے حوالے سے ماہر سائیکالوجسٹ کے تعاون سے مختلف امور پر راہنمائی مہیا کی جاتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے ہندو بچوں کیلئے الگ سکولوں کا قیام بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی اہم کاوش ہے جہاں سینکڑوں ہندو بچے اور بچیاں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی انہی کاوشوں کی بدولت ٹرسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عامر جعفری کو حال ہی میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا ہے۔ صدر مملکت پاکستان نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے یہ اعزاز سید عامر جعفری کو سونپا۔ بلاشبہ یہ ایوارڈ دئیے جانے کا مطلب حکومت پاکستان کی جانب سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی کارکردگی کا اعتراف ہے۔ میں جن منتخب رفاہی اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا شمار بھی انہی اداروں میں ہوتا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی خدمات کا اعتراف تو عالمی فلاحی ادارے بھی کر چکے ہیں۔ ایسے علاقے جہاں لوگوں کو روز مرہ ضروریات پوری کرنے کیلئے وسائل ہی میسر نہیں، وہ اپنے بچوں کی پڑھائی کیلئے فکرمند ہوتے ہوئے بھی ان کی تعلیم کیلئے کچھ نہیں کر پاتے۔ ایسے لوگوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا فریضہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ایسے خاندانوں کے کوئی 50 ہزار کے لگ بھگ یتیم، مستحق اور معذور بچوں اور بچیوں کی تعلیمی کفالت غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ مخیر حضرات کے تعاون سے کر رہا ہے۔ خواندہ دیہات ٹرسٹ کا ویژن ہے۔ یقینی طور پر دیہات خواندہ ہوں گے تو ہی پاکستان 100 فیصد شرح تعلیم کا ہدف حاصل کر سکے گا۔ ایک یتیم یا مستحق بچے کی تعلیم کفالت صرف 20 ہزار روپے سالانہ ہے۔ جبکہ ایک معذور بچے کی تعلیمی کفالت کا خرچ 25 ہزار روپے سالانہ ہے۔ میں حیران ہوں کہ فقط بیس، پچیس ہزار روپے سالانہ میں ادارہ کیسے اخراجات پورے کر لیتا ہے۔ یقینا اللہ کا کوئی خاص کرم ہے وگرنہ آج کل کے دور میں اتنی رقم تو فیسوں اور کورس وغیرہ کی مد میں بھی پوری نہیں ہوتی۔ مگر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کورس، یونیفارم، اسٹیشنری، اسکالرشپ، فیس، میڈیکل کیمپس، آگاہی کیمپس اور چند دیگر خدمات، یہ تمام مدات اسی 20 اور 25 ہزار کی محدود اعانت میں ان یتیم، مستحق اور خصوصی بچوں کو تسلسل کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔ یقینا غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے تمام پراجیکٹس صدقہ جاریہ ہیں جن کا تسلسل جاری رکھنا ہمارے عطیات کے بغیر ممکن نہیں۔ میں اپنے قارئین سے اپیل کروں گا کہ ماہ رمضان میں اپنی زکوۃ و عطیات کی لسٹ میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو بھی ضرور شامل کریں۔ یہ ہر لحاظ سے ایک مستند ادارہ ہے اور میں اس پر اعتماد کرتا ہوں۔ ایسے اداروں کا وجود ہمارے معاشرے کیلئے غنیمت ہے۔ خدمات کی بلا تعطل ترسیل کیلئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جیسے اداروں کی سرپرستی اشد ضروری ہے۔ فلاحی ادارے ہمیں نیکی کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ وسائل سے محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت نے ہمیں ’’سہولت کار‘‘ بنایا ہے اور ہمیں یہ ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنی اپنی سہولت کے مطابق رفاہی اداروں کا ساتھ دینا ہے۔ آئیے قدرت کی جانب سے دئیے گئے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی معاونت کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024