نظریہ پاکستان، ہمارا مذہب اور رمضان نشریات 

Apr 26, 2021

ڈاکٹر احمد سلیم

ہر برس کی طرح اس برس بھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر عجیب عجیب حرکتیں ہو رہی ہیں۔ ہمیں دین سکھانے اور دین کی اچھی اچھی باتیں بتانے کے لیے کہیں اداکارائیں نظر آ رہی ہیں تو کہیں ناگن ڈانس دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ میں یہ نہیںکہتا کہ اداکارائیں مسلمان نہیں ہے لیکن اگر اس قسم کی ٹرانسمیشن میں ’’ سنجیدگی‘‘ کا عنصر غالب رہے تو بہت بہتر ہے۔اگر ہم وسیع تناظر میں دیکھیں تو یہ سب ایک سوچا سمجھا اور بڑا منصوبہ ہے ۔ ہمارا میڈیا اشتہارات کا بھوکا ہے اور اشتہارات غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ اشتہارات (یعنی پیسے) کی طاقت سے ان کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی طاقتیں جو چاہیں ہمارے میڈیا پر چلواتی ہیں۔ یہ سب ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ یعنی ایک جنگ ہے جو پاکستان کے خلاف جاری ہے۔ اس جنگ کے دو بڑے حصے ہوتے ہیں ۔  ایک Desensitization اور دوسرا  Subliminal Messaging۔ رمضان ٹرانسمیشن اور اسکے علاوہ باقی گیارہ مہینے جو کچھ ہمارے میڈیا پر ریٹنگ کے نام پر چلایا جا رہا ہے ، دراصل ہماری عوام کے ذہنوں کو Desensitize کیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ انھیں سکھایا جا رہا ہے کہ مذہب، عبادت اور ناچ گانا ہنسی مذاق اور بیہودگی ایک ساتھ اور ایک وقت میں ہو سکتا ہے۔ یہ سب نہ تو غلطی سے ہو جاتا ہے اور نہ ہی یہ ریٹنگ کا مبینہ چکر ہے۔ بلکہ یہ ایک بڑی اور وسیع مہم کا سوچا سمجھا حصہ ہے اور ہماری عوام اور میڈیا کے کچھ حصے جانتے بوجھتے ہوئے اور کچھ ناسمجھی میں اسلام اور پاکستان کے خلاف چھیڑی جانے والی اس ’’ ففتھ جنریشن وار ‘‘ (5GW) کا مہرہ بنے ہوئے ہیں ، جس کا مقصد ہمارے معاشرے اور نظریات کے تانے بانے ادھیڑ کر ہمیں سیاسی، معاشرتی، نظریاتی اور مذہبی طور پر شکست دے کر ہماری آنے والی نسل کی سوچ، نظریات اور احساسات تباہ کرنا ہے۔ شروع کے زمانے میں جنگوں میں فتح کا دارومدار انسانی طاقت اور بہادری پر ہوتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں جسمانی طاقت کی جگہ آتشی اسلحے اور توپخانے نے لے لی۔ یہ ’’ سیکنڈ جنریشن وار‘‘ تھی۔ دوسری جنگ عظیم نے ’’ تھرڈجنریشن وار‘‘ کو جنم دیا جس میں آتشی اسلحے کے علاوہ بحری اور فضائی طاقت کے مربوط استعمال کے ساتھ پراپیگنڈہ اور میڈیا کی جنگی اہمیت اجاگر ہوئی۔ یہ جنگیںپھر بھی آمنے سامنے لڑی جاتی تھیں اور جنگ لڑنے والے ممالک کی زمین میدان جنگ ہوتی تھی۔ اس کے بعد ’’فورتھ جنریشن وار‘‘ کا زمانہ آیا۔ ویت نام کی جنگ سے شروع ہونے والی اس ڈاکٹرائین کی ترقی یافتہ شکل افغانستان کی جنگ میں نظرآئی۔ اس قسم کی جنگوں میں سب سے پہلے میدان جنگ کو کسی اور ملک میں منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ جنگ میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کی اکثریت بھی اپنے ملک کی نہ ہو تاکہ حملہ آور کا جانی نقصان کم سے کم ہو۔ اور اب جنگ کی سب سے جدید شکل یعنی ’’ ففتھ جنریشن وار‘‘ کا زمانہ ہے جس میں نہ تو اسلحہ بارود استعمال ہوتا ہے اور نہ اعلان جنگ کیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ معلوم ہی نہیں پڑتا کہ درحقیقت کون کس پر حملہ آور ہے۔ حملہ آور قوم کا اہم ترین اسلحہ ’’ پراپیگنڈہ‘‘ اور ’’ آزاد میڈیا‘‘ ہوتا ہے اور حملہ کی زد میں آنے والی قوم میں سے ہی کچھ لوگ میڈیا میں، خبروں ، کالمز اور ٹالک شوز اور دیگر پروگراموں میں اور کبھی NGOs کی صورت میں ’’لبرلزم ‘‘ اور ’’ انسانیت ‘‘ کے نام پر اپنی ہی قوم کی قومیت اور نظریے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ 
 اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار جسے آپ’’ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن‘‘ کہہ سکتے ہیںوہ یہ ہے کہ میڈیا اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے  آنے والی نسل کی بنیادی سوچ ہی تبدیل کر دی جائے اور مذہب اور وطن سے محبت کی بجائے انکے دماغوں میں ’’انسانیت ‘‘کے نام پر وطن اور مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات کے بیج بو دیے جائیں جو آگے چل کر نفرت اور بیزاری کے درخت بن جائیں۔ اسلام کے اندر ہی ایک ایسا ’’ اسلام‘‘ پیدا کر دیا جائے جو اصل اسلام کو ختم کر دے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے واحد ملک پاکستان کے بارے میں نئی نسل کے ذہنوں میں ایسے شکوک پیدا کر دیے جائیں کہ وہ نظریہ پاکستان بھول کر اس بحث میں پڑے رہیں کہ پاکستان بننا بھی چاہئیے تھا کہ نہیں۔
یہ سب باتیں کوئی Conspiracy Theory نہیں ہیں بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک سمیت امریکہ کے آرمی اور نیول وار کالج اور ائیر فورس کا ’’ انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی‘‘ فتھ جنریشن وار کی تکنیک کو ’’ نان لیتھل ویپن‘‘(NLW) یعنی ’’ایسا ہتھیار جو دشمن کی جان نہیں لیتا ‘‘ کے طور پر اپنا چکے ہیں ۔ ’’ رینڈ کارپوریشن امریکہ ‘‘ کی رپوٹ ’’ سِول اینڈ ڈیموکریٹک اسلام‘‘ دیکھیں تو اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کر کے اسلام کی روح اور پاکستان کے نظریے کا خاتمہ کرنے کی غرض سے کس طرح ہماری ہی درسی کتب، چینلز، میڈیا اور کچھ ’’ لبرلز‘‘ اور NGOs کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ملک میں اپنے نظریات کا پرچارکر کے اسلام اور ’’ پاکستانیت‘‘ پر حملہ کرنا ہے۔ ہمارے بے شمار ٹی وی چینلز کے ذریعے سے ہمارے خلاف چھیڑی گئی اس غیر اعلان شدہ لیکن مہلک جنگ کا ’’ میدان جنگ‘‘  ہمارا ہر گھر بن چکا ہے اور اس جنگ کا جواب بھی ہمیں ہر گھر سے دینا ہو گا۔ علاوہ ازیں اس جنگ میں جو اسلحہ ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے اس کا جواب افواج پاکستان نہیں دے سکتیں بلکہ اسکا جواب سب سے پہلے ہمارے میڈیا نے خود احتسابی کے ذریعے سے خود دینا ہے اور اسکے بعد ہمارا میڈیا کنٹرول کرنے والے اداروں اور حکومت کے پالیسی ساز حلقوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حملہ روکنا اور جوابی حملہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے،  بدقسمتی سے ہمیں تو احساس تک نہیں کہ ہمارے دشمن ہم پر کہاں کہاں سے کس کس طرح سے حملہ آور ہیں۔

مزیدخبریں