ایک ایساملک جو سترہ برس سے عالمی دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ جس نے ساٹھ ستر ہزار جانوں کی شہادتیں دیں، جس کے فوجی افسران ا ور جوان شہید ہوئے آج ہم خود اس کے بارے میں الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ملک اپنے ہمسائیوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔یہ قیامت کا وقت ہے۔
مجھے اس سے غرض نہیں کہ ایران میں ظاہر کئے گئے عمران خان کے موقف پر ریاستی سیکورٹی ادارے کیا کہتے ہیں ۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ اس موقف کو پاکستانی عوام تسلیم نہیں کرتے۔ اور نہ وزیر اعظم کے اعتراف سے ایران کو کوئی فائدہ یا پاکستان کو کوئی نقصان ہوا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں پارلیمنٹ بھی ہے جو قومی بیانیہ تشکیل دیتی ہے اور پھر ہمارے سکیورٹی ادارے بھی ہیں جو اپنی مشاورت دیتے رہتے ہیں۔ اس مکالمے اور بحث مباحثے کے بعد ہی ملک کے دہشت گردی کے کردار کاتعین کیا جاسکے گا۔ بھٹو نے دستور بنایا تو ا س پر جمہوری پاکستان لکھ دیا۔، مگر قوم نے مزاحمت کی اور اس دستورپر اسلامی جمہوریہ کا اندراج کیا گیا۔آخری فیصلہ عوام ہی کے ہاتھ میںہے۔ الزام تراشی تو امریکہ بھی کرتا ہے کہ حقانی گروپ افواج پاکستان کا چہیتا ہے تو کیا ہم نے امریکی الزام کو مان لیا۔ ضرب عضب کی مخالفت کس سیاسی اور مذہبی پارٹی نے نہیں کی۔ کتے کو شہید کہا گیا مگر قوم نے پوری سیاسی اور مذہبی قیادت کے خیالات کو ٹھکرا دیا تھا۔آج جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس پر عوام کی عدالت ہی اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے اور یہی پاکستان کا قومی موقف سمجھا جائے گا۔عمران اور بلاول کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے مگر قومی موقف کی تشکیل کا مینڈیٹ ان میں سے کسی کے پاس نہیں۔ بس وہ اپنی بات کر رہے ہیں اورقوم جب ضرورت سمجھے گی تو اپنا فیصلہ سنا دے گی،۔ ظاہر ہے قوم نہ تو ایرانی کٹہرے میں کھڑی ہونے کو تیار ہے۔ نہ بھارتی، افغانی اور امریکی کٹہرے میں کھڑی ہونے کے لئے تیار ہو سکتی ہے ۔
پاکستان کو آج ایک ا ور فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ کسی ہمسائے کو دوست بنا سکتا ہے۔بھارت سے تو ایسی امید ہی عبث ہے۔ افغانستان بھی پہلے دن سے پاکستان کے الٹ چل رہا ہے۔ رہ گیا ایک ایران جس نے پینسٹھ کی لڑائی میں ہماری فضائیہ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی تھیں۔ اسی ایران کے بارے میں ہمارے وزیر خارجہ نے کہا ہے اور وہ بھی وزیر اعظم کے دورہ ایران سے محض ایک روز پیشتر کہ اور ماڑہ میں بسوں سے مسافروں کو اتار کر جن دہشت گردوںنے شہید کیا ۔ وہ ایران سے ا ٓئے تھے۔ میں تو بلوچستان کا جغرافیہ نہیں جانتا لیکن سردار اختر مینگل جو بلوچستان میں حکومت چلا چکے ہیں، ابھی ابھی قومی اسمبلی کو بتا رہے تھے کہ اور ماڑہ اور ایرانی سرحد کا فاصلہ چار سوکلو میٹر سے زیادہ ہے تو یہ کیسے ہو گیا کہ ایرانی دہشت گرد اتنا لمبا سفر آرام سے طے کر کے آئے ا ور دن کی روشنی میں قتل عام کر کے سکون سے واپس بھی چلے گئے سردار اختر مینگل کا بھی یہی سوال تھا کہ کیا ہم کسی ہمسائے کے ساتھ بنا کے رکھ سکتے ہیں۔ان کی تقریر وزیر اعظم کے ایک جلسے کی وجہ سے کاٹ دی گئی جہاں وزیر اعظم قبائلیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ۔ اورا س ظلم کے خلاف وہ ہمیشہ سے ا ٓواز اٹھا رہے ہیں۔ یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ جب عمران کی پارٹی نے ضرب عضب کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کر دیئے تو انہیں پھر اختلاف کس بات پر ہے۔ محسود اور وزیر قبائل کو ہجرت کرنا پڑی۔ ایسی ہجرت سوات کے لوگوں کو بھی کرنا پڑی۔ ہر فوجی ا ٓپریشن سے پہلے پاک فوج نے ان علاقوں کے عوام کو خبر دار کیا کہ وہ کچھ عرصے کے لئے گھر بار چھوڑ دیں، یہ عارضی تکلیف تھی جس کے ذریعے آج ان علاقوں کو پاکستان میں ضم کیا جا سکا ہے ورنہ ان علاقوں میں کسی کو پر مارنے کی جرات نہ تھی۔ فوج نے اپنا کام سوات میں مکمل کیا ۔ شمالی وزیرستان میں مکمل کیا۔ ان فوجی آپریشنوں کو دس سال یا تین چار سال گزر چکے۔ ان کے بعد سول حکومتوں کو اپنی ذمے داری نبھانا تھی۔ یہاں زرداری کا دور گزرا۔ نواز شریف کا دور گزرا، کسی نے اپنی ذمے داری نہ نبھائی اور سول ڈھانچہ نئے سرے سے استوار نہ کیا۔ اب عمران کی حکومت ہے۔ صوبے میں بھی، وفاق میں بھی۔ انہیں کام کی طرف دھیان دینا چاہئے۔ ظلم کی داستانیں دہرانے سے کیا حاصل ہو گا۔ مہاجرین کی آباد کاری ہونی چاہئے۔ا سکے لئے عمران خان ایک سو ارب کی خوش خبری سنا رہے ہیں ۔ بہتر ہو گا کہ وہ ایک سو ارب کی پلاننگ پیش کریں تاکہ قبائلی عوام کو پی ٹی ایم والے ایکسپلائٹ نہ کر سکیں۔نہ کوئی بیرونی قوت انہیں اپنا آلہ کار بنا سکے۔
رہ گئی یہ بات کہ کیا پاکستان کسی دوسرے ملک میںمداخلت کے لئے کسی کو اجازت دے گا یا نہیں،۔ یہ معاملہ سیکورٹی اداروںنے طے کرنا ہے جیسے مالی معاملات اسٹیٹ بنک طے کرتا ہے یا ایف بی آر۔ دنیا بھر کی ریاستیں نان ا سٹیٹ ایکٹرز پالتی ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کون تھا۔ا سامہ بن لادن کے گھر کا سراغ لگا نے والا نام نہاد ڈاکٹر کس ملک کا نان اسٹیٹ ایکٹر تھا۔ بھارت نے کتنے نان اسٹیٹ ایکٹرز کوپال رکھا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر پاک فوج کا یہ فیصلہ ہے کہ آئندہ کی جنگیں اس نے تن تنہا لڑنی ہیں جیساکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب خود ہی لڑی ہے۔ آپریشن رد الفساد بھی اسی نے لڑا ہے۔ اس کے ساتھ رینجرز ضرور موجود ہیں مگر کوئی سول تنظیم شامل نہیں۔ اگر یہی پالیسی ہمارے جی ایچ کیو کی ہے اور وہ ا سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم بھی آمنا وصدقنا کہتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کروانے کے لئے مکتی باہنی استعمال کی ۔ آج اللہ جانتا ہے کہ کتنے کل بھوشن پاکستان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے جواب میں ہم نے کیا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس کا فیصلہ سیکورٹی اداروںنے کرنا ہے اور اگر ان کا فیصلہ یہی ہے جو وزیر اعظم نے بیان کیا ہے تو کسی ہما شما کو اس پر کیا اعتراض ۔جس کا کام اسی کوساجھے۔مگر ایک بات ظاہر ہے ، جب سے فلسطینیوں کو عربوں کی حمایت نہیں مل رہی ۔ اسرائیل انہیں چن چن کر مار رہا ہے ا ور آج فلسطینی نسل کشی کا عمل مکمل ہونے کو ہے۔ اسی طرح خدشہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کشمیری بھائی دنیائے اسلام کی حمایت سے محروم ہو گئے تو ان کی نسل بھی بھارتی جارح فوج کے ہاتھوں ختم ہو جائے گی۔ روہنگیا کا حشر سب کے سامنے ہے جن کی مدد کو کوئی تیار نہیں،بوسنیا کے مسلمان خوش قسمت تھے کہ انہیں سعودی عرب اور پاکستان کی حمایت حاصل ہوئی اور وہ نسل کشی سے بچ گئے ورنہ یوگو سلاویہ کے قصاب نما جرنیل انکی تکابوٹی کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کے لئے میں ذاتی طور پر جنرل اسلم بیگ کو دا ددیتا ہوں ۔ اور ان کو بھی جو اس فیصلے میں ان کے ساتھ شامل تھے۔ ایسی ہی قیامت ہسپانیہ کے مسلمانوں پرٹوٹی تھی ۔ ان کی مدد کو بھی کوئی آگے نہ بڑھا اور یہ بد قسمت مسلم ملک ایسا ہے جہاں سے مسلمانوں کا نام ونشاں تک مٹا دیا گیا۔ اب ایک نئی صلیبی جنگ جاری ہے۔ دیکھئے کہ اس کاا ونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38