عمران خان کو اب تک یقین آجانا چاہئے کہ اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اپوزیشن جیسا لب و لہجہ اب انہیں زیب نہیں دیتا۔ بائیس برس کی سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں ایک اسد عمر حاصل کیا تھا وہ بھی جلد ہی ’’پھس‘‘
ہو گیا۔ پاکستان چلانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھ رکھا تھا۔ اسد عمر کے دعوے تو اپنے انجام کو پہنچے لیکن ملکی معیشت کا جو حال ہے اس وقت تجربہ کار وزیر خزانہ بھی ہاتھ ڈالنے کی جسارت نہیں کر پا رہے۔ ملک کے معاشی حالات پر بات کرتے ہوئے سابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اگر آپ کوئی چھوٹی سی کمپنی بھی چلا رہے ہوں تو اس کے لیے بھی ایک منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے تحت ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وسائل کا بھی پتہ چلایا جاتا ہے ، اسد صاحب بڑے ذہین اور اچھے آدمی ہیں، ان کو ایک ڈیڑھ سال قبل ہی کہہ دیا گیا تھا کہ آپ وزیر خزانہ ہوں گے۔لیکن جب انہیں باضابطہ طور پر وزیر بنا دیا گیا تو ان کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔ انہوں نے جنوری تک کوئی پلان نہیں دیا۔ اس صورتحال میں مارکیٹ بھی کنفیوژن کا شکار ہو گئی اور تاجران کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔ مارکیٹ کس طرف جا رہی ہے۔ لہٰذا ان کو ایک پلان دینا چاہئیے تھا جو انہوں نے نہیں دیا۔اب مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو بھی ایک روڈ میپ دینا ہو گا۔اسد عمر نے وزارت خزانہ سے استعفیٰ دیا تو ان کی جگہ سابق مشیر خزانہ شوکت ترین کا نام بھی زیر غور آیا۔ لیکن شوکت ترین نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے انکار کر دیا۔عمران حکومت کو پانچ سال دئیے جائیں گے مگر مہنگائی کا طوفان عوام کو شاید پانچ سال نہ نکالنے دے۔ چھ سو روپے دیہاڑی لینے والا مزدور پچاس روپے میں ایک وقت کھانا کھا سکتا ہے باقی بال بچوں کو دو وقت کی روٹی کہاں سے کھلائے ؟ غریب تو مر گیا اور متوسط طبقہ خوار ہو کر رہ گیا ہے۔ سچ لکھنے بولنے پر بھی قدفن لگی ہوئی ہے۔ یہ ملک کیسے چلے گا ؟،جن لوگوں کا عزت سے کچن چل رہا ہو اور ہوس و نفس کی حرص سے آزاد ہوں‘ سیاستدان ان کی زبان اور قلم سے خائف رہتے ہیں۔نظریہ پاکستان اور کرپشن دو متضاد راستے ہیں ،ٹین پرسنٹ آصف علی زرداری جرائم اور بد عنوانی کی درسگاہ کہلائے جا سکتے ہیں لیکن مجال ہے کہ تاریخ پاکستان میں موصوف کے خلاف کوئی تاریخی
فیصلہ موجود ہو۔ خود بھی صاف نکل جاتے ہیں اور وفاداروں اور دلبر دوستوں کو بھی بڑے آرام سے نکلوا لیتے ہیں۔ آصف زرداری سیاست سیاست کھیلنا خوب جانتے ہیں۔عدالت کے فیصلوں پر حیرانی و پریشانی کی فضا بدستور قائم ہے۔ پاناما فیصلہ کو بیس سال تو کیا بیس سو سال تک یاد رکھا جائے گا۔ غریب عوام کو مہنگائی بے روزگاری لوڈ شیڈنگ اور مچھر مار رہا ہے۔ عمران آئے یا شریف مچھر اور گرمی کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ دونوں کے محل قابل رشک ہیں۔ مکھی مچھر پر نہیں مار سکتا۔ لیکن پاکستان میں ضد اور ہٹ دھرمی کی سیاست کا کلچر رائج ہو چکا ہے۔ الا ماشا اللہ جن لوگوں کا کچن حکمرانوں کی خوشامد پر چلتا ہے وہ حکمرانوں کی خوشامد کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن سچ نہیں بولتے۔ جبکہ زمینی حقائق اور ملکی مفاد اس کے متضاد مطالبہ کرتے ہیں۔ لاہور سے نیویارک تک ہم نے جس بندے کو بھی پاکستانی سیاست پر بات کرتے دیکھا اسے عدالتی فیصلوں پر حیران ہی پایا۔ ہے کوئی مائی کا لال جو نواز زرداری سے مال نکلوا سکے ؟جمہوریت کو پانچ سال مکمل کرنے چاہئیں لیکن عزت و آبرو کے ساتھ۔عمران خان شاید بھول جاتے ہیں کہ اب وہ کنٹینر کے اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان بن چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کو ’’صاحبہ‘‘ پکار کر وزارت عظمیٰ کو شرمسار کیا ہے۔ لاکھ غصہ سہی مگر وزیراعظم کے مقام پر کسی پر نجی جملہ بازی کسی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔خان صاحب اپوزیشن میں تھے تو مریم نواز پر بیجا تنقید کر کے انہیں ایک وزیراعظم کی بیٹی سے عوامی لیڈر بنا دیا۔ اب وزیراعظم ہیں تو بلاول زرداری پر تنقید کرکے انہیں طاقتور لیڈر بنا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کو تو خوش ہونا چائیے۔جو سفر انہوں نے پندرہ سال میں طے کرنا تھا اب خان صاحب صبح شام مناسب‘ غیر مناسب حملوں سے پانچ سال میں طے کرا دیں گے۔ لیکن بحیثیت وزیر اعظم خان صاحب کو اپنی زبان کے استعمال سے پہلے سوچنا چاہئے اور شائستگی اپنانی چاہئے۔ انکے لاکھوں فالورز ہیں انکی کہی باتیں پوری دنیا سن رہی ہوتی ہے۔ کارکن اپنے لیڈروں کی بے جا باتوں کو بھی ڈیفنڈ کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے لوگ شخصیت پرستی کے سرطان سے شاید کبھی نجات نہ پا سکیں۔ اور ان کے سیاسی و مذہبی قائدین انہیں جوتے کی نوک پر رکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ملکی معیشت سونامی لانے کو تیار کھڑی ہے۔
اسد عمر کے بعد نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ بھی مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔’پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ ایک بڑا مسئلہ پایا جاتا ہے کہ ان کے پاس صف اول کے معاشی ماہرین نہیں ہوتے۔
ان کے مطابق ’اسی کمزوری کی وجہ سے ماضی کی حکومتوں کو بھی ’بریف کیس‘ وزیر خزانہ کی طرف دیکھنا پڑا اور اس دفعہ پھر وہی ہوا۔‘
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024