ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کا ’’مجوزہ بل‘‘11 اراکین کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ بل میں موقف اختیار کیا کہ ’پورا پاکستان اپنے ’’سودی نظام ‘‘کی وجہ سے اللہ اور اسکے رسول ﷺکیخلاف جنگ میں’’ مصروف‘‘ ہے۔کہا گیا کہ سود کے ’’ خاتمے ‘‘کے بغیر ہم کوئی جنگ جیت نہیں سکتے، ہم اربوں ڈالرز صرف’’ سود کی مد‘‘ میں دے رہے ہیں۔ ریاست مدینہ اور سود ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ’’ ریاست مدینہ‘‘ میں سود سب سے پہلے ختم کیا گیاتھا۔ تمام مسلمان ممالک میں سود سے ’’ چھٹکارے‘‘ کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اس لئے بالاتفاق ایک متبادل نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس کو 57 مسلمان ممالک اختیار کرلیں تو دنیا کے مالیاتی سیٹ اپ میں یہ ایک بہت بڑا "اپ سیٹ" ہوگا جسے سرمایہ داری نظام کے وارث ’’بہ امر مجبوری‘‘ قبول کرلیں گے۔لیکن بدقسمتی سے سودی نظام کے خاتمے کیلئے پاکستان میں حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔سود کا خاتمہ،حکومت کی آئینی ذمہ داری اس لئے ہے کہ پاکستان کے تینوں آئینوں میں ،پہلے آئین 1956ء دوسرے ایوب خان کے آئین1962ء ،اور تیسرے آئین 1973ء میں اس بات کی ضمانت دی گئی اور اس بات کا عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان’’ نظام معیشت سے سود‘‘ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بھرپور کوشش کریگی،حکومت جس قدر جلدممکن ہوسکے،ربا کو ختم کریگی۔شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کریم میں سودی نظام پر اصرار اور تسلسل کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ قراردیا گیاہے۔بنا بریں کسی بھی مسلمان حکمران کیلئے انسداد سود کی کوششوں سے ’’ بے اعتنائی‘‘ کا کوئی جواز نہیں ہے۔1962ء کے آئین کی رو سے قومی سطح پر ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا جس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے مستند علمائے کرام کو نمائندگی دی گئی۔اس ادارے کے منصبی فرائض میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ ایسی تجاویز مرتب کریگاجن پر عمل کر کے پاکستان کے عوام کی زندگیوں کو اسلامی’’ سانچے میں ڈھالا ‘‘جاسکے۔چنانچہ 3 دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ایک رپورٹ تیار کی جس میںاتفاق رائے سے اس امر کا اظہارکیا گیا کہ’’ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی‘‘۔مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد،اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پرجو اضافہ یابڑھوتری لی یا دی جاتی ہے،وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔سیونگ سرٹیفیکیٹس میں جو اضافہ دیا جاتا ہے،وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اسکے ساتھ صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیئے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے۔لہذایہ تمام صورتیں حرام ہیں اور ممنوع ہیں‘‘۔کونسل کی مرتب کردہ اس رپورٹ کے8 سال بعد 1977ء میں صدر جنرل ضیاء الحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ وہ ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے کہ جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ کونسل نے مزید ’’اتمام حجت ‘‘کیلئے بنک کے ماہرین،اقتصادیات کے ماہرین اور علماء سے طویل گفتگو اور بحث و مباحثہ کے بعد 25 جون 1980ء کو اپنی رپورٹ صدر ضیاء الحق کے سامنے پیش کردی۔اس رپورٹ میں سود کو ختم کر کے اسکے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات درج تھیں۔
1990ء میں محمودالرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک درخواست دی کہ رائج الوقت سودی نظام معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔عدالت نے اس کیس سے ملتے جلتے 114 دیگر کیسوں کی مشترکہ سماعت کی۔اس مقدمے میں شرعی عدالت نے بینکاروں،ماہرین اقتصادیات،حکومتی نمائندں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور موضوع سے متعلقہ تمام اہم مباحث کو زیر غور لایا گیا اور تحریری اور زبانی بیانات حاصل کئے اور اکتوبر 1991ء میں 157 صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کہ ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بنا کرمروجہ نظام معیشت میں پائے جانے والے سودی معاملات اورآئین اور دستور میں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیا جاسکتاتھا بلکہ رائج تمام سودی قوانین(22 قوانین)کاجائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیااور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ30 جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیںاور یہ بھی کہا کہ یکم جولائی 1992 ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گیا۔لیکن 30جون 1992ء کے آنے سے پہلے پہلے مالیاتی اداروں،بینکوں اور بعض افرادنے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کیخلاف اپیلیں دائر کردیں۔بالآخر 1999 ء کے اوائل میںسپریم کورٹ میں ایک شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دیاگیا۔اس بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قراردیتے ہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت کو مزید مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ جون 2002ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلے۔اگرحکومت انسدادسود کیلئے عملی اقدامات کرنے کی خواہشمند ہوتی تووہ یقیناََ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عملی اقدامات بروئے کار لانے کا اہتمام کرتی لیکن اس نے اسکی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا ۔اب ایک بار پھر وزیر قانون نے اس معاملے کو لٹکاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل اور علما کرام کی رہنمائی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔جب اسلامی نظریاتی کونسل پہلے تجاویز دے چکی ہے تو حکومت پھر اللہ اور اسکے رسول کے ساتھ جنگ کیوں جاری رکھنے پر بضد ہے ؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024