2019 ء کی پہلی سہ ماہی قیامت بن کر نازل ہوئی افغان فوج اور نیٹو افواج نے طالبان کے بجائے نہتے افغانوں کا قتل عام جاری رکھا۔ وقت حقائق بیان کررہا ہے، سچ جھوٹ سے الگ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے یہ دل دہلا دینے والی حقیقت دنیا کے سامنے بیان کردی ہے کہ 2019 کے اول تین ماہ میں امریکہ اور اتحادی فوج نے عام شہریوں کا قتل عام کیا، اتنے افراد تو طالبان اوردیگر جنگجوئو ں نے امریکہ اور اتحادی فوج کے ہلاک نہیں کئے جتنے امن اور جمہوریت کا تحفہ دینے والی میزبان عالمی فوج نے قتل کئے ہیں۔
طاقت اور میڈیا کا یہی کمال، یہی جادو ہے کہ وہ نظروں کے سامنے مرغے کو ہاتھی اور ہاتھی کو بکری بنادیتا ہے۔ امن کے علمبرداروں کے ہاتھوں بہنے والے بے گناہ شہریوں کے قتل عام پر اقوام متحدہ نے رپورٹ جاری کرکے اپنا فرض ادا کردیاہے ، ان جنگی جرائم پر سزا کون دے گا یہ سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں سب سے سنگین مسئلہ عام شہریوں کی ہلاکت ہے۔ عام شہری نہ صرف خود کش حملہ آوروں، بم دھماکوں، جنگجوئو ں کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ افغان اور نیٹو افواج کی دوطرفہ فائرنگ میں بھی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
افغانستان میں معاونت پر مامور اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق یکم جنوری سے 31 مارچ کے دوران 581 عام شہری جاں بحق ہوئے۔ ان میں سے 305 افغان اور نیٹو افواج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اس کے مقابلے میں کئے گئے موازنے سے یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ جنگجوئوں کی کارروائیوں میں عام شہریوں کے مقابلے مین اتحادی فوجی زیادہ نشانہ بنے۔ یعنی نیٹو اور افغان فوجوں کی پیشہ وارانہ عسکری مہارت کا بھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس بے رحمی سے عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب جنگجو پیشہ وارانہ لحاظ سے بھی افغان اور نیٹو افواج سے زیادہ بہتر کارگزاری دکھا رہے ہیں۔ اس حقیقت کے بعد صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ عام شہریوں کے محافظ ہی انکے قاتل بن چکے ہیں۔
رپورٹ میں جو ہلاکتیں بتائی گئی ہیں ان میں سے نصف کے قتل کی ذمہ دار افغان افواج کوٹھہرایا گیا ہے جبکہ اتحادیوں کے فضائی حملوں اور دیگر واقعات میں عام شہری بڑی تعداد میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ان میں وہ واقعات الگ ہیں جو عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملوں اور کارروائیوں کے دوران شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنے ہیں۔
رپورٹ میں کسی ایک نیٹو ملک کو الگ نہیں کہاگیا۔ امریکی افواج اس وقت معاونت کرتی ہیں جب ان کی مدد طلب کی جاتی ہے۔ عموماً عسکری کاروائیوں کے دوران امریکی فضائی حملوں کے ذریعے سے پیدل فوج یا زمینی کاروائی پر مامور دستوں کی مدد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کیلئے ڈائریکٹر رچرڈ بینٹ کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں پچاس فیصد سے زائد خواتین اور بچے تھے۔ اس سے زیادہ اور کیا روح فرسا انکشاف ہوسکتا ہے۔ یہ بے گناہ خواتین اور بچے اس آگ اور بارود کی بھینٹ چڑھے۔ ان ناحق قتل ہونے والوں کے لہو کا خراج کس سے طلب کیا جائے۔ ان کا لہو کس ہاتھ پر تلاش کیاجائے ؟
رچرڈ بینٹ کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کو شدید تشویش لاحق ہے۔ ہر ہلاکت کو انہوں نے انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہاں اب تک شدید لڑائی جاری ہے۔ یہ پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے اور تمام فریقین کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔
اس سال کے آغاز میں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے پیدل زمینی فوج پر زوردیا تھا کہ وہ عام شہریوں کا خیال کریں اور اپنی فوجی یا عسکری کاروائی کرتے ہوئے اس امر کا خاص خیال رکھیں کہ عام شہری نشانہ نہ بنیں۔ طالبان جن کے زیرنگیں افغانستان کا نصف رقبہ ہے، نے بھی اپنے جنگجوئوں کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ عام شہریوں اور افراد کی زندگی کا خیال رکھیں اور اپنی کاروائیوں کے دوران اس امر کا خیال رکھیں کہ عام افراد زد میں نہ آئیں۔ امریکی فوجی ترجمان کرنل ڈیو بٹلر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ عام شہریوں کو بچانے کا بہترین راستہ جنگ بندی ہے۔ اب اس معاملے میں پھر چالاکی کرتے ہوئے ملبہ طالبان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ حقائق اور حالات وواقعات اس امر کی گواہی دے چکے ہیں کہ دوحا مذاکرات میں تعطل کی وجہ طالبان نہیں بلکہ اشرف غنی حکومت ہے جنہوں نے مذاکراتی وفد کے نام پر ایک پوری بارات قطر بھجوانے کی کوشش کی۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024