جناب وزیراعظم ریاستِ مدینہ کا ذکر نہایت والہانگی سے کرتے ہیں۔ فی الحقیقت وہ پاکستان میں افق تا افق پھیلی غربت سے قوم کو نکالنا چاہتے ہیں۔ چین کی ترقی بھی ان کی آنکھوں میں بسی ہوئی ہے۔ جس نے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ صرف بیس برس کے عرصے میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ ہر ملک کے اپنے حالات و وسائل ہوتے ہیں۔ جن سے ہم ہوبہو اٹھا کر استفادہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان ، چین سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے لوگوں کا ذہن، سوچ اور معاشرت بالکل ہی دوسری قسم کی ہے۔ چین کی ورک فورس فلاسفی میں کمیونٹی ورکر کے تصور نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ ہم پاکستانی اس طرزِ کار سے نابلد ہیں۔
راقم نے دنیا گھومی ہے۔ بعض ممالک کے مضافاتی اور دیہی علاقوں تک گیا ہوں ، بھارت ہمارا قریبی ہمسایہ اور مزاج اور بود و باش میں بڑی حد تک یکسانیت۔ اپنے اس مشاہدہ کی بنا پر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں فیملی سسٹم جس قدر مضبوط ہے، اس کی مثال روئے زمین پر نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں گھر کا تصوراینٹ گارے کا سٹرکچر نہیں، بلکہ محبت و اخوت کا وہ جذبہ، جو چھوٹی جگہ میں بھی انہیں باہم جوڑے رکھتا ہے۔ اور اس مکان کو گھر بنانے کیلئے تمام افراد خانہ مشین کی طرح کام کرتے ہیں، اس سے ضمنی طور پر ریاست کی خدمت کا کوئی عنصر نکل آئے، تو بہتر، ورنہ انفرادی طور پر ہم ریاست کے دست و بازو نہیں ہوتے۔
ہم کاروبار میں ہوں یا ملازمت میں، زیادہ دھیان ذاتی ہائوس ہولڈ میں ہی رہتا ہے۔ نجی فلاح کی یہ سوچ اس ملک کی نام نہاد اشرافیہ اور حکمرانوں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ شاید عوام الناس سے بھی زیادہ! اسی لیے تو وہ اپنے گھر بھرنے کیلئے سب حدیں عبورکر جاتے ہیں۔ اور نتیجہ یہ کہ وطن عزیز کی 95% دولت 5% کے پاس اور باقی 95% کو محض %5 پر ٹرخا دیا گیا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ ہم یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پاکستانی قوم دنیا بھر میں سب سے زیادہ کنبہ پرست اور کنبہ پرور واقع ہوئی ہے، ہمارے فارن ریزرو کی تمام تر آبرو بیرون ملک پاکستانیوں کی کمائی سے ہے ، جو ہر سال 20/21 بلین ڈالر اپنی فیملیز کو بھجواتے ہیں جس کیلئے انہیں رات دن ایک کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کا گھر اور گھرانہ سکھی رہے۔
پچھلی گرمیوں میں جب انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ اور ہر کوئی ووٹرز کو لبھانے کیلئے ہرممکن کوشش کر رہا تھا، لایعنی قسم کی باتیں، لایعنی قسم کے وعدے۔ ایسے میں PTI کے دو وعدے خاص طور پر عوامی توجہ حاصل کر پائے تھے۔ اول ایک کروڑ نوکریاں، دوئم پچاس لاکھ مکان، بے روزگاری کے عفریت کا شکار نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریوں کے نعرے میں بہت کشش دکھائی دی۔ ہر کسی کی سوچ تھی کہ اسے بنے بنائے دفتر میں میز کرسی پر بٹھا دیا جائیگا۔ ہر ماہ معقول تنخواہ ملنا شروع ہو جائیگی، تو گھر کے حالات مزید سدھر جائیں گے۔
رہائش اور گھر کے حوالے سے ہم پاکستانی اس قدر چوزی ہیں کہ بستی چھوڑ کر جانا تو دور کی بات، گلی محلہ چھوتے ہوئے بھی دُکھی ہو جاتے ہیں۔ سوسائٹی اس قدر جڑی ہوئی اور اس قدر ناسٹیلچک ہے کہ ماضی اور اس کی یادوں سے الگ ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اسلام آباد میں مجھے گھریلو ملازم کی ضرورت تھی۔ گائوں گیا، تو اپنے ایک ہمسایے سے اظہار مدعا کیا جو آدھ مرلے کے مکان میں رہتا ہے ا ور بیروزگار بھی ہے۔ حیرت کی بات کہ معقول تنخواہ اور فری قیام و طعام کی پیشکش اس کے پائے استقامت میں رتی بھر لغزش بھی پیدا نہ کر سکی۔ بولا جناب! یہاں کی آدھی بھی ٹھیک۔ اسلام آباد میں دل نہیں لگے گا۔
انسانی فطرت ہے کہ جس شے کی اسے ضرورت ہوتی ہے، اس کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ اور پاکستان کا ہر صاحب نام و مقام میری اس بات کی تصدیق کر ے گا کہ انہیں نوکری کے بارے میں ہر روز دو چار لوگ ضرور کہتے ہیں۔ مگر آج تک کسی نے یہ نہیں کہا ہو گا کہ مہربانی کر کے فلاں علاقے میں ایک مکان دلوا دیجئے۔ کیونکہ مکان اپنی پسند کا، اپنی مرضی کا، اپنی ضرورت کا، اپنی ہمت کا، جسے وہ اپنی پسندیدہ جگہ پر خود تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اُس جگہ پر جہاں ان کے پیارے بستے ہوں، جہاں ان کی یادیں وابستہ ہوں، جہاں ان کے لیے روزگار ہو، جہاں ان کے بچوں کیلئے مناسب سکول ہو۔ جہاں ان میں کچھ نہ ہو، وہاں تو شاید وہ ایک رات بھی بسر کرنا پسند نہ کریں ، کیونکہ یہ بھی ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ مٹی سے محبت کے ساتھ ساتھ ہم حد درجہ جذباتی قوم بھی ہیں۔
اپنے علاقہ کے ایک حالیہ اجتماع میں راقم نے لوگوں سے PTI سرکار کی پانچ ملین مکانات کی فراہمی کی سکیم کی بات کی تو ان کا ردعمل بہت دلچسپ تھا۔ واضح رہے کہ ان کی اکثریت غریب غربا کی تھی۔ اور اکثر خط غربت سے بھی نیچے۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر آپ کو ضلعی صدر مقام نارووال میں تین مرلے کا گھر پانچ لاکھ میں مل جائے، تو کیا وہاں چلے جائو گے؟ کسی ایک نے بھی ہاں نہ کی۔ ان کاخیال تھا کہ اگر ان کے پاس پانچ لاکھ ہوں، تو گائوں میں بھی کرنے کو بہت کچھ ہے۔ البتہ دواشخاص نے حامی بھری کہ اگر فری میں مل جائے، تو وہ ضرور چلے جائیں گے۔ ایک بزرگ نے نہایت رقت سے کہاکہ یہ سب دنیا کا مال ہے۔ اسکی خاطر بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر کون جائے۔
ایک صاحبِ حیثیت نے جوابی سوال داغا کہ کیا یہ مکان ٹرانسفر ایبل ہونگے اور ان کو آگے بیچا جا سکے گا؟ بیچنے پر پابندی کا سن کر بولا۔ جناب، جائیداد پر سرمایہ کاری منافع کیلئے کی جاتی ہے۔ نان ٹرانسفر ایبل پراپرٹی تو پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ صرف ایک شخص نے کہا تھا کہ اگر اسی گائوں میں میری ضرورت اور جیب کے مطابق مکان مل جائے تو سوچا جا سکتا ہے۔
جناب وزیراعظم نے بہت اچھا کیا کہ پہلی قسط میں ایک لاکھ 35 ہزار ہائوسنگ یونٹس کی تعمیر کا عندیہ دیا ہے۔ 25 ہزار اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کیلئے‘ 56 ہزار کوئٹہ کیلئے ، اور 54 ہزار رہائشی یونٹس گوادر میں مچھیروں کیلئے تعمیر کئے جائیں گے۔ بنظر غائر دیکھا جائے، تو ہمارے وسائل اور ضروریات کے اعتبار سے مکانات کی یہ تعداد نہایت مناسب ہے۔ اور اگلے پانچ برسوں میں منصوبہ کی تکمیلِ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ ان اپارٹمنٹس / مکانات کی تعمیر سے حاصل شدہ تجربہ یقیناً بعد کے پراجیکٹس کیلئے ہمارے کام آئے گا۔ معاملات مینج ایبل ہونے چاہئیں۔ تاکہ کامیابی سے سمٹ جائیں ا ور جگ ہنسائی نہ ہو۔ یہ پراجیکٹس سرکار کو اپنے محکموں کی کارکردگی پرکھنے کا موقع بھی فراہم کریں گے۔ اور شاید بعض انکشافات حکومت کیلئے چشم کشا ہوں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024