ماڈل ٹاون لاہور سے لاپتہ شخص، سپریم کورٹ نے خفیہ اداروں سے آج وضاحت طلب کر لی
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے لاہور ماڈل ٹا¶ن کے علاقے سے خفیہ اداروں کی جانب سے اٹھائے جانے والے شخص سے متعلق ڈپٹی اٹارنی جنرل کے توسط سے خفیہ اداروں سے وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو لاپتہ نوید بٹ کے وکیل محمد اکبر، نوید بٹ کی بیوی مدعی مقدمہ سعیدیہ بٹ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ وکیل محمد اکبر نے عدالت کو بتایا کہ 11 مئی 2012ءکو اس وقت اغواءکیا گیا جب وہ بچوں کو سکول سے گھر واپس لا رہا تھا درجنوں افراد انہیں بچوں اور اہل محلہ کی موجودگی میں گاڑیوں میں ڈال کر لے گئے جس پر لیاقت آباد پولیس سٹیشن (ماڈل ٹا¶ن) میں ڈائریکٹرز اور ڈی جیز آئی ایس آئی، آئی جی اور ایم آئی کے خلاف مقدمہ نمبر 566/2012 درج کرایا گیا۔ نوید بٹ امریکہ کا تعلیم یافتہ اور الیکٹریکل انجینئر ہے۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ پاکستان میں ”حزب التحریر“ کا ترجمان ہے۔ 14 مئی 2012ءکو لاہور ہائی کورٹ میں کیس چلا مگر مغوی کو پیش کیا اور نہ تحویل میں ہونے کا اقرار کیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس میں قانون کے مطابق کارروائی کی گئی۔ ایک کمشن اور ایک JIT ٹیم بنائی گئی۔ دونوں کی تفتیش میں الزام ثابت نہ ہو سکا۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ خفیہ اداروں کا معمول ہے۔ بغیر قصور کے لوگوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ خفیہ اداروں کو زحمت نہ دیں۔ گذشتہ روز بھی 27 دھماکے ہوئے، وہ ملکی مفادات اور سکیورٹی کے معاملات میں مصروف ہوں گے مگر یوں لگتا ہے سب انکوائریاں ایک فارمیلٹی ہے۔ اسی رپورٹ بعد میں عموماً تبدیل ہو جاتی ہے۔ جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ ایسے کوئی کسی کو نہیں اٹھاتا۔ پریڈلائن میں جو دھماکے ہوئے وہ لوگ بھی بے گناہ اور معصوم تھے۔ معاملے کو قانون کے مطابق دیکھ لیتے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو خفیہ اداروں سے جواب لے کر بتانے کی ہدایت کی۔