پروفیسر محمد یعقوب شاہق
اگر پاکستان کے جملہ فوجی آمروں کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو جنرل پرویز مشرف کا دورِ حکومت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس سیاہ دَور میں مُلک کی نظریاتی شناخت چھین کر اسے سمتِ سفر اور نصب العین سے محروم کر دیا گیا۔ ایک عظیم مِلت کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ ڈالروں کے عوض اپنی حمیت و غیرت اور ملی عزت اور وقار کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی اور اِسی طرزِ عمل کے تناظر میں ایک امریکی سینیٹر نے ”ایوان نمائندگان“ کے فلور پر یہ الفاظ کہے کہ ”پاکستانی ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کر دیتے ہیں“ لیکن اس سب و شتم اور دُشنام کے باوجود امریکی غلامی کا تسلسل اس کیفیت کے ساتھ جاری رہا کہ بقولِ غالب ....
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہُوا
پاکستان کے حالیہ مسائل مثلاً خُودکش حملے، بدامنی، معاشی بدحالی اور بے چہرہ پالیسیوں کا تعلق بڑی حد تک افغانستان پر غیر ملکی تسلط سے جڑا ہوا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی طوالت کےلئے امریکہ کے ہر ناجائز مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے اکثر ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیئے۔ اب یہ بات وضاحت کےساتھ سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ کے جنگی جہازوں نے ان ہوائی اڈوں سے 87600 مرتبہ پروازیں کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جنرل صاحب نے نہ صرف اپنے کلمہ گو بھائیوں کےخلاف لڑنے کیلئے امریکہ کو اپنے کندھے پیش کر دیئے بلکہ خود اپنے ملک کو خوں ریزی اور بدامنی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اسی مسئلہ کی کوکھ سے پھر نئے نئے مسائل جنم لیتے گئے اور وقت گزرنے کےساتھ بگاڑ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حکومت نے کبھی اسکی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہونےوالے اثرات کا جائزہ لے۔ ”لال مسجد“ اور ”جامعہ حفصہ“ پر فوجی آپریشن سے ملک کے طول و عرض میں شدید ردعمل ہوا۔ فاٹا کے علاقے آتش زیر پا ہو گئے۔ خودکش حملوں نے فوجی جرنیلوں سے لےکر عام فوجی جوانوں اور سینکڑوں دیگر افراد کی جان لے لی لیکن حکمران طبقہ ان سب حالات سے بے نیاز امریکی اطاعت کے راستہ پر چلتا رہا اور ملکی مفادات کے حوالے سے ”دہشت گردی کےخلاف جنگ“ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
18 فروری 2008ءکے انتخابات میں عوام نے پرویزی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا لیکن ”این آر او“ زدہ حکومت نے مشرف کے دور آمریت سے بڑھ کر اسی پالیسی کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور قوم کی اجتماعی امنگوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر ڈالروں کے عوض قومی غیرت و حمیت کا سودا کرنے ہی کو ترجیح دی۔ لانگ مارچ کے بغیر عدلیہ بحال نہ ہو سکی۔ اب تک موجودہ حکومت کی ساری پالیسیاں حسب سابق قومی نصب العین سے محروم رہیں۔ زرداری صاحب اور انکے چند دوست ملک کو اس طرح چلا رہے ہیں جس طرح کسی تجارتی ادارہ کو چلایا جاتا ہے اور شراکت دار بھی ایسے جو ادارہ کی مضبوطی کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ حضرات گزرتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں لیکن حالات کا دھارا خود اپنا راستہ متعین کرےگا اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ بقول شاعر
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
فی الوقت امریکہ کے غاصبانہ تسلط کےخلاف افغانستان میں جو تحریک مزاحمت برپا ہے اسکے ساتھ ساری امت مسلمہ کی ہمدردیاں ہیں۔ اگرچہ حکمران طبقات امریکہ کےساتھ ہیں لیکن پوری امت مسلمہ کے عوام کی قلبی وابستگی انہی بے سروسامان مجاہدین کے ساتھ ہے جن کے پاس اعلیٰ درجہ کی ٹیکنالوجی نہیں۔ جن کے پاس نہ ہوائی فوج ہے نہ ڈیزی کٹر بم ہیں‘ نہ خلائی کیمرے ہیں نہ طاقتور ٹینک، البتہ انکے پاس ایک ہتھیار کی فراوانی ہے اور وہ ہے جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت جسکے بل بوتے پر وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آور طاقت سے ٹکرا کر اسے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ تمہارا پالا ایک ایسی غیرت مند قوم سے پڑا ہے جس نے اپنی تاریخ کے کسی مرحلہ میں کبھی غیر ملکی تسلط کو قبول نہیں کیا اور نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور طاقت کی غلامی پر رضامند ہو سکتے ہیں۔ اس جہاد آزادی کی زمامِ کار ”تحریکِ طالبان افغانستان“ کے ہاتھ میں ہے اور افغانستان کی جملہ دینی قوتیں اسکے ساتھ ہیں۔ اب اس جہاد کو امریکہ ”دہشت گردی“ سے تعبیر کرتا ہے لیکن یہ بات اسکے بس میں نہیں کہ وہ ساری دنیا کو بےوقوف بناتا رہے۔ سب جانتے ہیں کہ ”نائن الیون“ کے خودساختہ ڈرامہ میں افغانستان اور پاکستان کا ایک آدمی بھی ملوث نہیں تھا لیکن امریکہ نے اندھی طاقت کے بل بوتے پر پانچ سے چھ لاکھ افغانوں کو بھون کر رکھ دیا اور اب ”کرزئی“ کی صورت میں ایک ”شوبوائے“ بٹھا کر حکومت کر رہا ہے اور بزعم خویش یہ سمجھتا ہے کہ وہ افغانستان پر فوجی طاقت سے اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے گا تو ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ کے مصداق ناممکن ہے۔ افغانوں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ غلامی کے بجائے موت کو گلے لگا لینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے سات سمندر پار سے آ کر افغانستان پر اس لئے قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ وہ وسط ایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کر کے اپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کر سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو شعائر اسلامی سے بدکتا ہے۔ وہ اہل مغرب کے طرز فکر سے متاثر ہے اور مذہب کو خالصتاً اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک تعلق کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ رہے زندگی کے سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات تو ان دائروں میں وہ خدا کو یہ حق دینے کےلئے تیار نہیں کہ اس کا حکم نافذ العمل ہو۔ مثال کے طور پر سود خوری کو قرآن پاک میں صراحت کےساتھ اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے لیکن پاکستان میں قرارداد مقاصد کے آئین کا حصہ بن جانے کے باوجود علی الاعلان سودی نظام قائم ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانہ حکومت میں زکوٰة کا نفاذ ہوا تو سُود کے حوالے سے ایک ترمیم کےمطابق نفع، نقصان کی بنیاد پر اکاونٹس کھولے گئے، لیکن درحقیقت اس نظام میں سود کا نام بدل کر منافع رکھ دیا گیا اور کوئی جوہری تبدیلی رونما نہ ہو سکی۔ علیٰ ھذ القیاس ہم بحیثیت مجموعی معاشی اور سیاسی دائروں میں جھوٹ، وعدہ خلافی، بددیانتی اور بداخلاقی کو روا رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 2008ءکے انتخابات کے بعد بھوربن کے مقام پر زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے ایک تحریری معاہدہ ہوا جسکے حوالے سے قبلہ زرداری نے ایفائے عہد نہ کرنے کے جواز میں ارشاد فرمایا تھا کہ ”وعدے قرآن و حدیث“ نہیں ہوتے حالانکہ قرآن پاک میں حکم موجود ہے کہ ”وعدے پورے کرو کیونکہ اسکے بارے میں باز پرس ہو گی“
اوفو بالعھد ان العھد کان مسولا۔ (بنی اسرائیل: (34
امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو شخص سچے دل سے ہادی برحق حضرت محمد کو اپنا ہادی، رہنما اور اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہے اس کےلئے اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرے چاہے وہ حکم ہماری سماجی اور معاشی زندگی سے متعلق ہو یا سیاسی زندگی کے حوالے سے ہو۔ ارشاد باری ہے۔”اے افرادِ نسلِ انسانی تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف نصیحت اور تمہارے دِلوں کی بیماریوں کےلئے نسخہ شفا آ چکا ہے۔ یہ مومنین کےلئے ہدایت اور رحمت ہے“۔ (57:10) پھر فرمایا: ”کسی مومن اور مومنہ کے پاس اس بات کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتا جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ کے بارے میں فیصلہ کر دے اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی پر اتر آئے وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا“۔ (الاحزاب: (36 یہی وہ طبقہ ہے جو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سینکڑوں تقاریر میں سے صرف ایک تقریر کے الفاظ کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اس سے سیکولرازم کا مفہوم نکالنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہتا ہے حالانکہ قائد نے تکرار کےساتھ اپنی تقریروں میں اس بات کو بیان فرمایا تھا کہ ہندو اور مسلمان برعظیم کی دو قومیں ہیں جن کے عقائد، رسوم و رواج، شادی بیاہ۔ حتیٰ کہ کیلنڈرز بھی جدا جدا ہیں اس لئے وہ ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں۔ قائداعظم نے تحریک پاکستان کو اسی بنیاد پر آگے بڑھایا کہ نئے وطن میں اسلامی اقدار پر مبنی ایک ایسی جمہوری حکومت وجود میں آئےگی جہاں ہم اسلامی اصولوں کےمطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا تجربہ کرینگے۔ گزشتہ چونسٹھ برسوں میں ہمارے ہر حکمران نے عوامی خواہشات کا خون کیا ہے اور عوام کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر خوب خوب بے وقوف بنایا۔ انتخابات کے دوران میں لوگوں کو سبز باغ دکھایا اور اقتدار میں آکر اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے۔بظاہر موجودہ حالات میں کسی تبدیلی کی توقع نظر نہیں آتی لیکن تقدیر مبرم یہی نظر آتی ہے کہ موجودہ افراتفری، کمزوری اور مظلومیت کے احوال سے بالآخر امت مسلمہ سرخرو ہو کر نکلے گی۔ اقبال نے کہا تھا ....
”یہ اسلام تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی قوت کو منتشر ہونے سے بچایا (خطبہ الٰہ آباد 1930) اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے اندر جو قوت حیات رکھی ہے وہ اب بھی بہت فعال ہے اور دنیابھر میں رونما ہونےوالے واقعات سے نظر آتا ہے کہ ناامیدی، مایوسی اور گوشہ گیری کا دور ختم ہونے والا ہے.... انشاءاللہ
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
اگر پاکستان کے جملہ فوجی آمروں کے ادوار کا جائزہ لیا جائے تو جنرل پرویز مشرف کا دورِ حکومت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس سیاہ دَور میں مُلک کی نظریاتی شناخت چھین کر اسے سمتِ سفر اور نصب العین سے محروم کر دیا گیا۔ ایک عظیم مِلت کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر قائم ہوا کہ وہ ڈالروں کے عوض اپنی حمیت و غیرت اور ملی عزت اور وقار کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی اور اِسی طرزِ عمل کے تناظر میں ایک امریکی سینیٹر نے ”ایوان نمائندگان“ کے فلور پر یہ الفاظ کہے کہ ”پاکستانی ڈالروں کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کر دیتے ہیں“ لیکن اس سب و شتم اور دُشنام کے باوجود امریکی غلامی کا تسلسل اس کیفیت کے ساتھ جاری رہا کہ بقولِ غالب ....
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہُوا
پاکستان کے حالیہ مسائل مثلاً خُودکش حملے، بدامنی، معاشی بدحالی اور بے چہرہ پالیسیوں کا تعلق بڑی حد تک افغانستان پر غیر ملکی تسلط سے جڑا ہوا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی طوالت کےلئے امریکہ کے ہر ناجائز مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کے اکثر ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دیئے۔ اب یہ بات وضاحت کےساتھ سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ کے جنگی جہازوں نے ان ہوائی اڈوں سے 87600 مرتبہ پروازیں کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جنرل صاحب نے نہ صرف اپنے کلمہ گو بھائیوں کےخلاف لڑنے کیلئے امریکہ کو اپنے کندھے پیش کر دیئے بلکہ خود اپنے ملک کو خوں ریزی اور بدامنی کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اسی مسئلہ کی کوکھ سے پھر نئے نئے مسائل جنم لیتے گئے اور وقت گزرنے کےساتھ بگاڑ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حکومت نے کبھی اسکی ضرورت محسوس نہ کی کہ وہ ٹھنڈے دل سے اس پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہونےوالے اثرات کا جائزہ لے۔ ”لال مسجد“ اور ”جامعہ حفصہ“ پر فوجی آپریشن سے ملک کے طول و عرض میں شدید ردعمل ہوا۔ فاٹا کے علاقے آتش زیر پا ہو گئے۔ خودکش حملوں نے فوجی جرنیلوں سے لےکر عام فوجی جوانوں اور سینکڑوں دیگر افراد کی جان لے لی لیکن حکمران طبقہ ان سب حالات سے بے نیاز امریکی اطاعت کے راستہ پر چلتا رہا اور ملکی مفادات کے حوالے سے ”دہشت گردی کےخلاف جنگ“ کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
18 فروری 2008ءکے انتخابات میں عوام نے پرویزی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کر دیا لیکن ”این آر او“ زدہ حکومت نے مشرف کے دور آمریت سے بڑھ کر اسی پالیسی کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا اور قوم کی اجتماعی امنگوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا کر ڈالروں کے عوض قومی غیرت و حمیت کا سودا کرنے ہی کو ترجیح دی۔ لانگ مارچ کے بغیر عدلیہ بحال نہ ہو سکی۔ اب تک موجودہ حکومت کی ساری پالیسیاں حسب سابق قومی نصب العین سے محروم رہیں۔ زرداری صاحب اور انکے چند دوست ملک کو اس طرح چلا رہے ہیں جس طرح کسی تجارتی ادارہ کو چلایا جاتا ہے اور شراکت دار بھی ایسے جو ادارہ کی مضبوطی کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ یہ حضرات گزرتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں لیکن حالات کا دھارا خود اپنا راستہ متعین کرےگا اور اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ بقول شاعر
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
فی الوقت امریکہ کے غاصبانہ تسلط کےخلاف افغانستان میں جو تحریک مزاحمت برپا ہے اسکے ساتھ ساری امت مسلمہ کی ہمدردیاں ہیں۔ اگرچہ حکمران طبقات امریکہ کےساتھ ہیں لیکن پوری امت مسلمہ کے عوام کی قلبی وابستگی انہی بے سروسامان مجاہدین کے ساتھ ہے جن کے پاس اعلیٰ درجہ کی ٹیکنالوجی نہیں۔ جن کے پاس نہ ہوائی فوج ہے نہ ڈیزی کٹر بم ہیں‘ نہ خلائی کیمرے ہیں نہ طاقتور ٹینک، البتہ انکے پاس ایک ہتھیار کی فراوانی ہے اور وہ ہے جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت جسکے بل بوتے پر وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آور طاقت سے ٹکرا کر اسے یاد دلاتے رہتے ہیں کہ تمہارا پالا ایک ایسی غیرت مند قوم سے پڑا ہے جس نے اپنی تاریخ کے کسی مرحلہ میں کبھی غیر ملکی تسلط کو قبول نہیں کیا اور نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور طاقت کی غلامی پر رضامند ہو سکتے ہیں۔ اس جہاد آزادی کی زمامِ کار ”تحریکِ طالبان افغانستان“ کے ہاتھ میں ہے اور افغانستان کی جملہ دینی قوتیں اسکے ساتھ ہیں۔ اب اس جہاد کو امریکہ ”دہشت گردی“ سے تعبیر کرتا ہے لیکن یہ بات اسکے بس میں نہیں کہ وہ ساری دنیا کو بےوقوف بناتا رہے۔ سب جانتے ہیں کہ ”نائن الیون“ کے خودساختہ ڈرامہ میں افغانستان اور پاکستان کا ایک آدمی بھی ملوث نہیں تھا لیکن امریکہ نے اندھی طاقت کے بل بوتے پر پانچ سے چھ لاکھ افغانوں کو بھون کر رکھ دیا اور اب ”کرزئی“ کی صورت میں ایک ”شوبوائے“ بٹھا کر حکومت کر رہا ہے اور بزعم خویش یہ سمجھتا ہے کہ وہ افغانستان پر فوجی طاقت سے اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے گا تو ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ کے مصداق ناممکن ہے۔ افغانوں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ غلامی کے بجائے موت کو گلے لگا لینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے سات سمندر پار سے آ کر افغانستان پر اس لئے قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ وہ وسط ایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کر کے اپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کر سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو شعائر اسلامی سے بدکتا ہے۔ وہ اہل مغرب کے طرز فکر سے متاثر ہے اور مذہب کو خالصتاً اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک تعلق کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ رہے زندگی کے سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات تو ان دائروں میں وہ خدا کو یہ حق دینے کےلئے تیار نہیں کہ اس کا حکم نافذ العمل ہو۔ مثال کے طور پر سود خوری کو قرآن پاک میں صراحت کےساتھ اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے لیکن پاکستان میں قرارداد مقاصد کے آئین کا حصہ بن جانے کے باوجود علی الاعلان سودی نظام قائم ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے زمانہ حکومت میں زکوٰة کا نفاذ ہوا تو سُود کے حوالے سے ایک ترمیم کےمطابق نفع، نقصان کی بنیاد پر اکاونٹس کھولے گئے، لیکن درحقیقت اس نظام میں سود کا نام بدل کر منافع رکھ دیا گیا اور کوئی جوہری تبدیلی رونما نہ ہو سکی۔ علیٰ ھذ القیاس ہم بحیثیت مجموعی معاشی اور سیاسی دائروں میں جھوٹ، وعدہ خلافی، بددیانتی اور بداخلاقی کو روا رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 2008ءکے انتخابات کے بعد بھوربن کے مقام پر زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان عدلیہ کی بحالی کے حوالے سے ایک تحریری معاہدہ ہوا جسکے حوالے سے قبلہ زرداری نے ایفائے عہد نہ کرنے کے جواز میں ارشاد فرمایا تھا کہ ”وعدے قرآن و حدیث“ نہیں ہوتے حالانکہ قرآن پاک میں حکم موجود ہے کہ ”وعدے پورے کرو کیونکہ اسکے بارے میں باز پرس ہو گی“
اوفو بالعھد ان العھد کان مسولا۔ (بنی اسرائیل: (34
امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو شخص سچے دل سے ہادی برحق حضرت محمد کو اپنا ہادی، رہنما اور اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہے اس کےلئے اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اللہ اور اسکے رسول کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرے چاہے وہ حکم ہماری سماجی اور معاشی زندگی سے متعلق ہو یا سیاسی زندگی کے حوالے سے ہو۔ ارشاد باری ہے۔”اے افرادِ نسلِ انسانی تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف نصیحت اور تمہارے دِلوں کی بیماریوں کےلئے نسخہ شفا آ چکا ہے۔ یہ مومنین کےلئے ہدایت اور رحمت ہے“۔ (57:10) پھر فرمایا: ”کسی مومن اور مومنہ کے پاس اس بات کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتا جب اللہ اور اسکا رسول کسی معاملہ کے بارے میں فیصلہ کر دے اور جو شخص اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی پر اتر آئے وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا“۔ (الاحزاب: (36 یہی وہ طبقہ ہے جو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سینکڑوں تقاریر میں سے صرف ایک تقریر کے الفاظ کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اس سے سیکولرازم کا مفہوم نکالنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہتا ہے حالانکہ قائد نے تکرار کےساتھ اپنی تقریروں میں اس بات کو بیان فرمایا تھا کہ ہندو اور مسلمان برعظیم کی دو قومیں ہیں جن کے عقائد، رسوم و رواج، شادی بیاہ۔ حتیٰ کہ کیلنڈرز بھی جدا جدا ہیں اس لئے وہ ہر لحاظ سے الگ قوم ہیں۔ قائداعظم نے تحریک پاکستان کو اسی بنیاد پر آگے بڑھایا کہ نئے وطن میں اسلامی اقدار پر مبنی ایک ایسی جمہوری حکومت وجود میں آئےگی جہاں ہم اسلامی اصولوں کےمطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا تجربہ کرینگے۔ گزشتہ چونسٹھ برسوں میں ہمارے ہر حکمران نے عوامی خواہشات کا خون کیا ہے اور عوام کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر خوب خوب بے وقوف بنایا۔ انتخابات کے دوران میں لوگوں کو سبز باغ دکھایا اور اقتدار میں آکر اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہے۔بظاہر موجودہ حالات میں کسی تبدیلی کی توقع نظر نہیں آتی لیکن تقدیر مبرم یہی نظر آتی ہے کہ موجودہ افراتفری، کمزوری اور مظلومیت کے احوال سے بالآخر امت مسلمہ سرخرو ہو کر نکلے گی۔ اقبال نے کہا تھا ....
”یہ اسلام تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی قوت کو منتشر ہونے سے بچایا (خطبہ الٰہ آباد 1930) اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے اندر جو قوت حیات رکھی ہے وہ اب بھی بہت فعال ہے اور دنیابھر میں رونما ہونےوالے واقعات سے نظر آتا ہے کہ ناامیدی، مایوسی اور گوشہ گیری کا دور ختم ہونے والا ہے.... انشاءاللہ
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے