بھارت دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے

کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے متعلق جو تحقیقات اب تک ہوئی ہیں ان سے پوری طرح واضح ہے کہ اس قتل میں بھارت ملوث ہے۔ پہلے تو صرف کینیڈا کی پولیس اور خفیہ ادارے یہ کہہ رہے تھے کہ مذکورہ قتل میں بھارت ملوث ہے، اب امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے اتحاد سے بننے والے خفیہ ادارے فائیو آئیز نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ خالصتان تحریک کے سرکردہ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھارت کے خفیہ ادارے نے کیا ہے۔ فائیو آئیز کا کہنا ہے کہ اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ اس قلت میں بھارت پوری طرح ملوث ہے۔ فائیو آئیز کے رکن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق معلومات ایک دوسرے سے فوری طورپر شیئر کرتی ہیں اور اس اہم ادارے کے ایک افسر نے بھارتی سفارتکاروں اور افسران کی وہ بات چیت لیک کی ہے جس میں مذکورہ قتل کی منصوبہ بندی سے متعلق شواہد موجود ہیں۔
ادھر، کینیڈا کی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوںنے مکمل تحقیقات کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہردیپ سنگھ کا قتل کینیڈا میں متعین بھارتی انٹیلی جنس کے سٹیشن چیف کی نگرانی میں ہوا۔ امریکی جریدے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے بھی کینیڈا میں بھارتی دہشت گردی کی تصدیق کی ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا ہے کہ ہردیپ سنگھ کے قتل کی تحقیقات مکمل ہونے پر بھارت کو عالمی سطح پر شدید ذلت اور رسوائی کا سامنا ہے۔کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے الزام نے جمہوریت کے علمبردار اور خود کو جمہوریت کی ماں کہنے والے بھارت کو بے نقاب کردیا۔ علاوہ ازیں،امریکا نے خالصتان تحریک کے رہنما قتل پر بھارت سے تحقیقات میں تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات میں بھارت کینیڈا سے تعاون کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے۔انھوں نے مزید کہا کہ یہ اہم ہے کہ تحقیقات مکمل ہوں اور ان کا نتیجہ نکلے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا بین الاقوامی جبر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتا ہے۔
دوسری طرف، بھارت نے ہردیپ سنگھ نجر کے قریبی ساتھی اور پنجاب میں سکھ علیحدگی پسند تحریک کے سرکردہ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کی جائیداد ضبط کرلی ہے۔ اس سلسلے میں سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق، بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے ہفتے کو سکھ اکثریتی ریاست پنجاب کے دارالحکومت چنڈی گڑھ میں گرپتونت سنگھ پنوں کا گھر ضبط کرلیا جبکہ امرتسر میں ان کی زرعی زمین بھی ضبط کرلی گئی ہے۔ گرپتونت سنگھ کو بھارتی حکام نے 2020ءمیں دہشت گرد قرار دیا تھا اور وہ دہشت گردی اور غداری کے الزامات میں مطلوب ہیں۔بھارت کو مطلوب سکھ علیحدگی پسند رہنما نے امریکا میں سکھ فار جسٹس نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس کی ایک شاخ انھوں نے کینیڈا میں بھی بنا رکھی ہے۔ گرپتونت سنگھ پنوں پر الزام ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر آزاد ریاست خالصتان کے لیے لڑنے کے لیے پنجاب کے نوجوانوں اور گینگسٹرز کو مسلسل اشتعال دلا رہے ہیں۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے متعلق بات کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بھارت ایک عرصے سے خطے کے ملکوں کی خودمختاری پر حملے کرتا آرہا ہے اور اب کینیڈا کے کیس سے بھارتی دخل اندازیاں کھل کر دنیا کے سامنے آگئی ہیں۔نیویارک میں اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کے دوران جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل نے بھارت کے چہرے سے نقاب اٹھا دیا ہے۔ ایک سوال کے جواب پر وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم ایشیا بحر الکاہل کے مسئلے میں کسی کی طرفداری نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں یہ خطہ پر امن رہے تاکہ علاقائی معیشت ترقی کر سکے۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی نیویارک میں پاکستانی مشن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا میں سکھ رہنما کو جس بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا اس سے مغربی ممالک کو جھٹکا لگا ہے، اب ان کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان دہائیوں سے بھارتی دہشت گردی کا شکار ہے اور بھارت دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو جس طرح نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کی ایک واضح مثال ہے اور بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ انوارالحق کاکڑ نے نیویارک میں پریس کانفرنس کے دوران عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں کی نسل کشی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
مغربی ممالک کے لیے تو شاید یہ پہلا تجربہ ہو کہ بھارت نے ان میں سے ایک کی سرزمین پر دہشت گردی کی ایک واردات کی ہے لیکن جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے بھارت کی ایسی وارداتیں معمول کی بات ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کو اس واقعے سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ بھارت خطے میں کیا کچھ کرتا ہوگا اور اس کی ایسی وارداتیں دیگر ممالک کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے کتنا بڑا چیلنج بنتی ہوں گی۔ اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم بین الاقوامی کو چاہیے کہ وہ بھارت کی ایسی وارداتوں کا نہ صرف سختی سے نوٹس لیں بلکہ ان کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات بھی کریں، بصورتِ دیگر بھارت اپنی ان وارداتوں کی وجہ سے دوسرے ممالک کو اشتعال دلا کر کوئی ایسی ناخوشگوار صورتحال پیدا کرسکتا ہے جو دنیا بھر کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔