نگران حکومت کی لانگ ٹرم پالیسیاں

نگران وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے کہا کہ یکم اکتوبر کو پٹرول کی قیمت کے حوالے سے عوام کو خوشخبری سنائیں گے۔ گورنر ہاﺅس لاہور میں تقریب کے بعد گفتگو کرتے ہوئے گوہر اعجاز نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت کم ہوئی ہے۔ کرنسی مستحکم ہوئی تو قیمتیں بھی یقینی طور پر کم ہوں گی۔ پٹرول کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب، نگران وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے کہا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری وزارت نجکاری کا ترجیحی شعبہ ہے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ نگران سیٹ اپ جس کی آئینی ذمہ داری ملک میں آئینی مدت کے اندر اندر شفاف انتخابات کرانا ہے وہ اپنا اصل کام چھوڑ کر ریاستی اداروں کی نجکاری جیسے لانگ ٹرم معاملات پر توجہ دے رہا ہے۔ اس سیٹ اپ کو 90 دن کی آئینی مدت کے لیے لایا جاتا ہے تاکہ عوامی حکومت کے آنے تک وہ حکومت کے ان امور کی نگرانی کرے جن کی آئین اسے اجازت دیتا ہے۔ نگران حکومت لانگ ٹرم پالیسیوں کے حوالے سے عوام کو جوابدہ نہیں ہوتی، اس لیے اسے ایسی کسی بھی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے جو منتخب عوامی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ مزید یہ کہ نگران وفاقی وزیر تجارت کا یکم اکتوبر کو عوام کو خوشخبری دینے کا بیان بظاہر امید افزا نظر آتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ کمی چند پیسوں یا روپوں میں کی جاتی ہے جس کا عوام کو آٹے میں نمک کے برابر بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر وزیر تجارت کے اس بیان کا مقصد خبروں میں آنا یا سیاسی مقاصد کا حصول ہے تو عوام کے ساتھ اس سے بڑا اور کوئی مذاق نہیں ہو سکتا۔ حکومت اس وقت پٹرولیم مصنوعات پر کئی قسم کے ٹیکسز وصول کر رہی ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم نرخ اس قدر زیادہ ہیں کہ عام آدمی کے لیے موٹرسائیکل کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ عالمی منڈی میں اس وقت بھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخ انتہائی کم سطح پر ہیں۔ حکومت کم نرخوں پر خرید کر عوام کو مہنگے داموں فروخت کرکے اربوں کما رہی ہے اور اس اضافے کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے جوڑا جا رہا ہے۔ اگر نگران حکومت عوام کو حقیقی خوشخبری دینا چاہتی ہے تو اسے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ عالمی منڈی کی سطح پر لا کر عوام کو ریلیف دینا چاہیے، تبھی عوام کو خوش اور مطمئن کیا جا سکتا ہے۔