یکم اکتوبر کو خوشخبری دیں گے۔ وزیر تجارت

اگر یہ مذاق ہے تو نہایت بھونڈا مذاق ہے۔ ویسے بھی عوام کا حکمرانوں سے کوئی مذاق نہیں ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اعلان کمی کا کیا گیا اور فیصلہ اضافے کی شکل میں عوام کے سروں پر مسلط کیا گیا۔ سب جانتے ہیں آئی ایم ایف کے معاہدے سے روگردانی کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے۔ ہمارے حکمران عوام کی چمڑی تو ادھیڑتے ہیں، آئی ایم ایف کے سامنے ذرا بھر بھی استقامت نہیں دکھاتے۔ عوام کے لیے معمولی سی رعایت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہاں عوام سے مراد وہ 80 فیصد طبقہ ہے جو خطِ غربت سے نیچے ہے یا ذرا سا اوپر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے میں بھی اب ناکام ہو چکا ہے۔
گزشتہ روز ایک کارٹونسٹ نے اس صورتحال کی کیا خوب ترجمانی کی ہے۔ حالات کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ ایک پٹرول پمپ کا ملازم اپنے مالک کے آگے گھڑیوں، ہیلمٹ، قیمتی اشیا، کپڑوں کے ڈھیر جمع کر کے کہتا ہے جناب ! یہ ہے آج کی سیل نقد رقم تو کسی کے پاس نہ تھی سب اپنا سامان دے گئے ہیں۔ واقعی اب یہ وقت آ گیا ہے۔ اس سے زیادہ ب±را وقت اور کیا ہو گا۔ لوگ اپنے بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر پولیس اور دیگر سماجی تنظیموں کی ہیلپ لائن پر روتے ہوئے فاقہ کشی کی داستانیں س±نا رہے ہیں۔
مخیر حضرات بھی اپنے طور جو کچھ ہو سکتا ہے کر رہے ہیں۔ مگر غور کریں یہ 20 فیصد لوگ 80 فیصد کی کتنی مشکلات کم کر سکتے ہیں۔ ہر مالدار سخی تو نہیں ہوتا۔ دولت مند ہونا اور خاندانی ہونا الگ الگ بات ہے۔ بہرطور اب حکمرانوں کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی لا کر تھوڑا بہت ہی سہی ریلیف تو دینا ہی ہو گا۔ اس کے بعد مہنگائی کی لہر پر کیا قابو پایا جا سکے گا۔ جو پٹرول کی قیمت بڑھتے ہی بڑھتی ہے۔ اس کے لیے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہو گا۔ تب ہی عوام کو کچھ ریلیف مل پائے گا۔ بدخبریوں کے اس موسم میں اب لوگوں کا سچ کہیں تو خوش خبری سے اعتماد ہی ا±ٹھ گیا ہے۔
٭٭٭٭٭
شیخ رشید کے بارے میں معلومات نہیں دی جا رہیں۔ بھتیجا شیخ راشد
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ جہاں بھی ہیں خیریت سے ہیں۔ ورنہ ابھی تک ان کی یاد میں پی ٹی آئی والے درجنوں موم بتیاں جلا کر پھول بچھا کر احتجاجی (پرامن) مظاہرے کر چکے ہوتے۔ مگر لگتا ہے پی ٹی آئی والوں نے بھی شیخ رشید کو یوں فراموش کر دیا ہے جیسے حکومت میں آنے کے بعد بھٹو نے اپنے بابائے سوشلزم کو فراموش کر کے ایک کونے میں گوشہ نشین کر دیا تھا۔
رہی بات شیخ جی کی تو سب جانتے ہیں خاص طور پر انہیں لے جانے والے بھی کہ انہیں موصوف سے کچھ نہیں ملنا۔ شادی انہوں نے کی نہیں کہ چار چاردیواری کے تقدس کا مسئلہ ہوتا۔ بچہ ہے نہیں اسے گرفتار کر کے ستایا جاتا۔ پارٹی میں ان کے سوا دوسرا کوئی ہے نہیں جسے توڑ کر علیحدہ گروپ بنایا جاتا۔ دفتر ان کا ہے نہیں گھر وہ لال حویلی کو قرار دیتے ہیں۔ ہاں ان کے فارم ہاﺅس کی بات کی جا سکتی ہے۔ اس سے شاید شیخ جی کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ ورنہ لے دے کے ایک عدد سر پر لگی وگ کے سوا ان کے پاس رکھا ہی کیا ہے۔
اب وہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی طرح ہیں، ان کے لیے اس وقت یہ روپوشی ہی غنیمت ہے۔ ورنہ لال حویلی سیل ہونے کے بعد وہ کیا کرتے کہاں جاتے۔ اب ان کے بھتیجے کو ان کا خیال آ گیا ہے ان کی یاد ستانے لگی ہے۔ کہیں اس محبت کی آڑ میں وہ شیخ چچا کی ون مین پارٹی پر ہی قبضہ نہ کر لیں اور اس کے سربراہ بن کر بیٹھ جائیں۔
ملک کے عوام کی 99 فیصد آج تک شیخ رشید کی پارٹی کے نام سے ہی ناواقف ہے۔ اس لیے ان کے لے جانے والوں سے درخواست ہے کہ پاکستان کی سیاست کے اس ولن نما مہمان اداکار کو اگر کوئی الزام ہے تو عوام کے سامنے لاکر عدالتوں میں پیش کرے۔ ان کی زیادہ سیوا کی ضرورت نہیں۔ وہ تو اپنے مرشد کی گرفتاری کے بعد عوام کی خاموشی پر پہلے ہی آدھ موئے ہو چکے ہوں گے۔ رہی سہی کسر چھپن چھپائی کے بعد گرفتاری نے پوری کر دی ہو گی۔
٭٭٭٭٭
وزارت آئی ٹی نے فائیو جی کے اجرا کی تیاریاں شروع کر دیں
جن سے پہلی بیوی سنبھالی نہیں جاتی وہ بھلا نئی نویلی نخریلی جوان دلہن کیا خاک سنبھالے گا۔ ابھی تک ہم تھری جی اور فور جی کو تو پوری طرح چلا نہیں پا رہے ان کے ثمرات سے استفادہ نہیں کر پا رہے تو بھلا اب ہم کس طرح فائیو جی کی ناز برداریاں اٹھائیں گے۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی تو یوں اعلانات اور تیارں کرتی پھر رہی ہے گویا اس کے دست قدرت میں یہ تمام انتظام ہے۔ حالانکہ حالت کیا ہے اس کا اندازہ ملک میں تھری جی اور فور جی استعمال کرنے والے صارفین کر رہے ہیں۔ ابھی تک یہ ٹیکنالوجی ہمارے بوسیدہ سسٹم پر بوجھ ہے۔ اس میں آئے روز خرابیاں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ کبھی سسٹم سلو ہو جاتا ہے کبھی سگنلز کی پرابلم درپیش ہوتی ہے۔ ہمارے ادارے انہیں پوری طرح چلانے سے قاصر ہیں۔ تو اس صورتحال میں فائیو جی جیسی جدید ٹیکنالوجی لانے سے کیا ہو گا جس کو چلانے کی استعمال کی ہم میں استعداد ہی نہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کون سا امریکہ یا یورپ کا مقابلہ کرنا ہے کہ ہمیں اتنی جلدی ہے۔
ہم تو پی آئی اے کے پرانے طیاروں میں سفر کے قابل نہیں تو بھلا ہم جدید سپرسونک طیارے میں سفر کی توقع کیسے کر سکتا ہیں۔ جس کے لیے نہ رقم ہے نہ اڑانے کی استعداد۔ وزارت آئی ٹی کو چاہیے کہ وہ پہلے ملک میں آئی ٹی کے نظام کی موجودہ خرابیاں درست کرے۔ انہیں صحیح طریقے سے استعمال کے قابل بنائے تو یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ ہم اس سے زیادہ کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ بعد میں جب یہ سسٹم بھرپور طریقے سے فعال ہو تو فائیو جی ٹیکنالوجی کا سوچیں۔ اس وقت تو یہ حالت ہے کہ ہماری موبائل کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے فور جی تھری جی کے نام پر ہمیں لوٹ رہی ہیں 100 کا بیلنس کرائیں تو 72 روپے کا لوڈ ملتا ہے۔ کیا یہ لوٹ مار کوئی روک سکتا ہے۔ یہ فائیو جی کے نام پر مزید لوٹ مار کی راہیں نکالیں گی۔ ان پر بھی پہلے کڑی نگاہ رکھنا ہو گی۔ اصل بات نئے سسٹم کا لانا نہیں موجودہ سسٹم کو کامیابی سے چلانا ہے۔ جس میں ابھی تک ہم کامیاب نہیں ہو پا رہے اور جست لگا رہے ہیں چاند سے مریخ تک پہنچنے کی۔
٭٭٭٭٭
الیکشن 28 جنوری کو ہوں گے۔ منظور وسان کی نئی پیشین گوئی
حالات و واقعات تو یہی بتا رہے ہیں اور حکومت بھی جنوری 2024 ءمیں الیکشن کرانے کا سوچ رہی ہے تو اس میں پیشین گوئی کہاں سے آ گئی۔ حکمران اور الیکشن کمشن جنوری میں الیکشن کا کئی بار عندیہ دے چکے ہیں۔ اس لیے فی الحال یہ بات وہ ملکی صورتحال دیکھ کر کہہ رہے ہیں اور عوام کی اکثریت یہ سب پہلے ہی جانتی ہے۔ ان کے لیے اس میں اچنبھے والی کوئی نئی بات نہیں۔ رہی بات ان کی یہ کہ نواز شریف آئیں گے۔ اس کو کسی حد تک خوش گمانی یا پیشین گوئی کہی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ ابھی تک ان کی آمد کے اعلان کے باوجود لگ یوں رہا ہے کہ شاید ان کی آمد کا بگل بجنے میں تاخیر نہ ہو جائے۔ اعلان کے باوجود لندن میں بیٹھک جمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے شکوک و شبہات بڑھتے اور گھٹتے رہتے ہیں۔ اب وسان جی کے بقول وہ آ رہے ہیں تو میاں جی کو آ ہی جانا چاہیے۔ یوں یہ قیاس آرائی آدھی پکی اور آدھی کچی ہی ثابت ہو رہی ہے۔ نجانے اب کیا ہو گیا ہے۔ منظور وسان کو کہ وہ پیشین گوئی کم اور حالات کا تجزیہ زیادہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب بھلا یہ کوئی بات ہے کہنے والی کہ اصل مقابلہ پی پی اور مسلم لیگ کے درمیان ہو گا۔ کیا یہ جو پی ٹی آئی اور اس کے وجود سے نکلنے والے باقی دھڑے ہیں وہ یونہی میدان کھلا چھوڑ دیں گے۔ یہ وسان جی کی بھول ہے۔ یہ سیاسی گلشن یونہی آباد نہیں ہوا کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن) باد صرصر بن کر اس مشکل سے سینچے چمن کو کشت ویراں میں تبدیل کر دیں۔ کئی حلقوں حلقوں کے نتائج حیران کن غیر متوقع ہو سکتے ہیں۔ رہی بات سندھ میں کلین سویپ کی تو اگر ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کا اتحاد نہ بھی بنا پھر بھی وہ پی پی کو آسانی سے جیتنے نہیں دیں گے اپنا حصہ بقدر جثہ ضرور وصول کریں گے۔ باقی پنجاب خیبر پی کے اور بلوچستان میں بھی باقی جماعتیں لنگوٹ کس کر میدان میں موجود ہیں اس لیے اتحادی حکومت ہی بن سکتی ہے تنہا کوءجماعت یہ معرکہ سر نہیں کر سکتی۔ یہ بھی پیشین گوئی نہیں قیاس آرائی ہے۔